اس وقت ملک کی سیاست کے کم و بیش وہی حالات ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ تمام پارٹیاں کسی پارٹی کے خلاف نہیں بلکہ ایک انسان کے خلاف چناؤ لڑ رہی ہیں ۔ اس کی پارٹی گزرے زمانے کی یاد بن کر رہ گئی ہے ایک انسان کو پارٹی کے اوپر فوقیت دینے کا عمل سنگھ کے مزاج کے عین مطابق ہے ۔ سنگھ میں سر سنگھ چالک کی اچچھا (مرضی)سب سے اوپر ہوتی ہے اسے کوئی چیلینج نہیں کر سکتا ۔سردار پٹیل نے گولوالکر پر دباؤ ڈال کر زبردستی آر ایس ایس کا دستور اس وقت بنوایا تھا جب گاندھی جی کو قتل کردیا گیا تھا اور گولوالکر جیل میں تھے ۔اس وقت سنگھ کا کہنا تھا کہ ہندو متحد خاندان کا بھی کیا کوئی دستور ہوتا ہے یہ تو صدیوں سے چلے آرہے ریتی رواجوں پر مشتمل فطری دستور ہے جس میں خاندان کا مکھیا سب سے اوپر ہوتا ہے ۔ بی جے پی نے بھی اپنا مکھیا چن لیا ہے اس کی اچچھا اور کتھن (قول) ہی مینی فیسٹو ہے ۔پھر مودی کو تو خود ہی بھگوان ’’ ہر ہر مودی‘‘ مہا دیو کے روپ کے طور پر پیش کیا گیا ہے ایسے میں کیسا مینی فیسٹو اور کیسا دستور یہ تو مودی فیسٹو ہے ۔
ہٹلر کا ماننا تھا کہ اقتدار میں آنے کے لئے سماج کے ہر طبقہ سے اس کے مسائل کو حل کرنے کا وعدہ کرو کیونکہ کامیاب ہونے والے سے کبھی کوئی جواب مانگنے کی ہمت نہیں کرتا ۔وہ پارلیمنٹ گیا تھا بحث کرنے کے لئے یا اسے ختم کرنے کے لئے ۔ پارلیمنٹری نظام کی عزت کرنے کے لئے یا اسے ختم کر دینے کے لئے ۔ ملک کے دستور پر عمل کرنے کے لئے یا اسے بدلنے کے لئے ۔ جیتنے کے بعد کوئی نہیں پوچھے گا کہ اس نے سچ کہا تھا یا نہیں ۔ جنگ میں صحیح اور غلط کچھ نہیں ہوتا ۔ صرف جیت کا مطلب ہوتا ہے ۔
جیت کے لئے ہر طرح کے ذرائع چناؤ میں استعمال کئے جاتے رہے ہیں اس الیکشن میں الیکٹرونک میڈیا ایک کارگر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ اس کا تجربہ دہلی اسمبلی کے انتخاب میں منصوبہ بند طریقہ سے ایک نئی پارٹی کے لئے کیا گیا ۔کامیابی کی صورت میں اسے مودی کے لئے آگے لایا گیا مودی کی چناوی سبھاؤں میں کیمروں کی مدد سے بھیڑ کو کئی گنا بڑھا چڑھا کر دکھایا گیا اتنا ہی نہیں بھیڑ کا بھاری شور بھی پہلے سے ڈب کیا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ پورے ملک میں مودی کی لہر ہے جبکہ حقیقت کچھ اور ۔آج الیکٹرونک میڈیا کو پیسے اور مالکوں کی دھونس کے بل پر اتنی بری طرح کس کر رکھ دیا ہے کہ اڈوانی تک اس سے غائب ہیں ۔ پریس اور ذرائع ابلاغ کی آزادی پر یہ حملہ ایمرجنسی کی یاد دلاتا ہے مودی کا یہ عمل کہنے سننے کی آزادی کے لئے ایک بڑے خدشہ کے طور پر سامنے آیا ہے ۔
ہم پچھلے چالس برسوں سے ملک کے مختلف حصوں میں دبنگوں کے زریعہ انتخاب لوٹنے کی سچائی دیکھتے آئے ہیں اس مرتبہ پونجی پٹیوں نے پورے دیش کا چناؤ لوٹنے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ مودی پر پانی کی طرح پیسہ بہایا جانا اسی منصوبہ کا حصہ ہے دیش کے پونجی پتیوں کا ماننا ہے کہ مودی کی سربراہی والی سرکار ملک میں پونجی واد ’’ New Libral economic policy کو سختی اور بے رحمی سے لاگو کر سکتی ہے اس کا مودی نے گجرات میں ثبوت بھی دیا ہے ۔یہاں یہ بھی ذکر کرتے چلیں کہ واجپئی کی قیادت والی بی جے پی سرکار نے بھی اس طرف کارگر قدم اٹھائے تھے ۔کانگریس بوجود اس کے کہ نو ادار واد کی حامی ہے لیکن عوامی دباؤ میں اس کا رویہ نرم رہتا ہے ۔ پونجی واد کو مضبوط کرنے کے لئے قوم واد یا فرقہ واریت ، فسطائیت یا نازی واد اور سماجی ، سیاسی و معاشی استحصال کو بڑھاوا دینا ضروری ہیبھاجپا کا مخالف سیاسی دلو ں کو پاکستان کا ایجنٹ کہا جانا آر ایس ایس کے نظریہ کو ظاہر کرتا ہے ۔اس کے مطابق جو سنگھ کا حامی نہیں وہ ہندو نہیں پاکستان کا یجنٹ ہے ۔ مودی اسی کٹرتا کو دھرا رہے ہیں ۔جموں کی ریلی میں انہوں نے سیکولرزم کے خلاف مذہبی جنگ کی ہنکار بھری جو سنگھ اپنے قیام کے وقت سے ہی بھرتا رہا ہے ۔مودی نے ملک کے دستور کی بنیاد پر بھی حملہ کرنا شروع کر دیا ہے ۔اسبھی وہ 2002کے گجرات فسادات پر چپی سادھ لیتے ہیں ۔لیکن جلد ہی وہ اس پر فخر کریں گے وہ گجرات کے مختلف علاقوں میں مسلم بستیوں کو چھوٹے چھوٹے پاکستان کہہ کر انہیں اجاڑنے کا منصوبہ بنا سکتے ہیں اسے دیش بھکتی یا دیش کی اصل خدمت کا نام دیں گے ان کی زبان پر ایودھیا ، کانشی ، اور متھرا کا نام بھی آسکتا ہے 2002 کے گجرات فساد میں جہاں ہزاروں لوگ مارے گئے وہ ملک کے لوگوں سے انصاف مانگ رہے ہیں لیکن اس کے ثبوت نہ ملنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ صوبائی سرکار کی نگرانی میں انہیں مٹایا گیا ہے ۔
راج ناتھ سنگھ سے ملاقات کے وقت کلب جواب کی زبان سے یہ نکلنا ’’ مودی سے ڈر لگتا ہے ‘‘ اس کے کئی مطلب نکالے گئے لیکن یہ ان خطرات کی نشان دہی کرتا ہے جو دل اور دماغ کے کسی کوشہ میں محسوس کئے جا رہے ہیں ۔سونیا گاندھی کا امام بخاری سے یہ کہنا کہ اس چناؤ میں سیکولر ووٹ تقسیم نہ ہوں یہ ایک بڑا پیغام تھا دیش کے سیکولر اور ہمدرد لوگوں کے لئے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ بخاری صاحب کے کنٹرول میں کوئی ووٹ ہیں یا نہیں ۔اس پر بھاجپا کا بھڑکنا مودی کے فرقہ پرستوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش پر طپانی پھرنے کا ڈر ظاہر کرتا ہے ۔ جبکہ بی جے پی رام دیو جیسے دھرم گروؤں کو لیکر ہمیشہ سیاست کرتی رہی ہے اور کبھی بھی بھاجپا نے مذہبی لوگوں کو استعمال کرنے میں جھجھک محسوس نہیں کی ۔
2014کے الیکشن میں اس کے امکانات بن رہے تھے کہ ملک میں تیسرے محاذکی سرکار بنے ایک طرف تیسرے مورچے میں شامل ہونے والی متوقع شخصیات ، پارٹیوں کے پیچ انتخاب سے پہلے ایک رائے نہیں بن سکی اور نہ ہی کوئی کامن مینیمم پروگرام بن سکا ۔ پھر یہ کہا جانے لگا کہ انتخاب کے نتائج آنے کے بعد اس کی کوئی شکل بن سکے گی اس وفاق کے نہ بننے کے لئے تیسرے مورچہ میں شامل لیڈران کا موقع پرستی اور عارضی رویہ ذمہ دار ہے شروع میں ایگزٹ پول کے جو آنکڑے آئے تھے ان میں صوبائی اور چھوٹی پارٹیوں کو 185سیٹیں دی گئی تھیں ۔اور کانگریس کو 125اس لحاظ سے تیسرا مورچہ سرکار بنانے کا مضبوط دعویدار تھا ۔ دوسری طرف کارپوریٹ جگت ، سول سوسائٹی اور میڈیا کو تیسرے مورچہ کا آنا منظور نہیں کیونکہ دیش اور دیش کی سیاست پر قبضہ کی خواہش رکھنے والے پونجی پتیوں اور فرقہ پرستوں پر تیسرا مورچہ لگام کس سکتا ہے اسی لئے پونجی پتی اور میڈیا آگے آکر مودی کے ساتھ کھڑے ہو گئے ۔
در اصل مودی کارپوریٹ اور سیاست کے ملن کی پیداوار ہیں پونجی کی بے رحمی سے خدمت کے سوائے اس ملن کا نہ کوئی مذہب ہے نہ ذات ۔ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ بات صاف ہوتی جا رہی ہے مودی کی اب تک کی سیاست کا یہی حاصل ہے ۔بی جے پی کا پورا پرچار ، اس پر خرچ کیا جا رہا اربوں روپیہ ، اس کے پیچھے کھڑے ملک کے بڑے بڑے اجارہ دار گھرانے اس بات کا ثبوت ہیں ۔ مودی یعنی موسولینی کی فسطائیت مطلب پونجی واد ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہملک کے عوام سمجھداری کا ثبوت دیتے ہیں یا پھر پیسہ کی چمک ، میڈیا کے لبھاؤنے پروپیگنڈے ،بناوٹی گجرات ماڈل ، فرضی لہر ، فرضی بھیڑ ، یا کنہیں اور عوامل سے متاثر ہو کر مودی کو سرکار بنانے کا موقع دیتے ہیں اگر ایسا ہوا تو دیکھئے کس کس کا ریکارڈ ٹوٹتا ہے ، منگائی کا ، کرپشن کا ، بھکمری کا ، کسانوں کی خودکشی کا ، چھوٹے دکانداروں کی اجتماعی خود کشی کا ، مزدوروں کے استحصال کا ، نفرت کا ، یا فسادات کا ۔ اس صورتحال کو شاعر نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے ۔
اہل دانش کی یہ پریشانی ہے
کاغذ کا شہر ہے شعلوں کی نگہبانی ہے۔۔
جواب دیں