خطرات ۔ لاک ڈاؤن کے بعد

   ڈاکٹر علیم خان فلکی

لاک ڈاؤن کے بعد جن حالات کا سا منا ہوگا بہت کم لوگوں کو اس کا علم ہے۔ بالخصوص مسلمانوں کو جن کا تقدیر پر اتنا اندھا ایمان ہے کہ جب تک مصیبت سر پر نہیں آجاتی، وہ آرام سے سونا چاہتے ہیں۔ سنا ہے ہمارے ایک بادشاہ سلامت نے بھی یہی کیا تھا۔ جب ان کی خدمت میں دست بستہ ہوکر یہ عرض کیا گیا کہ انگریز اب دہلی کی طرف بڑھ رہا ہے تو انہوں نے فرمایا تھا کہ  ”دِلّی دور است“ یعنی دِلّی ابھی دور ہے۔ نتیجہ؟ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ اگر آپ اپنے بزرگوں کی ماضی کی بھیانک غلطیاں دہرانا نہیں چاہتے تو ان امور پر غور فرمایئے۔
پہلا خطرہ: لاک ڈاؤن کے بعد ہر چیز کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں گی۔ کیونکہ دوکانداروں کو تین مہینے کے نقصان کی پابجائی کرنی ہے۔ اس کے بعدجب فیکٹریز اور انڈسٹریز کھلیں گی تو دوسری ریاستوں کے ورکر پتہ نہیں واپس آئیں گے یا نہیں۔ پروڈکشن کم ہوجائیگا اورڈیمانڈ زیادہ ہوجائیگا جس کے نتیجے میں بلیک مارکٹنگ اور قیمتوں میں مزید اضافہ ہوجائیگا۔ مڈل کلاس اور غریب کلاس جن کی پہلے ہی جیبیں خالی ہوچکی ہیں ان پر کیا گزرے گی آپ اندازہ لگاسکتے ہیں اس کے علاوہ جب فیکٹری کا مال مارکٹ میں کم ہوجائیگا تو کوالٹی بدتر ہوجائیگی۔ کم قمیت پربکنے والا نقلی مال مارکٹ میں پھیل جائیگا۔ بالخصوص کھانے پینے کی نقلی  اشیا جب ہر طرف پھیل جائینگی تو لوگوں کی دواخانے کتنے آباد ہوجائینگے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کو روکنے کے لئے رشوت کو ختم کرنے والی ایک سخت حکومت چاہئے۔
دوسرا خطرہ:سینکڑوں کمپنیوں اور فیکٹریز کے بند ہوجانے کا خطرہ ہے۔ ہزاروں کی نوکریاں چلی جائینگی۔ جب تک دوبارہ نوکریاں بحال ہوں، کئی ایک یا تو خودکشی کرنے یا پھر کرائم کرنے پر مجبور ہوجائینگے۔لاک ڈاؤن میں ایک مسئلے کو خوب ہوا دی گئی۔ گلف ممالک کے اہم ذمہ داروں نے جب کچھ ہندو ؤں کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے کے جرم میں ملک سے نکال دیا، اورتنبیہ کی کہ جس طرح گلف میں لاکھوں ہندوؤں کو بلا لحاظ مذہب کام کرنے اور کمانے کا موقع دیا جاتا ہے اسی طرح ہندوستانی حکومت کو بھی چاہئے کہ اپنے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے تعصب اور فرقہ پرستی کو روکے۔ اس واقعہ کا فائدہ اٹھا کر فاشسٹوں نے ہندوستان میں مسلمان ملازمین کے خلاف فضا بنانی شروع کردی تھی۔ اب لاک ڈاؤن کے بعد جو سخت Inflation  پیدا ہونے والا ہے، نوکریوں کے معاملے میں یہ سارے فرقہ پرست اپنا کام دکھائیں گے اور مسلمانوں کو نوکریوں سے نکلوانے کے لئے بھرپور کوششیں کرینگے۔  ان خطرات سے نپٹے کے لئے ایک اچھی، ایماندار اور تعلیم یافتہ حکومت جو تعصبات سے پاک ہو، وہ درکار ہوتی ہے۔ یہ کہاں سے آئے گی آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔
تیسرا مسئلہ:  حکومت نے بجلی اور پانی کے بِل نہ دینے کی رعایت ضرور دی ہے لیکن معاف نہیں کئے۔ بینکوں نے قرضوں کی قسطیں نہ دینے کی رعایت ضرور دی ہے لیکن معاف نہیں کئے۔ مکان داروں نے کرایہ داروں سے کرائے نہیں لئے لیکن معاف نہیں کئے۔ خود سرکاری ملازمین کو سرکار آدھی تنخواہ ادا کرسکی تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پرائیوٹ سیکٹر میں کیا ہوا ہوگا اور روزانہ کی دھاڑی والے مزدوروں کا کیا ہوا ہوگا۔ اب یہ لوگ پیسہ لائیں گے کہاں سے؟
چوتھا مسئلہ :  یہ کرونا سے کہیں زیادہ بھیانک ہوسکتا ہے۔ ٹڈیوں Locusts کے ہزاروں جُھنڈ جو ہندوستان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ ملک کے ایک خطرناک قحط سالی کا شکار کرسکتے ہیں۔ پہلے ہی راجستھان اور مدھیہ پردیش میں جس وقت تک یہ مضمون لکھا جارہا ہے پچاس ہزار ہیکٹر کی فصلیں تباہ کرچکے ہیں۔ یہ ٹڈیاں ایک دن میں پیتیس ہزار انسانوں کی ایک دن کی غذا ایک دن میں برباد کرتی ہیں۔ ان ٹدیوں کی پسندیدہ غذا تازہ فصلیں ہوتی ہیں۔ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ان کا رخ موڑ دے جس طرح اکثر طوفانوں کا رخ پلٹ جاتا ہے۔ ہندوستانی اگریکلچر ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ جون کا پہلا اور دوسرا ہفتہ ہندوستان کے لئے خطرناک ثابت ہوگا۔یہ ٹڈیاں اگرایک مہینہ بھی زندہ رہیں تو ہندوستان کی چھ مہینے کی غذا کو ختم کردیں گی۔
اس کا حل کیا ہے؟ حل یہ ہے کہ حکمران عذابِ الٰہی کیا ہے یہ سمجھیں، عہدِ موسیٰ میں بنی اسرائیل کے نافرمانوں پر جن میں گائے کی پرستش کرنے والے نافرمان بھی شامل تھے اللہ تعالیٰ نے ان پر ٹڈیوں کا عذاب کیوں نازل کیا تھا، اِس کو سمجھیں۔ اس کا تذکرہ قرآن میں بھی ہے اور بائبل میں بھی۔ لیکن یہ سمجھانے والے کہاں سے آئیں گے اور سمجھنے والے حکمران کہاں سے آئیں گے اس کا اندازہ آپ خود کرسکتے ہیں۔
 چونکہ یہ ٹڈیاں عمان کے صحراؤں سے ہوتی ہوئی ایران اور پاکستان سے گزر کر ہندوستان میں داخل ہورہی ہیں، اس لئے جن لوگوں نے تبلیغی جماعت کے واقعہ کو لے کر کرونا کو مسلمان بنادیا اور ملک کی ؎فضا کو زہر آلود کردیا، اب وہی لوگ ٹڈیوں کو لے کر پاکستان کی سازش کے نعرے لگانا شروع کرچکے ہیں۔ ارنب گوسوامی نے ٹی وی چینل پر زہر اگلا اور حکومت اب تک خاموش ہے۔ اگرچہ کہ ملک کی اکثریت کا تعلیم یافتہ طبقہ اس جاہلانہ الزام کو رد کرچکا ہے بلکہ ارنب گوسوامی کو دھتکا ر چکا ہے، لیکن بھگتوں کی ٹی وی چینلس نے ایسے زہریلے اینکرز کی جئے جئے کار کرنی شروع کردی ہے۔ اگر ٹڈیوں کے دَل ہندوستان کی طرف آنا نہ رُکے تو یہ فرقہ پرست ملک کے امن  اور سلامتی کے لئے کرونا اور ٹڈیوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
پانچواں خطرہ:  لاک ڈاؤن کی وجہ سے NRC

«
»

حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا حکومت ملنے پر لوگوں سے خطاب

منصبِ افتاء مقامِ حزم واحتیاط ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے