خالی جیلیں

اب چونکہ وہاں اس قدر خاشحالی اور تعلیم ہے کہ جیلوں کی خوبصورت عمارتین خالی ہو چکی ہیں۔مگر فکر کی کوئی بات نہیں دنیا کے ایک اور امیر ملک میں جرائم اتنے بڑھ گئے ہیں کہ یہاں مجرموں کی کمی نہیں۔چنانچہ اب سویڈش حکام کو فکرکی چنداں ضرورت نہیں۔اب یہ جیلیں نارویجن حکام کرائے پر حاصل کر کے مجرموں کو وہاں رکھیں گے۔
بہر حال سویڈش حکومت اس بات پر مبارکباد کی مستحق ہے کہ وہ اپنے ملک کے جرائم پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔اگر ملک میں امن خاشحالی اور انصاف ہو تو وہاں جرم کیوں ہوں گے۔جرم تو وہاں پلتے ہیں جہاں بھوک افلاس بے انصافی اور بد حالی ہو ۔کاش میرے وطن کی جیلیں بھی خالی ہو جائیں میرے وطن کی تمام جیلیں ویران ہو جائیں اور تھانوں میں تھانیداروں کے بجائے الو بولا کریں
جانے وہ دن کب آئیں گے؟؟مگر ناروے جیسے امیر ملک میں جرائم کا بڑھنا اچنبھے والی بات ہے۔مجموعی طور پر ناروے ایک حقیقی فلاحی اور امیر مملکت ہے۔یہاں امیر غریب کا فرق ذیادہ نہیں۔تمام شہریوں کو بشمول تارکین وطن کے بنیادی حقوق حاصل ہیں۔بیروزگاری کی شرح دوسرے ممالک کی نسبت بہت کم ہے۔نسل پرستی بھی کم ہے۔ناروے کا ساٹھ فیصد بجٹ فلاحی کاموں پر خرث کیا جاتا ہے جس میں اس کی خوشحالی کا راز پوشیدہ ہے۔دنیا کا سرد ترین ملک ہونے کے باوجود یہاں ہر شخص کے گھر میں مناسب حرارت کا سسٹم ہے۔
اس کے باوجود یہاں جو جرائم کی شرح بڑہی ہے اس کی بڑی وجہ دوسرے یورپین اور ایشیائی ممالک کے لوگوں کی نقل مکانی ہے۔جو یہاں کے فلاحی نظام سے نا جائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کی اکثریت یہاں کا رہائشی ویزہ نہیں رکھتی یہاں بھیک مانگتی ہے دن کو گھوم پھر کر چیزیں بیچتے ہیں اور رات کو چوریاں کرتے ہیں۔یہ مسئلہ پچھلی حکومت میں قومی اسمبلی میں بھی اٹھایا گیا لیکن اس پر پوری طرح سے قابو نہ پایا جا سکا۔تا ہم اسکی بڑی وجہ بارڈر پر پابندی کا ختم ہونا بھی ہے جو کہ شینگن ویزے کی وجہ سے عمل میں آئی۔ اس کے علاوہ صومالیہ عراق اور پاکستان سے آنے والے افراد بھی جرائم میں ملوث ہیں۔پاکستانی جبری شادیوں مار پیٹ اور ہیرا پھیری کے متعدد جرائم سر فہرست ہیں تاہم نارویجن بھی جرائم میں ملوث ہیں لیکن انکی شرح بہت کم ہے۔اس لیے کہ نارویجن حکومت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ جرائم کا سدباب سخت سزائیں دینے سے نہیں بلکہ صحیح تربیت دینے سے ہوتا ہے۔مگر جب وہ یہ تربیت غیرملکیوں کو دینا چاہتے ہیں تو وہ کچھ نہیں سیکھتے ۔پچھلے دور حکومت میں کئی ملین کراؤن بے روزگار رومیوں کی تربیت کے لیے خرچ کیے گئے مگر ان میں سے صرف دو افراد نے ملازمت حاصل کی 
اس صورتحال کے پیش نظر موجودہ حکومت نے تارکین وطن کے لیے قوانین سخت کر دیے ہیں۔جنہیں سویڈش حکومت نے بیحد سراہا ہے اور اسے قابل تقلید بھی قرار دیا ہے۔تا ہم یہ قوانین جرائم کے سدباب کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔اس لیے سمجھنا غلط ہے کہ یہاں جرائم کی شرح مقامی افراد کی وجہ سے بڑہی ہے۔یہ سچ ہے کہ نارویجن قوم کے آباؤ اجدادبحری قزاق تھے۔انہیں یورپ کی تاریخ وی کنگ کے نام سے یاد کرتی ہے۔لیکن سو برس پہلے جب سویڈن اور ڈنمارک کی غلامی سے آزادی کے بعد انہوں نے اصلاح کا عہد کیا تو پھر قدرت بھی ان پر مہربان ہو گئی ۔جب یہ قوم آدھی صدی کے لگ بھگ جدوجہد کرتی رہی تو قدرت نے انہیں سمندر کی  میں بلیک گولڈ کی دولت سے نوازا ۔
