محمد عسجد رضا مصباحی
دارالعلوم غریب نواز و صدر تحریک اصلاح معاشرہ گڈا جھارکھنڈ
کہتے ہیں کہ ایک پادری، جس کا نام "ویلنٹائن" تھا، تیسری صدی عیسوی میں رومی بادشاہ کلاڈیس ثانی کے زیر حکومت رہتا تھا۔ کسی نافرمانی کی بنا پر بادشاہ نے پادری کو جیل میں ڈال دیا، پادری اور جیلر کی لڑکی کے مابین عشق ہوگیا حتیٰ کہ لڑکی نے اس عشق میں اپنا مذہب چھوڑ کر پادری کا مذہب "نصرانیت" قبول کر لیا۔ اب وہ روزانہ ایک سرخ گلاب لے کر پادری سے ملنے آنے لگی، جب بادشاہ کو ان باتوں کا علم ہوا تو اس نے پادری کو پھانسی دینے کا حکم صادر کیا، یہ سن کر پادری نے اپنے آخری لمحات معشوقہ کے ساتھ گزارنے کا ارادہ کیا اور اس کے نام ایک کارڈ بھیجا، جس پر یہ جملہ لکھا تھا "مخلص ویلنٹائن کی طرف سے"۔ بالآخر 14 فروری کو اس پادری کو پھانسی دے دی گئی، اور پھر اس کے بعد سے ہی ہر سال 14، فروری کو پادری کی طرف منسوب کرکے "ویلنٹائن ڈے"کی صورت میں بے حیائی و فحاشی کا یہ دن دھوم دھام سے منایا جانے لگا۔ (ویلنٹائن ڈے، ص:12)
مگر افسوس کہ مغربی تہذیب کی اندھا دھند تقلید نے مسلم معاشرے کو بھی دھیرے دھیرے اس برائی کی چپیٹ میں لے لیا، آج مشرقی تہذیب پر مغربیت کا رنگ اس طرح غالب آ گیا ہے کہ نسل نو اس دن میں عریانیت کے فروغ کو اپنے لیے سعادت کی بات سمجھنے لگی ہے اور اس پہ روشن خیالی کا لیبل لگا کر گھر گھر عام کرنے میں بھی وہ مصروف ہو گئی ہے۔ اسے نا تو دین و شریعت کا کچھ پاس و لحاظ ہے اور نہ ہی فکر آخرت کا احساس۔
یقیناً، بد نگاہی، بے پردگی، فحاشی، عریانی، اجنبی لڑکے لڑکیوں کا میل ملاپ، ہنسی مذاق، اس ناجائز تعلق کو مضبوط رکھنے کے لیے تحائف کا تبادلہ اور آگے زنا اور دواعی زنا تک کی نوبتیں یہ سب وہ باتیں ہیں جو اس روز عصیاں زور و شور سے جاری رہتی ہیں، اور یہ تمام امور شریعت اسلامیہ کے نزدیک اس طرح قطعیت کے ساتھ ناجائز و حرام ہیں کہ اس میں کسی بندہ مومن کو ذرہ برابر بھی شک نہیں ہونا چاہیے۔
یاد رہے! ویلنٹائن ڈے کے نام پر اجنبی مرد و عورت کے مابین جو ناجائز محبت کا تعلق قائم ہوتا ہے اور آپس میں جو تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے، اس سے متعلق فقہاے کرام فرماتے ہیں کہ: " یہ رشوت کے حکم میں داخل ہے اس لیے اس طرح کا گفٹ لینا اور دینا دونوں ہی ناجائز و حرام ہیں، اگر کسی نے یہ تحائف لیے ہیں تو اس پر توبہ کے ساتھ ساتھ یہ تحائف واپس کرنا بھی لازم ہے" ۔
بحرالرائق میں ہے: "مایدفعہ المتعاشقان رشوۃ یجب ردھا ولا تملک"۔ عاشق و معشوق (ناجائز محبت میں گرفتار) آپس میں ایک دوسرے کو جو (تحائف) دیتے ہیں وہ رشوت ہے ان کا واپس کرنا واجب ہے اور وہ ملکیت میں داخل نہیں ہوتے" ۔ (بحرالرائق ،کتاب القضاء، ٦/ ١٤٤٠)
پیارے اسلامی بھائیوں اور بہنوں! خدارا ہوش کے ناخن لیں۔ یاد رکھیں! شیطان کے نقش قدم پر چلنا جہنم کی راہ اختیار کرنا ہے۔ لہذا، اب بھی وقت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوے اور محبوب ﷺ سے شرم کرتے ہوے اس دن اور اس کے علاوہ زندگی بھر کی بے حیائی، بے پردگی اور فسق و فجور سے خوف کھاتے ہوئے اپنے رب کی بارگاہ میں صدق دل سے توبہ کریں اور آئندہ شریعت کے احکامات کی روشنی میں صاف ستھری اسلامی زندگی گزارنے کا پختہ عزم کریں ۔
اللہ ہم سب کو برائیوں سے اجتناب کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین بجاہ سید المرسلین صل اللہ علیہ وسلم
اللہ کرے دل میں اتر جائے مری بات
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں