انہی افرادمیں سرِ فہرست ایریل شیرون تھاجو۱۱جنوری کواس دنیاسے اس طرح رخصت ہواکہ دنیابھرکے مشہور اخبارات نے اس کی موت پربڑی عبرتناک سرخیاں جمائی ہیں۔ایک اخبارکی سرخی ’’قصاب کوموت آہی گئی‘‘سے لگتاہے کہ ایڈیٹرکویہ ذاتِ کم ظرف اس دھرتی پر(مقابلتاًزیادہ بڑا)بوجھ محسوس ہورہی تھی۔خبرکی تفصیل میں بتایاگیا’’ہزاروں مسلمانوں کاقاتل اوربیروت کاقصائی اسرائیل کاسابق وزیراعظم ایریل شیرون ۸۵سال کی عمرمیں مرگیا۔شیرون نے ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کوشہیدکیا،فلسطینیوں کابدترین دشمن ۸سال تک زندہ لاش بنارہا۔اسرائیل کایہ ظالم حکمران ۸سال سے فالج کے حملے کے بعدمسلسل کومے میں تھا اوردنیاکیلئے عبرت کی تصویربناہواتھا۔
شیرون کی موت کی خبر۱۱جنوری کواسرائیل کے آرمی ریڈیوپرنشرکی گئی جس میں موصوف کے کرتوت بیان کرتے ہوئے کہاگیا:’’شیرون نے لبنان میں فلسطینی کیمپوں صابرہ وشتیلا میں ہرعمرکے مردوزن اوربچوں سمیت ہزاروں فلسطینی مہاجروں کے قتل کی منصوبہ بندی کی ۔۱۹۸۲ء میں فلسطینیوں کے قتل عام پرشیرون کوبیروت کاقصائی کانام دیاگیا۔شیرون مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کاپرزورحامی تھامگراس کے آخری اقدامات سے غزہ کی پٹی سے اسرائیلی فوج کی واپسی نے اس کے ’’مداحوں‘‘کوحیران کردیا۔اس نے اپنی جوانی میں خفیہ یہودی تنظیم ’’ہگانا‘‘میں شمولیت اختیارکی اور۴۹۔۱۹۴۸ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بطورپلاٹون کمانڈرشرکت کی۔۱۹۵۰ء کی دہائی میں یونٹ۱۰۱نامی فوجی دستے کی قیادت کی جس کاکام فلسطینی مسلح گروہوں کے خلاف کاروائیاں کرناتھا۔شیرون نے اسرائیل کے قیام سے لیکر اب تک ملک کی تمام جنگوں میں شرکت کی،اسی لئے اسے ایک نڈر فوجی اوربہترین عسکری منصوبہ سازتصورکیاجاتاتھا۔۱۹۵۶ء میں سوئزجنگ میں چھاتہ برداروں کے ایک بریگیڈکی قیادت کی اورمیجرجنرل کے عہدے تک پہنچ گیا۔شیرون ایک نئی دائیں بازوکی لیکودپارٹی کے ٹکٹ پراسرائیلی پارلیمان کارکن منتخب ہواتاہم اگلے سال ہی اسرائیلی وزیراعظم اسحق رابین کامشیربرائے سیکورٹی بننے کیلئے رکنیت چھوڑدی۔۱۹۷۳ء میں وہ دوبارہ اسرائیلی پارلیمان کاحصہ اور۱۹۸۱ء میں اسرائیل کاوزیردفاع بنا۔یاسرعرفات کی پی ایل اوکی جانب سے جنوبی لبنان سے شمالی اسرائیل میں راکٹ حملوں کے بعد ۱۹۸۲ء میں شیرون نے ہمسایہ ملک پرحملے کی منصوبہ بندی کی تھی اوروزیراعظم کومطلع کئے بغیرہی فوج کوبیروت بھیج دیا۔اس کاروائی کے بعدپی ایل اوکوبیروت سے نکال دیا گیا تھا ۔
