خبردار! دشمن کی سازشوں سے

ڈاکٹر سید فاضل حسین 

کئی سانحات سے دوچار ہونے کے بعد ہم ہندوستانی مسلمان ابھی صدمے سے سنبھل نہیں سکے کہ دشمن ہمیں مختلف طریقوں سے اپنی جال میں پھانسنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ دہلی میں کچھ افراد بی جے پی میں شامل ہوئے‘ اْسے ایک منظم طریقے سے اْچھالا گیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ شاہین باغ دہلی کے احتجاج کے اہم قائدین بی جے پی میں شامل ہوگئے۔ عام آدمی پارٹی جس نے مسلم دشمنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بالخصوص تبلیغی جماعت مرکز کے معاملے میں۔ اسے کسی لیڈر نے فوری دعویٰ کردیا کہ شاہین باغ بی جے پی کا منظم کردہ تھا۔ ہم مٹی بنے انسان مٹی کی ہی تاثیر رکھتے ہیں۔ ہر اثر فوری قبول کرلیتے ہیں۔ چنانچہ کچھ دیر کے لئے ہی سہی‘ یہ سوچنے کے لئے مجبور ہوگئے کہ کیا واقعی شاہین باغ احتجاج بی جے پی کا منظم کردہ تھا؟ اتنے طویل عرصے تک ریکارڈ قائم کرنے والا یہ احتجاجی مظاہرہ جس میں اپنی زندگی کی آخری سانس لینے والی خواتین شامل تھیں‘ جس کے لئے ہر قسم کی قربانیاں دی گئیں‘ کیا یہ ایک دھوکہ تھا؟ بہت سارے سوالات ہم نے اپنے آپ سے کئے۔ بھلا ہو سہیل انجم کا جنہوں نے بی جے پی میں شامل ہونے والے شہزاد علی سے بات چیت کی اور شاہین باغ دھرنے کے منتظمین کے حوالے سے یہ انکشاف کیا کہ شہزاد کا اس احتجاج سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ اسے اسٹیج پر بھی جانے نہیں دیا گیا۔ پولیس نے احتجاجیوں کے خلاف سینکڑوں نوٹسیں جاری کیں‘ مگر نہ تو شہزاد کو نوٹس جاری کی گئی نہ ہی اْسے گرفتار کیا گیا بلکہ یہ  ایک حقیقت ہے کہ شہزاد کا تعلق پہلے ہی سے بی جے پی سے تھا۔
سہیل انجم برصغیر کے ممتاز صحافی ہیں‘ وائس آف امریکہ کے نمائندے ہیں۔ اردو دنیا میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان کی تحریر مستند اور دستاویزی حیثیت رکھتی ہے۔ یقینا ان کے چشم کشا انکشافات سے بہت سارے غلط فہمیوں کا ازالہ ہوگا۔
شاہین باغ دہلی، گھنٹہ گھر لکھنؤ، سرکس میدان کولکتہ کے علاوہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے حیدرآباد میں مشتاق ملک کی زیر قیادت ملین مارچ جس میں واقعی ایک ملین سے زائد عوام نے شرکت کی یا بیرسٹر اسدالدین اویسی کی قیادت میں ترنگا ریالی جس میں انسانی سمندروں کا سیلاب تھا‘ دراصل ہندوستانی مسلمانوں کی اپنی شہریت سے متعلق شعور کی بیداری کی علامت تھے۔ اس میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کیوں کہ انہیں اس بات کا احساس تھا کہ اگر وہ اس مرتبہ خود آگے بڑھ کر محاذ نہ سنبھالیں تو پھر ہندوستانی مسلمانوں کا مستقبل غیر یقینی ہوگا۔ ان احتجاجی مظاہروں نے ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی بنیادیں ہلاکر رکھ دی تھیں۔ اگر کورونا وائرس کے خطرات لاحق نہ ہوتے تو شاید یہ احتجاج ابھی تک جاری رہتا۔ مسلم دشمن طاقتیں ہمیشہ مسلمانوں کو مسائل میں الجھاکر ان کی توانائیوں کو زائل کرنے کی سازش کرتی رہی ہیں۔ مسلمان بڑی آسانی سے مشتعل ہوجاتا ہے۔ اور دہشت گرد، تخریب کار، انتہا پسند یا پھر کسی دشمن ملک کے آلہ کار ہونے کا اس پر الزام آسانی سے ثابت بھی ہوجاتا ہے۔ چوں کہ تدبر، فراست سے ہم دور ہوتے جارہے ہیں۔ ہوش کے بجائے جوش میں رہتے ہیں۔ اِسی وجہ سے بڑی آسانی سے دشمن ہمارا شکار کرلیتے ہیں۔ تحقیق کی ہمیں ہدایت دی گئی ہے‘ مگر ہم سنی سنائی باتوں پر فوراً یقین کرلیتے ہیں۔ قرآن کو ہم دستورِ زندگی، ضابطہ حیات تسلیم کرتے ہیں‘ مگر اس کی تعلیمات پر نہ تو غور کرتے ہیں اور نہ ہی عمل کی کوشش۔ یہی وجہ ہے کہ ہر افواہ پر یقین کرتے ہیں اور بدگمان بھی ہوتے ہیں اور  مشتعل بھی۔ شاہین باغ کو بی جے پی کا منظم کردہ احتجاج قرار دینا بھی دراصل مسلم دشمن طاقتوں کا حربہ ہے تاکہ مستقبل میں جب اس قسم کا کوئی احتجاج ہو‘ تو اس کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کئے جاسکیں۔ یہ طاقتیں مسلم قیادت کے بارے میں بھی اسی طرح کے پروپگنڈہ میں مصروف رہتی ہے‘ جب کبھی مسلم قیادت ملی مسائل پر اپنی قوم کو متحدہ کرنے میں کامیاب ہونے لگتی ہے‘ اور مسلمان اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو یکجا کرکے اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کرتے ہیں تو مسلم دشمن جماعتوں، تنظیموں کے آئی ٹی سیل میں موجود مسلمانوں کے مخبر اور کچھ ضمیر فروش پالتو صحافی کبھی ٹی وی چیانلس کے ذریعہ تو کبھی اپنے اخبارات کے ذریعہ مسلم قیادت سے متعلق گمراہ کن خبریں، فیچرس کے ذریعہ ان کیخلاف پروپگنڈہ میں مصروف ہوجاتی ہے اور غیر مسلم طریقہ سے مسلم قیادت سے بدظن ہوتا جاتا ہے۔ 6دسمبر  1992ء  کے بعد جب ہندوستان کے تمام مسلمان اللہ کے گھر کی شہادت کے خلاف متحد ہونے لگے تھے تب مسلم قیادت کو ملت کا سوداگر قرار دے کر ان کے خلاف مظاہرہ کروائے گئے، ان پر حملے کئے گئے جس کی وجہ سے مسلم قائدین کو ایک طویل عرصہ تک گوشہ نشین ہوجانا پڑا۔ اور جس وقت تک وہ اپنی قوم میں واپس آنے کے قابل ہوتے اتنے عرصہ میں مسلمانوں کے جذبات ٹھنڈے ہوچکے تھے۔ 28برس بعد ایک بار پھر مسلم قیادت کے خلاف اِسی قسم کا پروپگنڈہ جاری ہے۔ مسلم قیادت کی اپنی کوتاہیاں، کمزوریاں، غلطیاں، ذاتی مفادات ہیں مگر کوئی بھی مسلم قائد جس کے دل میں رتی برابر بھی ایمان باقی ہے وہ اپنی قوم کا سودا نہیں کرسکتا۔ اگر وہ کرسکتا ہے تو پھر اس میں اور کوٹھوں کے دلال میں کچھ فرق نہیں کیوں کہ جب ضرورت پڑتی ہے تو یہ دلال اپنی ماں بہنوں کا سودا بھی کرلیتے ہیں۔ ہندوستان میں کم از کم ایسا کوئی مسلمان قائد نہیں ہیں۔ جسے ملت کا سوداگر کہا جاسکے۔ ہاں! مسلم نام رکھ کر ابتداء  ہی سے مسلم دشمن طاقتوں کے جو آلہ کار رہے ہیں‘ ان سے اس قسم کی امید کی جاسکتی ہے۔
شاہین باغ ہو یا مسلم قیادت ان سے متعلق اگر گمراہ کن پروپگنڈہ ہوتا ہے تو ہمیں اس کی تحقیق کرلینی چاہئے۔ کیوں کہ قرآن پاک میں بھی اس کی ہدایت دی گئی ہے۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے ”اے ایمان والو!اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کئے پر نادم ہو“(الحجرات: آیت۶)۔اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے پھیلادے“ (صحیح مسلم)۔
موجودہ حالات ہمارے لئے آزمائشی ہیں۔ یہاں پر ہمیں اپنے شعور کا امتحان دینا ہے۔ سوشیل میڈیا پر مسلم دشمن عناصر‘ مسلم نام اور فرضی مسلم تنظیموں کے اکاؤنٹس سے بعض ایسی خبریں ویڈیو کلیپنگس کو شیئر کرتے ہیں جس سے وقتی طور پر ہم خوش ہوجاتے ہیں اور نادانی یا جوش میں اْسے سبحان اللہ کے ساتھ مختلف گروپس میں شیئر کرتے ہیں اور پھر قانون کے شکنجے میں آجاتے ہیں۔ جیسے بنگلور میں توہین رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا افسوسناک اور بدبختانہ واقعہ پیش آیا،جس پر سوشیل میڈیا کے جہادیوں نے قوم کو اْکسانے کی کوشش کی ان کا جوش بڑھانے کی کوشش کی بلکہ یہاں تک لکھ دیا کہ بنگلور کے مسلمان واقعی مردمجاہد ہیں اور حیدرآباد کے بشمول دوسرے علاقوں کے مسلمانوں کا ایمان کمزور ہوگیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہی آیا ہے کہ کئی افراد کے خلاف مقدمات درج کرلئے گئے۔ سوشیل میڈیا پر کسی کو اْکسانے سے آپ کوئی مذہبی فریضہ انجام نہیں دے رہے ہیں بلکہ اپنی قوم سے دشمنی کررہے ہیں۔ جو بھی واقعہ پیش آیا قابل مذمت ہے‘ مسلمانوں کا غم و غصہ فطری ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہئے تھا کہ آیا یہ پرتشدد مظاہرے واقعی یہ ہمارے ایمانی جذبہ کا عکاس تھا یا اس کے پس پردہ بعض عناصر کے سیاسی مقاصد کارفرماتھے۔سوال یہ ہے کہ ہم ہماری اتنی مخالفت کیوں ہورہی ہے؟ اسلام سے، مسلمانوں سے اور ہمارے خاتم البیین سے انہیں اتنی نفرت کیوں؟ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہم نے اسلام کو جس طرح سے دوسروں تک پہنچانا تھا نہیں پہنچایا۔ اور بہ حیثیت مسلمان ہم نے اپنے کردار کی حفاظت نہیں کی۔ ہم اپنا جائزہ لیں‘ اور اسلامی تعلیمات کو بہتر انداز میں دوسروں تک پہنچائیں۔ ہم اپنے کردار و اخلاص سے دلوں کو جیت سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں اگرچہ کہ یہ مشکل ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔ ہم اس ملک کی ضرورت بن جائیں اور ہر ہندوستانی شہری یہ سوچنے کے لئے مجبور ہوجائیں کہ مسلمانوں کی بدولت اس ملک کی رونق بھی ہے‘ اور سرزمین پر برکت بھی۔ ان کے وجود سے اس ملک کی بقا ہے۔
بحرین میں ایک برقعہ پوش خاتون کی جانب سے مورتیاں توڑنے کے واقعات کو اگر آپ سبحان اللہ کہہ کر سوشیل میڈیا پر شیئر کریں گے تو آپ سے دوسرے نفرت نہیں تو کیا محبت کریں گے؟ کسی کی دلآزاری نہ کریں۔ پہلے اپنے سینوں میں جو خودغرضی اور اَنا کے بت ہیں‘ اْسے توڑیں۔ دوسروں کی مذہبی دلآزاری کرکے آپ یہ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ دوسرے آپ کی دلآزاری نہیں کریں گے۔ پہلے ہی کہہ دیا گیا ہے کہ تم دوسروں کے خداؤں کو بر ا مت کہو۔ ورنہ وہ بھی تمہارے خدا کو برا کہیں گے۔
شاید کہ تیرے دل میں اْترجائے میری بات(یو این این)

 

«
»

کرونا نے ہمیں مسلمان کردیا

توہینِ رسالت کی سزا کے لیے عالمی قانون بنایا جائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے