اوردنیابھرکے ٹیلیویژن ان خونی مناظرکودکھابھی رہے ہیں۔تادمِ تحریرغزہ میں شہید ہونے والوں کی تعداد نہ صرف ۱۰۵۰/اورزخمیوں کی تعدادچھ ہزارسے تجاوز کرگئی ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔یونس خان گاؤں میں ایک ہی گھرکے بیس افرادجن میں دس بچے تھے ،اسرائیلی گولہ باری سے شہیدہوگئے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کی اکثریت عام شہری ہیں جن میں کئی بچے شامل ہیں جبکہ اسرائیلی اموات کی تعداد اس سے بہت کم رہی، لیکن ایک ایسے ملک میں کہ جہاں ہر شخص فوج میں خدمات سرانجام دیتا ہے، اس خبر نے لوگوں کو غمگین کر دیا کہ لڑائی میں ان کے ۳۰اسرائیلی فوجی مارے گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی امداد کے ادارے کی سربراہویلیری آموس نے جمعرات کو اپنی تقریر میں غزہ کی صورت حال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ غزہ میں بسنے والے لوگوں کیلئے ۴۰فیصد علاقہ نوگو یا ممنوعہ علاقہ بن گیا ہے اور اب تک ایک لاکھ ۱۸ہزار افراد اقوام متحدہ کے سکولوں میں پناہ لینے پر مجبورہوگئے ہیں۔ شہریوں کی خوراک کا ذخیرہ تیزی سے ختم ہو رہا ہے جب کہ بہت سے افراد کو خوراک کی قلت اور پانی کی کمی کا بھی سامنا ہے اور بالخصوص بچے،بوڑھے اورخواتین کے چہرے موت کے خوف سے زردہوچکے ہیں ،اس لئے وہاں پر جنگ بندی اشد ضروری ہے‘‘۔اس وقت دنیاکے تمام بڑے شہروں میں اسرائیلی بربریت کے خلاف احتجاج ہورہاہے اورحقوق انسانی کی تنظیمیں بھی اس ظلم پرچیخ اٹھی ہیں۔اینٹی وار میں ممتازقلمکارکرس ارنسٹوکایہ انتہائی دلچسپ اور’’ پرمغز‘‘خط شائع ہواہے،آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
’’عزیزصدراوباما!ہمیں اعتراف کرلیناچاہئے جب آپ صدرامریکابنے ہم میں سے کچھ توبہت متفکرتھے کہ امریکااب ہمیں رقم اورہتھیاراورسب سے بڑھ کراسرائیل کوسفارتی ’’چھتری‘‘ فراہم نہیں کرے گا۔یہی تووجہ ہے جمی کارٹر……ایک سابق صدرجن کاتعلق آپ کی اپنی جماعت سے تھا،فلسطینیوں پراسرائیل کے سلوک کے باعث ان پرکڑی تنقیدکی جاتی تھی۔انہیں یہ کہنے کابھی حوصلہ تھاکہ حماس جمہوری طورپرمنتخب ہوئی ہے اورفلسطین کے ساتھ ہماری پالیسی نسلی جنوبی افریقہ سے بھی بدترہے۔ہم خوفزدہ تھے کہ ۲۰۰۹ء میں آپ کی جذباتی تقریرسے جوآپ نے قاہرہ میں کی تھی،مسلمان کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ اوباماکی صدارت، فلسطین سے تعلق رکھنے والے دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں غیرجانبداررہے گی لیکن شکرہے بطورصدرآپ کی طرف سے کی جانے والی کاروائیوں کے باعث ہمارے خدشات اورتحفظات دورہوچکے ہیں اورآج اسرائیل کیلئے ہمیں آپ کی بھرپورحمائت نظرآرہی ہے۔
ہمارے ’’آئرن ڈوم ویپن سسٹم‘‘(Iron Dome Weapon System) کیلئے آپ کی انتظامیہ کی طرف سے مالی امدادکے باعث غزہ میں ہمارے حملے کے دوران میں کوئی بھی اسرائیلی ہلاک نہیں ہوااوراگرچہ ہم پہلے ہی سینکڑوں فلسطینی ہلاک کرچکے ہیں جن میں درجنوں بچے بھی ہیں اورزخمی بچوں کی تعدادایک ہزارسے تجاوزکرچکی ہے۔آپ نے کھلے عام ہماری کاروائیوں کی مذمت بھی نہیں کی(شکریہ)۔
چندروزگزرے آپ نے اسرائیل اورفلسطین کے درمیان جنگ بندی کیلئے مذاکرات کی پیشکش کی اس کے بعدآپ حماس کومسلسل دہشتگردتنظیم قراردیتے رہے جس کے ساتھ آپ بیٹھنے کیلئے تیارنہیں اورآپ کی طرف سے پیشکش برائے مذاکرات محض ایک چال ہے کہ کہیں فلسطینی حقیقتاًیہ نہ سمجھ لیں کہ آپ ہمارے طرفدارہیں اورامریکاکوثالث ماننے پرراضی ہو جائیں ۔اس وقت اسرائیل کی حمائت کرنے پرہم خوش توہیں لیکن حیران نہیں۔آپ نے دوسال پہلے ہی اپنے حقیقی رنگ دکھادیئے تھے جب آپ نے کہاتھاکہ آپ ۲۰۱۲ء میں غزہ پر اسرائیلی بمباری کے مکمل حمائتی تھے۔یہ توواضح ہے کہ آپ اس قدرعقلمندہیں کہ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ امریکی انتخابات پراسرائیل کے حمائت یافتہ ڈونراثراندازہوتے ہیں۔اس عقل مندی کیلئے ہم آپ کاشکریہ اداکرتے ہیں۔
بلاشبہ ہم ہمیشہ آپ کے احسان مندرہیں گے کہ آپ نے ۲۰۱۲ء میں فلسطینی ریاست کے خلاف ووٹ دیا۔آپ نے یہ مؤقف اس وقت اختیارکیا جب دنیاکاہرملک عملی طورپریہ چاہتا تھا کہ فلسطین کوایک آزادقوم کی حیثیت سے تسلیم کیاجائے،کیافضول بکواس ہے اورآپ کی ہمت اورحوصلے کے باعث فلسطین کے حل کیلئے چندہی قانونی تدابیربچی ہیں۔ آپ ان قراردادوں کوہمیشہ ویٹوکرتے رہے جن میں عظیم تراسرائیل کی مذمت کی گئی تھی۔آپ بجاطورپراسرائیلی آبادیوں کی وسعت پرمسلسل خاموش رہے۔آپ نے یہ بھی کہاکہ آبادیوں کورکوانے کیلئے اپنی کاروائیاں بندکردیں گے اورآپ نے بڑی ہوشیاری دکھائی کہ آپ نے غزہ پرپابندی کے ضمن میں’’اجتماعی سزا‘‘کے الفاظ کبھی نہیں بولے۔چندہی ملک سمجھ سکتے ہیں کہ اسرائیلی اورامریکی کہلانے سے کیامرادہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم ۲۰۱۰ء کی مانندباہم جڑے ہوئے ہیں۔جب ہم دوہی ملک تھے جنہوں نے کیمونسٹ کیوبا پر پابندی ہٹانے کے خلاف ووٹ دیاتھا۔
اسرائیل میں ہم میں سے بہت سے لوگ امریکامیں’’آزادفلسطین‘‘کے متعلق احتجاجی مظاہروں پرفکرمندتھے لیکن ہمیں ان کے متعلق مزیدفکرنہیں کیونکہ اس قسم کے لوگ آپ اوردیگرڈیموکریٹس کیلئے ووٹ دینے کاسلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے یہ امریقینی ہوچکاہے کہ اسرائیل اپنی مرضی کے مطابق کوئی بھی قدم اٹھاسکتاہے۔
ہم مصرمیں فوجی انقلاب کی حمائت پربھی شکرگزارہیں جس کے باعث اخوان المسلمون کواقتدارسے باہرکردیاگیا۔وہ فلسطینیوں کے بہت بڑے حمائتی تھے جیساکہ آپ کوعلم ہے ، مصر کے نئے قائدالسیسی سمجھتے ہیں کہ حماس ایک دہشتگردتنظیم ہے اوراخوان کی ایک شاخ ہے،اس لئے ہمیں ہرگزفکرنہیں کہ فلسطینیوں کے خلاف حالیہ ہماری جنگ کے ضمن میں مصر کااونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
ہمیں یہ کہہ دیناچاہئے کہ یوکرائن میں آپ کی طرف سے ’’نیونازی‘‘کی حمائت سے ہم تشویش میں مبتلاہیں جیساکہ آپ جانتے ہیں ،نازیوں کے حوالے سے ہماری تاریخ خوشگوار نہیں لیکن یوریشیاکواپنے زیرتسلط لانے اورروس کوکمزورکرنے کی آپ کی خواہش کے متعلق ہمیں علم ہے ،اس لئے جب تک آپ ہمیں امریکی سلطنت کے فوائدسمیٹنے دیں ،ہم سمیٹتے رہیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ آپ کی صدارت نے ہمیشہ ہی ایران کوبدروح بنانے کاسلسلہ جاری رکھاجوہمارے لئے بہت زیادہ مفیدثابت ہوا۔ہم اسرائیلیوں کیلئے لوگوں کوسمجھاناہمیشہ ہی مشکل ثابت ہواکہ اگرچہ ایران نے کبھی بھی دوسرے ملک پرحملہ نہیں کیا،وہ اسرائیل کیلئے شدیدخطرہ ہے۔یقینی طورپرایران کوعلم ہے کہ ہم ان پرجوہری حملہ کرسکتے ہیں لیکن وہ تو اسرائیل کوصفحۂ ہستی سے مٹادیناچاہتاہے،اس لئے وہ جوہری حملے سے قطعاً خوفزدہ نہیں۔
جہاں تک جوہری ہتھیاروں کے متعلق بات کرنے کاتعلق ہے ،آپ نے اس وقت یقینی طورپراسرائیلیوں کوخوابِ خرگوش کے مزے لینے دیئے جب آپ کی انتظامیہ نے ہمارے جوہری ہتھیاروں کے متعلق ’’مت پوچھو،مت بتاؤ‘‘پالیسی اختیارکی۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسرائیل اس چھوٹے بھائی کی مانند ہے جوہمیشہ توتومیں میں کرتاہے اورلڑائی شروع کر دیتاہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اس کابڑابھائی ہے جواس کی ہرمشکل میں مدددینے کیلئے ہمہ وقت تیاررہتاہے۔بہت خوب بڑے بھائی!تمہارابے حدشکریہ،یہ حاسدتواپنی آگ میں جلتے ہیں۔
ہمیں علم ہے کہ اگرامریکانے اسرائیل پرعین اس طرح تنقیدکی جس طرح یہ شام،وینزویلایاایران پرتنقیدکرتاہے توپھرباقی دنیاآگے بڑھ کر اسرائیل کوتبدیل ہونے پرمجبورکرے گی تاہم امریکا،اقوام متحدہ،آئی ایم ایف،عالمی بینک اورنیٹوکے تسلط میں نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم آپ کی طرف سے اسرائیل کی مسلسل حمائت کوسراہتے ہیں۔یہ چیزہمیشہ ہمارے دلوں کوگرمادیتی ہے کہ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کواپنے دفاع کاحق حاصل ہے لیکن آپ نے کبھی یہ نہیں کہاکہ فلسطینیوں کوبھی یہی حق حاصل ہے۔آپ کایہ رویہ ہماری حمائت سے کم نہیں۔
آپ نے ۲۰۱۲ء میں ایک قانون پردستخط کئے جس کے مطابق اسرائیل کیلئے فوجی امدادمیں اضافہ کیاگیاتھااوریہ اعلان آپ کے صدارتی مخالف مٹ رومنے کے مقدس سرزمین کا دورہ کرنے سے صرف ایک دن پہلے کیاگیا۔کچھ لوگوں نے اسے ایک سیاسی چال قراردیاکہ یہ ثابت کیاجائے کہ ڈیموکریٹس توری پبلکنزکے مانندمحض اسرائیل کے حمائتی ہیں۔ آپ توپہلے ہی اسرائیل کے جدیدہتھیاروں کوتقویت فراہم کرتے رہے ہیں،عین اسی طرح جب آپ نے خفیہ طورپرہمیں بنکربسٹربم فراہم کئے ۔
آپ نے ۲۰۱۱ء میںیہ کہتے ہوئے اسرائیل کوحمائت فراہم کی کہ ہمیں ان ۲۰فلسطینی احتجاجی مظاہرین کوقتل کرنے کاحق حاصل تھاجونقبہ میں دراندازی کررہے تھے۔جب آپ نے اس معاملے پرہماری طرف سے’’قدغن‘‘کی تعریف کی،ایک متوقع آتشیں طوفان سے بچت ہوگئی۔خاص طورپراس لئے کہ ہماری حکومت نے ابتدائی طورپرشام پرہلاکتوں کا الزام عائدکیاتھا۔آپ کی حمائت کے باعث ہم کسی بھی حملے کے خطرے سے بچتے ہوئے ہلاکتوں میں اپنے کردارکوماننے کے قابل ہوئے۔
آپ کوکبھی معلوم نہیں ہوگاکہ آپ نے اسرائیل کے کس قدرحمائتی بنائے ،جب آپ نے امریکن اسرائیلی پبلک افیئرزکمیٹی کے اجلاس(۲۰۱۱ء) میں تقریرکی۔میں اس وقت پاگل ہو گیاجب آپ نے یہ کہا:لہنداغلطی نہ کریں ہم اسرائیل کی معیاری فوجی طاقت برقراررکھیں گے‘‘یہ ہم پربہت بڑااحسان تھا۔
آپ نے ہم پرجوچھوٹے چھوٹے احسان کئے ہم ان کابھی اعتراف کرتے ہیں۔دیکھئے!کس طرح آپ کی انتظامیہ نے ہماری طرف سے ۰۹/۲۰۰۸ء میں غزہ کے حملے کے دوران میں اسرائیلی جنگی جرائم کی اقوام متحدہ کی طرف سے تفتیش کے عمل کو رکوادیا۔وکی لیکس کاشکریہ،جس کے باعث ہم اپنے لئے آپ کی کوششوں سے متعارف ہوئے اور پھرکس طرح آپ نے فلسطینی اتحادکامعاہدہ قبول کرنے سے انکارکردیاجس کے باعث حماس اورالفتح ایک دوسرے کے قریب ہونے لگتے تھے اورآپ نے اس وقت واقعی ایک بیان دیا۔ آپ یونیسکوسے دستبردارہوگئے ،جب یونیسکوکی طرف سے فلسطین کی رکنیت قبول کرلی گئی۔ہمیں اس وقت بہت خوشی ہوتی ہے جب آپ ہماری حمائت میں اپنے مکے زورداراندازمیں میزپرجمالیتے ہیں۔
ہم اس وقت بہت پریشان تھے جب اقوام متحدہ کی طرف سے دورانِ تحقیق یہ کہاگیاکہ اس امرکاواضح ثبوت موجودہے کہ اسرائیل نے غزہ کی طر ف روانہ فلوٹیلاپر۲۰۱۰ء پرحملہ کرنے کے دوران میں کئی افرادکوہلاک کیااورانہیں اذیتیں دیں۔اس ضمن میں آپ نے قراردادکی مخالفت کی حالانکہ ۳۰ممالک نے اس قراردادکی حمائت کی تھی۔یہی سچے دوست کی نشانی ہوتی ہے۔
آپ کے صدربننے سے پہلے اسرائیل میں کچھ لوگ نہائت ہی یقینی اندازمیں کہتے تھے کہ آپ اسرائیلی مفادات کے گہرے حامی ثابت ہوں گے۔ان کایہ خیال تھاکہ یہ سچ ثابت ہواکیونکہ ۲۰۰۸ء میں ڈیموکریٹک صدارتی پرائمرزکے صرف بارہ گھنٹے بعدآپ نے ایک ہجوم کوبتایا:’’میں صہیونی نظریہ سمجھتاہوں‘‘۔آپ کایہ رویہ اس امرکاواضح اظہارتھاکہ یہ ثابت ہوسکے کہ اوباماکی صدارت کی نظرمیں اسرائیل ہمیشہ قابل ترجیح رہے گا،یہ آپ کی طرف سے اچھاقدم تھا۔
آپ کی طرف سے اسرائیل کی حمائت میں ابتدائی علامات جن کی ہمیں نشاندہی کرنی چاہئے وہ یہ تھیں کہ جب آپ سینیٹرتھے آپ نے ایک ایسی قراردادکی حمائت کی جس میں سینیٹ سے یہ کہاتھاکہ امریکاکولبنان میں اسرائیل فوجی کاروائیوں کوروکنانہیں چاہئے ،اس سے یہ مرادتھی کہ آپ نے اس وقت عقاب ہونے کاخطرہ مول لیا جب امریکی عوام بش انتظامیہ سے اس کی خارجہ پالیسی کے باعث بیزارہورہے تھے۔آپ نے بہت اچھاکرداراداکیا۔
بہت خوب!آپ کاجواکامیاب ثابت ہوااورآپ نے اپنے سیاسی خوابوں کاہدف پوراکرلیااوراس کے ساتھ ساتھ آپ نے اسرائیل کونہائت خوش رکھا،اس کیلئے ہم آپ کاشکریہ اداکرتے ہیں۔آپ،آپ کی پارٹی اورباقی امریکی حکومت کے باعث اسرائیل اپنی مرضی کے مطابق ہرقدم اٹھاسکتاہے۔آپ صدراوباما،اسرائیل کے ایسے بہترین دوست ہیں جن کاہمیشہ سے کوئی ثانی نہیں۔
جواب دیں