لطیفہ یہ ہے کہ شیرون کوبعض لوگوں کی طرف سے اس کی موعودہ سرگرمیوں کی بناء پر’’علمبردارامن‘‘(Peace Maker) کے نام سے ’’مشہور‘‘کرنے کی کوشش بھی کی گئی مگردنیا اگرچہ گوئبلزکے کارندوں سے اب بھی خالی نہیں مگراس شخص کولوگ قصاب اوربلڈوزرہی کے ناموں سے یادکرتے رہے اورانہی ناموں سے وہ ذلت آمیزصہیونی تاریخ کے شرمناک باب میں دبارہے گا۔قیام امن کی مساعی کیلئے قائم کی گئی ایک تنظیم’’جوائنٹ اسرائیل فلسطینی ایڈوکیسی گروپ‘‘کے بانی میخائل وارشاوسکی کاکہناہے کہ’’ اسرائیل کی تاریخ میں (جسے عموماً انسانیت کے حوالے سے ظلم وظلمت سے معمورتاریخ کانام دیاجائے گا)دوشخصیات کواہل فکرونظرکی حیثیت سے جاناجائے گا۔پہلاایریل شیرون اوردوسرابن گوریان،میں تسلیم کرتاہوں شیرون فی الواقع ہی ایک ظالم وجابرقصاب تھابلکہ زیادہ صحیح حقیقت تویہ ہے کہ وہ قصاب سے بڑھ کرتھا۔اسے بن گوریان اورموجودہ وزیراعظم نیتن یاہو کی طرح مقبول عام یاپارٹی پالیٹکس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ،وہ اسرائیل مخالف ہرقوت کوکچل ڈالنے کیلئے کسی بھی حدتک جانے کواپنامقصدِحیات سمجھتاتھا۔وہ اس قسم کی باتوں کی پرواہ نہیں کرتاتھاکہ اسرائیل کیاہے اوراسے کیاہوناچاہئے؟وہ یہودیوں کی ’’برتر‘‘حیثیت پرہررائج اصول اورقاعدے کوپامال کرنے کیلئے ہمہ وقت تیاررہتاتھا۔اس نے سیاسی اور فوجی میدان میں جوبھی تجربات کئے وہ اس کے منفردوحشیانہ طرزِ عمل کے زندہ ثبوت ہیں‘‘۔
تل ایبب یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر میناکم کلین کاکہناہے:’’جنرل شیرون نے اپنے منفردفوجی اصول وضع کئے ہوئے تھے۔یونٹ۱۰۱کے نام سے قائم کئے گئے خفیہ ’’ریٹر یبیوشن اسکواڈ‘‘کاقیام انہی اصولوں کے مطابق عمل میں لایاگیا۔یونٹ۱۰۱ نے ۱۹۵۰ء اور۱۹۶۰ء کے عشروں میں جوننگ انسانیت کرداراداکیاوہ پوری انسانیت پرواضح ہے۔جس طرح ہراستعماری طاقت نے اپنے دفاع کیلئے بدترین جارحیت کواپنایااسی طرح یونٹ۱۰۱نے فلسطینیوں کومتوقع ’’حملوں‘‘سے روکنے کیلئے ان پرپیشگی حملے کئے اوران حملوں میں فوجیوں سے زیادہ عام معصوم وبے گناہ شہری جن میں بچے،بوڑھے اورعورتیں سب شامل تھے،لقمۂ اجل بنائے جاتے رہے ہیں۔بعدمیں وزیردفاع کی حیثیت سے شیرون نے ۱۹۸۲ء میں لبنان پرجارحیت کاارتکاب کیااورفلسطینیوں کوان کے ٹھکانوں سے محروم کرنے اوراپنے شمالی ہمسایہ کوعدم استحکام سے دوچارکرنے کیلئے جوخونی کھیل کھیلا،وہ بھی اس کے سیاہ مکروہ کارناموں میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یادگاربنارہے گا۔ شیرون نے اس دوران جومظالم ڈھائے وہ ناقابل بیان حدتک انسانیت سوزاورننگ انسانیت ’’کارنامے‘‘ہیں۔ صابرہ وشتیلا کے کیمپوں میں جس بیدردی اوربہیمانہ طریقے سے فلسطینیوں کو شہیدکیاگیاوہ پوری دنیاکی جانب سے شدیدمذمت کاباعث بنا۔اسرائیل کی اپنی انکوائری کے مطابق یہ اقدام شیرون کی ’’ذاتی کاوش‘‘تھا۔
اس انکوائری کے نتائج سے اسرائیل بزرجمہرغالباًیہ ثابت کرناچاہتے ہیں کہ شیرون کے اس نوع کے سیاہ کارناموں کاناجائزصہیونی ریاست کومن حیث الجمع ذمہ دارقرارنہیں دیاجانا چاہئے مگراس پرغیرجانبداردنیاکیاکہے گی کہ شیرون ہی کے جنگی اصول وضوابط پراب بھی پوری طرح عمل کیاجارہاہے۔اسرائیلی فوج میں آج بھی Dahiya Doctrineپر عمل کیاجارہاہے اورغزہ اورلبنان کوآج بھی پتھرکے زمانے میں واپس لوٹانے کے مذموم عزائم اعلانیہ ظاہرکئے جارہے ہیں۔فلسطینیوں کے جانی نقصان کے علاوہ ان کے انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے کیلئے عالمی طورپرمسلمہ کنونشن اوراصول وضوابط پس پشت ڈالے جارہے ہیں اوراسرائیلی فوج کی زبان پربھی یہی کلمات جاری رہتے ہیں کہ اسرائیل اپنے ’’سیاسی مقاصد‘‘ پورے کررہاہے۔‘‘میخائل وارشاسکی کاکہناہے:’’شیرون نے بھی یہ بات تسلیم نہیں کی کہ ۱۹۴۸ء کی وہ جنگ جس میں جبراًناجائزریاست قائم کی گئی ‘‘ختم ہوچکی ہے۔شیرون ناجائزریاست کی حدوں کو توسیع دینے میںآخری دم تک اپنے جابرانہ اندازمیں مصروف رہا۔اس وقت تک جب وہ عبرت کی علامت بننے کیلئے برسوں پرمحیط غشی کا شکار نہیں ہوگیا۔
امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے حال ہی میں اسرائیل اورفلسطینیوں کے مابین امن مذاکرات کی بحالی کی کوششوں کونئی توانائی بخشنے کیلئے خطے کادورۂ کیا۔اسرائیلی کالم نگارکیموشالیو نے خیال آرائی کرتے ہوئے کہا:شیرون کی روح ان مساعی میں کارفرماہے،شیرون ’’آبادکاریوں کاباپ (Father of Settelments) تھا۔اس شخص نے یہودی بستیاں بسانے کیلئے شائدسب سے زیادہ ’’خدمات‘‘انجام دی ،نیتن یاہوکے مقابلے میں بھی(یقیناً) زیادہ۔۱۹۶۷ء کی سرحدیں ختم کرنے ،اسرائیل اورمقبوضہ علاقے کوایک دوسرے سے الگ کرنے،اپنی من مرضی کے مطابق فلسطین کانقشہ تبدیل کرنے اورفلسطینی ریاست کے قیام کے امکانات ختم کرنے میں شیرون کاکردارسب سے نمایاں رہاہے‘‘۔
اپنے ابتدائی سیاسی کیرئر میں شیرون نے حکومت کے کمترمناصب پرکام کیا،اس دوران میں یہودیوں کے قبضوں میں اضافے کی تدابیرسوچتارہا۔۱۹۸۰ء کے عشرے کے اوائل اس نے (Exclusive) ایکسکلیسوجیوش کمیونٹی کی بنیادرکھی۔اسرائیل اورمغربی کنارے میں طبعی امتیازاوراسرائیل میں توسیع اوراسرائیلی بستیاں اسرائیل میں باقاعدہ طورپرشامل کرنے میں کوشاں رہا۔اس دوران میں اندرون اسرائیل فلسطینیوں کی ملکیتی اراضی جبراًقبضوں کے علاوہ فلسطینی اقلیت کواسرائیل کے مختلف علاقوں میں مقیم ہونے پرپابندیاں عائدکرتارہاہے۔کیلیلی اورنیگیوکے علاقوں میں صرف اورصرف یہودیوں کورہائش رکھنے کاایک پروگرام شروع کیااورنیگیومیں تعمیرکئے گئے اپنے ایک وسیع فارم میںیہودیانے (Judaisation) کے اس عمل میں سرگرم رہا۔بعدمیں جب شیرون وزیراعظم بن گیاتواس نے اوسلومعاہدے کی صریحاًکھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ’آپریشن ڈیفنسو شیلڈ‘ شروع کردیاجس کامقصدفلسطینی اتھارٹی میں فلسطینیوں کی عبوری حکومت کی عملداری میں سے متعددعلاقے اپنے تصرف میں لاناتھا۔مغربی کنارے پر۷۰۰کلومیٹرلمبی اسٹیل اور کنکریٹ کی دیوارتعمیرکرنے کامنصوبہ بنالیاتاکہ فلسطینیوں کومحصورکرنے کے اقدامات کئے جائیں،بعدمیںیہ سلسلہ جاری رہا۔
اسرائیل کی ہرحکومت اورانتظامیہ نے فلسطینیوں کومحصوراوراملاک سے محروم کرنے کے جابرانہ اقدامات جاری رکھے۔اسرائیل کی الگ تھلگ اورمضبوط ومستحکم وجغرافیائی اکائی وار (Entity)کیلئے دیواروں کی تعمیرکے مختلف منصوبوں پرعمل جاری ہے۔تازہ ترین مثال اسرائیل کومصرسے ’’محفوظ‘‘رکھنے کیلئے آئرن ڈوم جیسے میزائل ڈیفنس سسٹمز کیلئے دیوارکی تعمیرہے۔مقصدیہ ہے کہ اسرائیل کویہودیوں کی فول پروف حفاظت کاسامان کردیاجائے۔۲۰۰۶ء میں جب وہ طویل مدت کیلئے کومے میں چلاگیا،اس کے بعداوراب اس کی عبرتناک موت کے بعدبھی اسرائیلی مبصرین اس ذاتِ تذلیل کو’’امن کاعلمبردار‘‘قراردے رہی ہے۔کلین اوروارسکاوسکی ایسے معتدل اورمعقول دانشوروں کے مطابق رواں صدی کاسب سے بڑاجھوٹ شیرون کوامن کاعلمبردارکہناہے۔ وارسکاوسکی کاکہناہے کہ شیرون کواپنی عمرکے آخری حصے میں یقین ہوگیاتھاکہ فلسطینیوں کومکمل طورپرنیست ونابودکرنامحال ہے۔وہ عظیم تراسرائیل کاخواہاں تھامگراسے شرح صدرہوچکاتھا،اس مذموم مقصدکے حصول کیلئے فلسطینیوں کوان کی سرزمین سے نکال باہرکرناممکن نہیں۔
فلسطینی عوام کونیست ونابودکرنے کے بارے میں تمام صہیونی منصوبے ناکام دیکھ کرصہیونی سامراج نے شیرون اوردوسرے اسرائیلی اکابرکاآلہ کاربن کراس بدنصیب قوم کوجوقوم کی شکل میں توموجودہے مگردنیاکی واحدقوم ہے جس کااپناکوئی ملک نہیں ،دبانے کی کوششیں کردیں۔ان لوگوں کی کوشش تھی ’’الفتح‘‘ایسی طاقتورتنظیم کی جگہ ایسی تنظیم کی راہیں ہموارکی جائیں جوالفتح کے مقابلے میں زیادہ تابع فرمان رہے مگرتازہ ترین احوال کی روشنی میں پورے یقین کے ساتھ کہاجاسکتاہے کہ یہودیوں کے یہ عزائم بھی پورے نہیں ہورہے ۔ فلسطینی انتظامیہ کے صدرعباس محمودیہودی جابروں کی ہاں میں ہاں ملانے پرآمادہ نہیں کئے جاسکے۔ان کے تازہ ترین بیان میں حقیقت حال کابہت حدتک اندازہ کیا جا سکتاہے کہ’’ہم اسرائیل کوایک یہودی ریاست کے طورپرتسلیم نہیں کریں گے‘‘۔شیرون کی موت پراظہارخیال کرتے ہوئے دوٹوک اورکھلے لفظوں میں ان کاکہناتھا:’’فلسطینی
اسرائیل کے آگے جھکیں گے اورنہ ہی اسے رعائتیں دیں گے ۔فلسطینی عوام مشرقی بیت المقدس میں اپنے دارلحکومت کے مطالبے سے ہرگزپیچھے نہیں ہٹیں گے‘‘۔ان کااشارہ واضح طورپران علاقوں کی طرف تھاجن پرناجائزیہودی ریاست نے ۱۹۶۷ء میں قبضہ کرلیاتھا۔
دنیاکے دانشوروں اورامن پسندوں نے ایریل شیرون کی موت پر ’خس کم جہاں پاک‘‘ کہہ کراس باب کوہمیشہ کیلئے بندکردیاہے!
جواب دیں