اس کے ساتھ اس دولت کو خود ہی نکال کر استعمال کرنے کی اہلیت بھی ودیعت کی۔اس طرح دنیا کے سرد ترین خطے میں قطب شمالی کے برفیلے کرہ کے نیچے واقع یہ چھوٹا سا ملک دنیا میں ایک ترقی یافتہ ملک کے طور پر پہچانا جانے لگا۔ورنہ پٹرولیم کی دریافت سے پہلے اسے کوئی نہیں جانتا تھا۔پاکستان کے دیہی علاقوں میں لوگوں کو آج بھی ناروے اور ناروال کا فرق ہی نہیں معلوم۔جب یہاں پٹرولیم نکلا تو دنیا بھر سے لوگ روزگار کی تلاش میں ناروے کا رخ کرنے لگے۔ان میں ذیادہ تعداد محنت کشوں کی تھی۔آجکل انہی محنت کشوں کے بچے پڑھ لکھ کر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔مگر دیہاتی افراد کی آمد کا یہ سلسلہ تھما نہیں گو کم ہو گیا ہے۔ ایشیائی ممالک کے علاوہ دیگر یورپین ممالک لوگ بھی یہاں منتقل ہوئے۔ایشیائی نارویجن لوگوں کا حسن دیکھ کر حیران تو نارویجن انکی رنگت دیکھ کر مبہوت رہ گئے۔یہ سن ستر کی دہائی تھی جب ٹی وی وغیرہ اتنے عام نہیں تھے۔پھر نارویجنوں کی معصوم صورتیں اور ہمدرد و فیاض طبیعت دیکھ کر کئی ایشیائی لوگوں نے انہیں بیوقوف بنانے کی کوشش کی ۔مگر نارویجن جس قدر حسین ہیں اسی قدر ذہین بھی ہیں۔ان کے تحقیقی میلان نے انہیں کبھی ہارنے نہ دیا۔اپنے قوم کے ہر فرد کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے اور ملکی نظام درست کرنے کے بعد انہوں نے اپنا پیسہ فلاحی کاموں میں خرچ کرنا شروع کیا۔انکی دولت کی چمک دمک دیکھ کر پڑوسی یورپین ممالک سے بڑی تعداد میں لوگ یہاں آگئے۔انکی اکثریت ناروے کے فلاحی فنڈز سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتی تھی،اور کئی جرائم میں ملوث پائی گئی۔یہ لوگ یہاں غیر قانونی طور پر مقیم تھے۔پھر اس کے بعد پاکستانیوں کی بیویوں کی مار پیٹ اور جبری شادیوں کے رواج نے انہیں مجرموں کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔حالانکہ ہمارے دیہی کلچر میں یہ ایک رواج ہے۔
نارویجن حکام اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مجرموں کو سدھارنے کے لیے سخت سزائیں نہ دی جائیں بلکہ انکی تعلیم و تربیت دی جائے تاکہ وہ اچھے انسان بنیں۔اس مقصد کے لیے انہوں نے مسلمان مبلغوں کی خدمات بھی حاصل کی تاکہ مجرم سدھر سکیں۔ان کے جیل خانے اصلاح خانے ہیں۔انکو جیل میں ہر سہولت حاصل ہے تمام مجرموں کو فرج ٹی وی اور مائیکرو اوون دیا جاتاہے۔یعنی یہاں ہر مجرم سی کلاس کی جیل میں رہتا ہے جو کہ پاکستان میں صرف سیاسی قیدیوں کے لیے مخصوص ہے۔پاکستان کی طرح ایک کمرے میں کئی لوگ نہیں ٹھونسے جاتے۔ہمارے ملک کی جیلیں تو مجرم پیدا کرتی ہیں۔وہاں کی تبلیغی جماعتیں،مولوی اور عالم دین جیلوں میں جیل کے عملے کو ،مجرموں کو تبلیغ کیوں نہیں کرتے ؟اپنی بہنوں بیویوں بیٹیوں کو جیلوں میں کیوں نہیں بھیجتے مجرم عورتوں کی اصلاح کے لیے؟میرے پیارے وطن میں۔بلکہ یہاں ناروے میں بھی تمام مولویوں اور تبلیغی جماعتوں کو ازخود جیلوں میں مجرموں کو تبلیغ کرنی چاہیے۔اگر ایسا ہو جائے تو پھر پاکستان کی جیلوں کی عمارتیں بھی خالی ہو جائیں جنہیں ہمسایہ ملکوں کو کرائے پر دیا جا سکے گا۔کاش ایسا ہو جائے 

«
»

ظلم و بربریت کا بازار صرف ایوانِ اقتدار تک محدود نہیں۰۰

پہاڑ:حیات الارض کے ضامن………International Mountains Day

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے