کھانے پینے سے ہی رک جانے کانام روزہ نہیں

بعض لوگ بلکہ اکثر لوگ صرف کھانے پینے اور جائز خواہشات سے رک جانے کے عمل کو ہی روزہ سمجھتے ہیں اوروہ سارے کام کرنانہیں چھوڑتے جووہ دیگرایام میں کرتے تھے ایسے لوگ انتہائی غفلت میں ہیں ۔انہیں اپنے تصورِروزہ پرنظرثانی کرناچاہیے ۔ پورا دن بھوکا پیاسا رکھ کراور تمام جائز خواہشات سے روک کر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کوکسی مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتاوہ تو اپنے بندوں سے بے حد پیار کرتا ہے تو وہ بھلا کیوں انہیں مشقت میں ڈالنے لگا ۔اگرکھانے پینے سے روک دینابس یوں ہی ہوتا اس کے پس پشت کوئی مقصدکوئی فلسفہ نہ ہوتاتوظاہرہے کہ یہ ایساحکم بالکل لغوقرارپاتامگرچونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیاہے اوراللہ عزوجل ہرگزہرگز ایسے کام نہیں کرتابلکہ وہ انہیں بھوکاپیاسارکھ کران کواس طریقے سے سمجھاناچاہتاہے ،ان کی تربیت کرناچاہتاہے اوراسلامی زندگی جینے کے اصول بتاناچاہتاہے تاکہ وہ اسے عملی طورپرسمجھ لیں اوراپنی زندگی اسی کے مطابق گزاریں۔ اس کے پیچھے سب سے اہم اورقیمتی راز یہ ہے کہ بندوں کے اندر صبر وتحمل پیدا ہواوران کانفس پاکیزہ وستھراہوجائے۔اللہ تعالیٰ کوصبربہت عزیزہے اوروہی لوگ اسے پیارے ہیں جوصبرکرتے ہیں ۔اس تین حرفی لفظ میں بے پناہ حکمتیں ہیں صبربے شماربیماریوں اورخرافات کاعلاج ہے اس کی برکات تصورِانسانی سے باہرہیں اس کاحقیقی بدلہ دنیامیں نہیں مل سکتابلکہ اللہ عزوجل اس کی جزاآخرت میں دے گا۔ ایک مہینے کے یہ روزے رکھواکرایک طرح سے اللہ تعالیٰ نے ہماری ٹریننگ کرائی ہے ۔اگرہم غورکریں توہمیں معلوم ہوگاکہ یہ مہینہ کئی طرح کی ٹریننگس کامجموعہ ہے جذبۂ خیرکی ٹریننگ ،صبروتحمل کی ٹریننگ،ہمدردی اورغم خواری کی ٹریننگ،مساوات کی ٹریننگ،اللہ عزوجل کی اطاعت شعاری کی ٹریننگ،وقت پرساراکام نبٹانے کی ٹریننگ،تہجدکے لیے اٹھنے کی ٹریننگ،گناہوں سے بچنے کی ٹریننگ،نیکی کرنے کی ٹریننگ ،تلاوتِ قرآن وفہمِ قرآن کی ٹریننگ ،عبادت وریاضت کی ٹریننگ،روحانیت کی ٹریننگ ،غریبوں کی دکھ دردکے احساس کی ٹریننگ،بھوک وپیاس کے احساس کی ٹریننگ،نظم وضبط کی ٹریننگ اورا س کے علاوہ اوربھی بہت ساری باتوں کی ٹریننگ اس مقدس ماہ میں کرائی جاتی ہے کہ جن سے ایک اسلامی معاشرہ وجودمیں آتاہے ۔ اسلامی معاشرے کے خط وخال کاخاکہ اوراس کے عملی نفاذکی صورتوں کی طرف رہنمائی کرتایہ مہینہ امتِ مسلمہ پراللہ عزوجل کابہت بڑاحسان ہے۔ ایک مہینے کی ٹریننگ اس لیے کرائی جارہی ہے تاکہ پھر سال بھرتک اسی کے مطابق عمل ہوتارہے اوراسی کے اثرات مسلمانوں کے فکروعمل پرحاوی رہیں۔ روزے کے اس فلسفے پرغورکریں اوراس منظرنامے میں ہم اپنے روزوں اوررمضان المبارک میں اپنے شب وروز کاتنقیدی جائزہ لیں تواس حقیقت کاکڑواگھونٹ ہمیں اپنے گلے کے نیچے اتارناہی پڑے گاکہ رمضان المبارک ہم سے دورہے اورہم رمضان المبارک سے دورہیں ۔سال بھر تک اس کا اثرنہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے روزے اوررمضان کومحض رسم اوررواج سمجھ لیاہے ۔روزہ محض اس لیے رکھ لیتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ روزہ رکھتے آئے ہیں ۔نوّے فی صد مسلمانو ں کو اس کی حکمتیں ،مصلحتیں ،فضیلتیں،سعادتیں اوربرکتیں معلوم ہی نہیں اس لیے وہ اس سے حقیقی طورپر لطف اندوزنہیں ہوپاتے۔ مسلمان اگراس کی روح کی گہرائی تک پہنچے ہوتے توحالات وہ نہ ہوتے جو،اب ہیں۔
بہرحال روزے کے ذریعے یہ پیغام دینا مقصد ہے کہ مسلمانوں کو ہر حال میں صبر کرنا چاہیے حالات خواہ کیسے بھی ہوں انہیں صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ عام دنوں میں تو درکنار خود رمضان المبارک میں بھی لوگ صبر وضبط کا مظاہرہ نہیں کرپاتے وہی جھوٹ، چغلی، لڑائی وغیرہ کا معمول اس مقدس ماہ میں جاری رہتا ہے۔ یہ مقدس مہینہ دراصل لوگوں کومزکیٰ ومصفیٰ کرنے کے لیے جلوہ گر ہوتا ہے ان کی نفس کی ساری آلائشیں پاک کرکے انہیں ستھرا بناتا ہے اورخدائے عزوجل کے تخلیقی مقصد سے انہیں قریب کردیتا ہے ۔الحمدللہ آج بھی ایسے مسلمان ہیں کہ جن کے یہاں رمضان کے دنوں میں صبر کے عملی مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں اوراس کے نقوش بعدِرمضان بھی نظرآتے ہیں لیکن کثیرترین تعدادایسے لوگوں کی ہے کہ جورمضان المبارک کی برکتوں اوررحمتوں سے محروم ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ کھانے پینے سے خود کو روک لینے کانام روزہ سمجھ لیاگیا ہے اور بس ۔
رمضان کے ایام میں دن بھرمیں محض ایک مختصروقت ایساآتاہے کہ جب مسلمان خواہ وہ کیسابھی مسلمان ہوخداکے حضوراپنے صبروضبط کاامتحان دینے میں کامیاب ہوجاتاہے ۔یہ مبارک لمحہ کتنا فرحت بخش،کیف آگہی اور مسرت کناں ہوتا ہے جب افطار کا وقت ہوتا ہے کھانے کی ساری نعمتیں دستر خوان پر سجی ہوتی ہیں مسلمان چاروں طرف بیٹھے ہوتے ہیں دل میں کھانے کی زبردست اشتہا ہوتی ہے طبیعت دستر خوان کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہتی ہے قسم کے قسم کے ماکولات ومشروبات کی طرف وہ للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتاتوہے مگر وہ یہ سب چاہتے ہوئے بھی نہیں کر پاتا،کیوں؟ حکمِ مولیٰ ہے، اطاعتِ خداوندی کی تلوارتنی کھڑی ہے نامۂ اعمال کے کاتبین اور خداکی طرف سے مامور پہرے دار اس کے سرپررجسٹرلیے کھڑے ہیں ہے۔ اگر وقت سے پہلے ہاتھ بڑھالیا تو حکم خداکی خلاف ورزی ہوگی اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوگا۔اللہ تعالیٰ کواپنے بندوں کی یہ ادا بہت پسند ہے کہ مواقع ملنے کے باوجودوہ اللہ کے ڈرسے خودکوروکتے ہیں اوراف تک نہیں کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں روزے کی حالت میں یہی وہ وقت ہوتا ہے جب عام مسلمانوں میں صبر کی کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے ورنہ دوسرے اوقات تووہ تمام دنوں کی ہی طرح دیکھے جاتے ہیں الا ماشاء اللہ۔ وہ حضرات بڑے سعادت مند اورقابل رشک ہیں جو صحیح معنوں میں روزے کا حق ادا کرتے ہیں اور اس کی حقیقی روح آشناہیں۔ جس نے حقیقی طورپر روزے کو سمجھ لیا اورعملی طورپراس کوبرتاتو اسی کے لیے خدا نے فرمایا کہ’’ میں ہی اس کی جزا دوں گا‘‘ ۔ یہ حدیث شریف اور دیگر بہت ساری روزوں کے فضائل والی احادیث اورروایات ہمارے مقررین وخطبااورائمۂ مساجد سامعین ومقتدین کو سناتے ہیں اور فضائل سنا سنا کر انہیں جنت کا ٹکٹ تقسیم کرتے ہیں اور بے چارے یہ مسلمان اسی میں خوش ہوجاتے ہیں کہ اب تو جنت میں اپنی سیٹ پکی ہوگئی ہے۔ یاد رکھیے یہ سارے فضائل وکمالات انہیں لوگوں کے لیے ہیں جنہوں نے روزے کو صحیح طور سے سمجھا ہے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ورنہ ایک جگہ اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ روزے کی حالت میں اگر بندہ جھوٹ بولنا نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کے کھانے پینے کو چھوڑدینے کی کوئی پرواہ نہیں۔ جب تک روزے کی حقیقی مطالب ومفاہیم کو نہیں سمجھا جائے گا تب تک روزے کی وہ برکات وحسنات نہیں حاصل ہوں گی جو احادیثِ نبویہ میں مذکور ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو روزے کی حقیقی مسرتوں اور برکتوں سے بہرہ ور فرمائے۔

«
»

اسامہ بن لادن کے قید و بند کا ڈرامہ

ہم چراغوں کوڈراتے ہو،یہ کیا کرتے ہو؟!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے