ایسے نئے جوڑوں کی بھی کمی نہیں جو ہنی مون کے لئے آگرہ آتے ہیں اور تاج محل کے سامنے تصویریں اتار کر اپنے سفر کو یادگار بناتے ہیں۔ساحرؔ لدھیانوی کی اس نصیحت کو بھی کوئی ماننے کو تیار نہیں کہ ’’میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے‘‘۔مگر تاج کے پروانوں کی کثرت ہی اب اس کے لئے خطرناک ثابت ہورہی ہے اور اس کے وجود کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہا ں زیادہ لوگوں کی آمد ورفت سے اس ساڑھے تین سو سالہ عمارت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور اگر وقت رہتے اس کا تدارک نہ کیا گیا تو آرٹ اور آرکیٹکچر کا یہ معجزہ سدا کے لئے برباد ہوجائے گا اور اس کے حسن کے قصے کتابوں کے صفحات تک محدود رہ جائینگے۔ ماہرین اس پہلو پر غور کر رہے ہیں کہ زیادہ سیاحوں کی آمد ورفت سے تاج کو کیا نقصان پہنچ رہا ہے اور اس سے بچاؤ کے لئے کیا کیا تدبیریں کی جاسکتی ہیں۔دنیا میں بھارت کو تاج محل کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے اور اس عجوبۂ روزگار کے سبب ملک کو روزگار بھی ملتا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ ہمارا ملک اس تعلق سے بے حس ثابت ہوا ہے اور جب تک سپریم کورٹ کی طرف سے کوئی حکم نہیں آتا،ہم اس جانب توجہ نہیں دیتے۔یہ وہ عمارت ہے جو روئے زمین پر اپنا جواب نہیں رکھتی اور دنیابھر کی دولت خرچ کرکے بھی اسے دوبارہ تعمیر نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا کسی بھی قیمت پر اسے بچانا لازمی ہے۔
سیاحوں کی تعداد محدود کی جائے
تاج محل میں سالانہ ساٹھ لاکھ تک سیاح آتے ہیں اورہر سال اس تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ دنیا کی کسی اور عمارت کو دیکھنے کے لئے اتنی بڑی تعداد میں لوگ نہیں آتے ہیں۔ پچھلی دیوالی پر یہاں ڈیڑھ لاکھ کے قریب سیاح ایک وقت میں نظر آئے، جب کہ محافظ چھٹیوں پر تھے۔ایک مقام پر اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی آمدورفت کے اثرات ماحولیات پر پڑتے ہیں اور ممکن ہے ایسا ہی تاج محل کے
ساتھ ہورہا ہو، اس پہلو پر ماہرین کی ایک ٹیم تحقیق کر رہی ہے۔ تاج محل کے احاطے میں جو پیڑ پودے ہیں ان پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں سو اپنی جگہ مگر تاج محل بھی ماحولیات کی خرابی سے اچھوتا نہیں رہ سکتا۔ یہاں ایک وقت میں ہزاروں افراد سانسیں لیتے ہیں اور ان کے جسم سے مختلف قسم کے بخارات خارج ہوتے ہیں جس کا اثر ایک حد تک ہی پتھر بھی برداشت کرسکتا ہے۔ سفید سنگ مر مر پر دھبے آسکتے ہیں اور اس کا حسن ماند پڑسکتا ہے۔ تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسے بنوانے والے شاہجہان نے یہاں مختلف قسم کے پیڑ پودے لگوائے تھے اور اس پورے احاطے کو پھولوں کی کیاریوں سے سجایا تھا۔ آج بھی کوشش ہو رہی ہے کہ یہاں انھیں پودوں اور پھولوں کو رہنے دیا جائے جو مغل عہد میں ہوا کرتے تھے مگر ان پودوں کو لوگوں کی کثرت سے نقصان پہنچنا فطری بات ہے۔ یہاں بیشتر پیڑ پودے انار اور مہندی کے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اسی مناسبت سے جمنا ندی کی دوسری جانب، تاج محل کے پچھلے حصے ، مہتاب باغ میں بھی انار ہی کے پودے لگائے گئے ہیں۔ مشہور ہے کہ یہاں تاج محل کا ایک جواب بنانے کے بارے میں شاہجہاں نے سوچا تھا مگر یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا،ویسے اس عوامی روایت کی کوئی تاریخی بنیاد نہیں ہے۔ تاج محل کے آس پاس پیڑ پودے اور باغیچے لگانے کے پیچھے ممکن ہے اس کے معماروں کا مقصد محض خوبصورتی اور سجاوٹ ہو، مگر جدید سائنس کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ماحولیات کو صاف کرنے کا کام کرتے ہیں۔ اس طرح سے تاج کی حفاظت کے لئے یہ ایک فطری دربان اور محافظ کا کام بھی کر رہے ہیں۔ دنیا کی کوئی تاریخی عمارت ایسی نہیں، جہاں لامحدود لوگوں کو جانے کی اجازت ہو۔ اسلامی اسپین کی یادگار ’قصر الحمراء‘کو دیکھنے والے سیاحوں کی تعداد محدود رکھی جاتی ہے اور ایک گھنٹے میں پانچ سو سے زیادہ سیاحوں کو یہاں آنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے، اسی قسم کی پابندی تاج محل کے لئے بھی ہونی چاہئے۔ تاکہ اسے نقصان سے بچایا جاسکے۔
تاج کی حفاظت کے لئے جمنا کی صفائی ضروری
تاج محل کو جمنا ندی کے کنارے بنانے کا سائنسی سبب تھااور سول انجینئر اس کی اہمیت سے واقف ہیں۔ آج اگر تاج محل کی بنیادوں سے نمی غائب ہوجائے تو یہ عمارت زیادہ دن قائم نہ رہ سکے مگر اسی جمنا ندی کی آلودگی آج اس کے لئے مضر ثابت ہورہی ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم سے ان آئل ریفائنریوں کو بند کیا جاچکا ہے جو آگرہ میں برسوں سے پالوشن پھیلا رہی تھیں۔ چند کیلو میٹر کے دائرے میں موجود دھواں چھوڑنے والے دگر کارخانے بھی بند کئے جاچکے ہیں، مگر گنگاندی کی آلودگی سے جو تاج کو نقصان پہنچ رہا ہے اس سے بچاؤ کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ کب تک یہ انتظام ہوگا۔ مرکزی سرکار نے گنگا کی صفائی کا اعلان کیا ہے اور اس کے لئے فنڈ بھی مخصوص کیا گیا ہے مگر گنگا کی صفائی اس وقت تک ممکن نہیں ہے، جب تک کہ جمنا اور ان سبھی ندیوں کی صفائی نہ کی جائے جو گنگا میں آکر گرتی ہیں۔ گنگا کی طرح ہی جمنا کی بھی تاریخی، مذہبی اورمعاشی اہمیت ہے۔ تاج محل کو محفوظ رکھنے کے لئے جمنا کی صفائی لازمی ہے جس سے گزرکر تاج سے ٹکرانے والی کثیف ہوائیں اس طرح اس کے سفید سنگ مر مر کے لئے مہلک ثابت ہورہی ہیں جس طرح انسانوں کے پھیپھڑے کو یہ کینسر میں مبتلا کرتی ہیں۔
سخت اقدام کی ضرورت
تاج محل ، شہر آگرہ اور یہاں کی تاریخی عمارتوں کی حفاظت کے تئیں ہمیں اور ہماری سرکار کو حساس ہونے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں اس قسم کی خبریں بھی آتی رہی ہیں کہ تاج پر دہشت گردانہ حملوں کا اندیشہ ہے اور اسی لئے سیکورٹی سخت کی گئی مگر تاج کی حفاظت کے لئے جن دوسرے اقدام کی ضرورت ہے، اس پر بھی غور وخوض ہونا چاہئے۔ یہاں جو لاتعداد لوگوں کی آمدورفت جاری ہے وہ محدود ہونی چاہئے۔ ہر گھنٹے میں صرف ہزار یا دو ہزار افراد کو ہی تاج کے احاطے میں آنے کی اجازت ملنی چاہئے اور یہ سلسلہ بھی آٹھ گھنٹے سے زیادہ نہ چلے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے مہینوں پہلے ٹکٹوں کی بکنگ ہو اور جو لوگ یہاں آئیں ان پر سخت نظر رکھی جائے اور ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو۔ تاج کے احاطے میں واقع مسجد کے نمازیوں کے لئے کارڈ ایشو کیا جائے اور انھیں مسجد تک ہی محدود رکھا جائے ۔ جمعہ کے روز بھی نمازیوں کو مسجد تک ہی رکھا جائے ۔ دیکھا جاتا ہے کہ عام لوگ بھی جمعہ کے روز ٹوپی لگا کر بغیر ٹکٹ داخل ہوجاتے ہیں ،جو نمازی نہیں ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کو روکا جائے۔نماز پڑھنے کے لئے آگرہ میں مسجدوں کی کمی نہیں ہے مگر جس طرح سے نماز کی آڑ میں غیر نمازی بھی یہاں آجاتے ہیں اس سے مستقبل میں کسی خطرے کا اندیشہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان پہلووں پر سرکار غور کر رہی ہے، حالانکہ اس سلسلے میں جلد اقدام کی ضرورت ہے۔
کیا یہی آگرہ ہے؟
آگرہ ایک تاریخی شہر ہے اور اس کی داستان تاریخی کتابوں میں ہزاروں صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ شہر ایک مدت تک ہندوستان کی راجدھانی رہا ہے اور اس نے عروج وزوال کے بہت سے دور دیکھے ہیں۔ اس کی اینٹ اینٹ پہ دیدہ وروں کو ہزاروں داستانیں رقم دکھائی دیتی ہیں مگر افسوس کہ آج یہ عالمی شہرت کا حامل شہر اپنی موت آپ مر رہا ہے اور کوئی اس پر آنسو بہانے والا نہیں۔ دنیا بھر کے سیاح یہاں تاج محل دیکھنے آتے ہیں مگر اس شہر میں قدم رکھتے ہی انھیں مایوسی ہوتی ہے۔ سڑکیں خراب اور گندی ہیں۔ گلیاں تنگ اور کوڑے کرکٹ سے اٹی پڑی ہیں۔ سڑکوں پر ٹرافک جام عام بات ہے اور ٹرافک پولس ندارد ہے۔ سیاحوں کے ساتھ لوٹ کھسوٹ روز مرہ کا معمول ہے اور کوئی اس کی خبرگیری کرنے والا نہیں۔یہاں قدم رکھ کر ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ انسان عالمی شہرت یافتہ آگرہ میں ہے۔ سیاحت سے ہمارے ملک کو معاشی فائدہ ہوتا ہے اور لاکھوں افراد اس سے روزگار پاتے ہیں۔ سالانہ کروڑوں روپئے زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے اور ملک کی معیشت مضبوط ہوتی ہے مگر ہم اس جانب توجہ نہیں دیتے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ پورے شہر آگرہ کو سیاحت کے نقطۂ نظر سے سجایا سنوارا جائے۔ یہاں تاج محل کے علاوہ ،وہ قلعہ بھی ہے جسے اولین لال قلعہ کہا جاسکتا ہے اور جس کے اندر کی چار سو سال پرانی عمارتیں آج بھی بے مثل و بے مثال ہیں۔ یہاں سکندرہ کے علاقے میں مغل حکمراں جلال الدین محمد اکبر کا مقبرہ بھی ہے جو اپنی تعمیری خوبیوں میں لاجواب ہے۔ اسی آگرہ میں اعتمادالدولہ کا مقبرہ بھی ہے جسکی نقاشی ایران وتوران کی تاریخی عمارتوں کو منہ چڑا تی ہے اورجو ملکہ ہندوستان نورجہاں کے ذوق جمال کی داستان بیان کرتا ہے۔ یہاں سے چند کیلو میٹر کے فاصلے پر فتح پور سیکری کا وہ قلعہ بھی ہے جسے اکبر نے سرخ پتھروں سے بنوایا تھا اور اس کے نقش ونگار آج بھی فن کا اعلیٰ نمونہ سمجھے جاتے ہیں۔یہاں تاج محل کے علاوہ اور بھی تاریخی یادگاریں ہیں جو زبان حال سے قدیم ہندوستان کی عظمت کی داستان سناتی ہیں مگر اس عظیم خزینے کے تعلق سے ہماری بے حسی بھی کم تعجب خیز نہیں۔
جواب دیں