سہیل انجم
اس مضمون کی تحریک ڈاکٹر اکبر علی بلگرامی کی ایک تحریر سے ملی ہے۔ انھوں نے روزنامہ آگ کے 17 جنوری بروز اتوار کے شمارے میں سینئر صحافی آدرش پرکاش سنگھ کی ہندی کتاب ”صحیح بھاشا سرل سمپادن“ پر ایک چھوٹا سا تبصرہ کیا ہے۔ کتاب دیکھنے کا شرف تو حاصل نہیں ہوا لیکن تبصرہ پڑھ کر کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا۔ حالانکہ آدرش پرکاش نے ہندی کے اخبارات اور صحافیوں کو ذہن میں رکھ کر یہ کتاب لکھی ہوگی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کتاب دیگر زبانوں کے صحافیوں کے لیے بھی مفید ہوگی۔ مجھے ہندی اور انگریزی یا دوسری زبانوں کے اخبارات میں کام کرنے والے صحافیوں کے بارے میں تو زیادہ اندازہ نہیں ہے لیکن اس تبصرے سے جو اشارہ ملتا ہے اس کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے کہ تمام زبانوں کے صحافی اور بالخصوص نو آموز صحافی ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ کیونکہ آدرش پرکاش نے اخباروں میں جن چیزوں کی اہمیت پر زور دیا ہے وہ صرف ہندی اخباروں کے لیے ہی ضروری نہیں بلکہ دوسری زبانوں کے اخباروں کے لیے بھی ضروری ہیں اور میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اردو صحافیوں کے لیے زیادہ ضروری ہیں۔
اردو صحافیوں کی جو آخری نسل ہے وہ تو اپنا کام کر چکی۔ دوسری نسل بھی اپنا کام مکمل کرنے کے راستے پر گامزن ہے۔ البتہ جو تیسری نسل ہے اس کو ابھی اس راستے پر بہت دور تک جانا ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ صحافت کے رموز و نکات سے واقف ہو۔ خبر سازی کیا ہوتی ہے۔ جملے کیسے لکھے جاتے ہیں۔ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ اور جامع انداز میں اپنی بات کیسے کہی جا سکتی ہے۔ کس قسم کی خبروں کے لیے کس قسم کے الفاظ کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ مضامین کیسے لکھے جانے چاہئیں۔ ان میں ادبی چاشنی کیسے پیدا کی جائے اور اپنی تحریر کو کیسے پرلطف بنایا جائے۔ ان تمام باتوں کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اردو صحافت کی تاریخ گواہ ہے کہ بیشتر بڑے صحافی ادیب اور شاعر بھی ہوا کرتے تھے۔ اردو اور انگریزی کے ایک سینئر صحافی قیصر تمکین نے اپنی خود نوشت ”خبر گیر“ میں روزنامہ قومی آواز لکھنو ¿ کے دفتر کا نقشہ کھینچا ہے اور بتایا ہے کہ قومی آواز میں ڈیسک پر کام کرنے والے زیادہ تر صحافی شاعر و ادیب ہوا کرتے تھے۔ اسی لیے وہاں کے ماحول پر دفتریت نہیں بلکہ ادبیت غالب رہا کرتی تھی۔
آدرش پرکاش نے کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ بات کہنے پر زور دیا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اصراف صرف پیسوں کا نہیں ہوتا بلکہ الفاظ کا بھی ہوتا ہے۔ اب یہاں لفظ ”اصراف“ استعمال کیا گیا ہے۔ کچھ لوگ اس کے ساتھ بیجا طریقے سے ”بیجا“ بھی لگا دیتے ہیں۔ یعنی بیجا اصراف۔ جبکہ بیجا بجائے خود اصراف میں پوشیدہ ہے۔ پاکستان کے معروف کالم نویس اور شاعر و ادیب عطاء الحق قاسمی نے اپنے ایک کالم میں کم سے کم الفاظ کے استعمال پر زور دیتے ہوئے لکھا تھا کہ جہاں ہم نے غیر ضروری لفظ استعمال کیا وہیں وہ مر گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”بندہ مر جائے تو مر جائے لیکن لفظ نہیں مرنا چاہئے۔“ دہلی کے قومی آواز میں ایک سینئر صحافی تھے ظفر زاہدی۔ وہ وہاں نیوز ایڈیٹر تھے۔ زبردست نیوز سینس رکھتے تھے۔ ان کی ایک بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ جب کوئی سب ایڈیٹر خبر بنا کر ان کو دیتا اور وہ یہ محسوس کرتے کہ سرخی میں الفاظ زیادہ ہیں تو وہ الگ سے سرخی نہیں لکھتے بلکہ اسی سرخی میں آگے پیچھے سے کچھ الفاظ اس طرح کم کر دیتے تھے کہ سرخی انتہائی جامع ہو جاتی تھی۔ وہاں یہ فارمولہ تھا کہ دو کالمی سرخی میں کتنے الفاظ ہوں گے، تین کالمی میں کتنے اور چار اور پانچ کالمی میں کتنے۔ سرخی دراصل خبر کی جان ہوتی ہے۔ عموماً انٹرو ہی میں سرخی پوشیدہ ہوتی ہے۔ لیکن عشرت علی صدیقی کے بعد دہلی قومی آواز کے ایڈیٹر بننے والے موہن چراغی جب خبر بناتے تو سرخی ایسی لگاتے کہ آپ پوری خبر پڑھ جائیں لیکن سرخی کا کہیں اتا پتا نہیں ہوتا تھا۔ جب آخری جملے پر پہنچتے تب معلوم ہوتا کہ سرخی تو یہاں بیٹھی ہوئی ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی سے صحافت کو بہت فائدہ پہنچا ہے۔ آج کے اردو صحافی بھی اس سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ نہ صرف صحافی بلکہ اخباروں کے دفتر سے دور بہت دور بیٹھے لوگ بھی اپنے کمپیوٹر پر خبریں یا مضامین ٹائپ کرکے اخباروں میں بھیجتے ہیں اور وہ شائع بھی ہوتے ہیں۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے اخباروں میں کام کرنے کی رفتار میں زبردست اضافہ کر دیا ہے۔ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام کرنے کے مواقع مل رہے ہیں۔ روزنامہ اخباروں میں زائد از ایک ایڈیشنس کی تیاری میں بڑی سہولت ہو گئی ہے۔ ہمارے ایک ہندی صحافی دوست ہیں رئیس احمد لالی۔ آجکل آگرہ میں ہندی روزنامہ امر اجالا میں برسر کار ہیں۔ انھوں نے کل فون پر بتایا کہ ان کے ذمے پانچ پانچ ایڈیشن ہیں اور وہ تن تنہا پانچوں ایڈیشن تیار کرتے ہیں۔
لیکن اس ترقی کا ایک منفی پہلو بھی ہے۔ میں اردو اخباروں کی حد تک بات کروں گا۔ اب استادی شاگردی کی روایت کمپیوٹر نے تقریباً ختم کر دی ہے۔ میں نے کئی سال تک کئی سینئر صحافیوں کو اپنا استاد بنایا اور ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ لیکن معاف کیجیے آج کے نوآموز صحافیوں کے نزدیک استادی شاگردی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ چونکہ وہ کمپیوٹر پر کام کرنا جانتے ہیں، دوسری ویب سائٹوں سے مواد حاصل (سرقہ) کرنے کے فن میں ماہر ہیں اور کمپیوٹر پر صفحہ سازی کر لیتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ صحافت کے استاد ہو گئے۔ آج بہت سے اردو اخباروں میں پروف ریڈنگ کی روایت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ایسی ایسی غلطیاں ہوتی ہیں کہ سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ ایسی غلطیاں بعض سب ایڈیٹروں کی کم علمی کی وجہ سے بھی ہوتی ہیں۔ انٹرنیٹ نے جہاں بہت سی سہولتیں پیدا کی ہیں وہیں گوگل ٹرانسلیشن بھی موجود ہے۔ لیکن اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ناموں کا بھی ترجمہ کر دیتا ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں ایک بڑے روزنامہ میں ایسی ہی ایک بھیانک غلطی نظر آئی۔ ہوا یوں کہ میڈیا میں یہ خبر آئی تھی کہ ہندوستانی افواج نے پاک مقبوضہ کشمیر میں اسٹرائک یا کارروائی کی ہے۔ چند روز کے بعد فوج کی جانب سے یہ وضاحت آئی کہ یہ خبر غلط ہے۔ ایسی کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ خبر انگریزی میں آئی اوراردو کے صحافی نے جناب گوگل کی خدمات حاصل کیں اور اس سے اردو میں ترجمہ کرا لیا۔ اب یا تو انھوں نے دیکھا نہیں ہوگا کہ ترجمہ کیسا ہے یا پھر خود ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا ہوگا۔ یا پھر انھوں نے یہ سمجھا ہو کہ گوگل صاحب تو ماشاء اللہ بہت عالم فاضل ہیں ان سے کوئی غلطی نہیں ہوگی۔ صبح کو جب میں نے اس خبر کو پڑھا تو اس کا ترجمہ تھا کہ ہندوستانی افواج نے پاک مقبوضہ کشمیر میں ”ہڑتال“ کرنے کی تردید کر دی۔ گوگل نے اسٹرائک کا ترجمہ ہڑتال کیا اور اخبار میں وہی چھپا بھی۔ جبکہ اسٹرائک کا لغوی معنی کارروائی بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح جب 2016 میں ہندوستانی افواج نے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائک کی تھی تو ایک اور بڑے اخبار نے سرجیکل اسٹرائک کا ترجمہ ”جراحی ہڑتال“ کیا تھا۔ حالانکہ اس کے ترجمے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
ایک بڑی خامی یہ بھی پیدا ہو گئی ہے کہ اخباروں کے دفتر میں باہر سے جو خبر جس طرح آتی ہے اسی طرح لگا دی جاتی ہے۔ اس کو پڑھنے اور اس کی اغلاط کو درست کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ حالانکہ ڈیسک پر بیٹھے ہوئے سب ایڈیٹر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پوری خبر پڑھے۔ اگر غلطیاں ہیں تو انھیں درست کرے۔ غیر ضروری تفصیلات کو ایڈٹ کرے اور اسے چھپنے کے قابل بنائے۔ اس سے خبر کا بھی معیار بلند ہوتا ہے اور اخبار کا بھی۔ میں ایک مثال دینا چاہوں گا۔ دہلی کا روزنامہ قومی آواز 2008 میں بند ہوا تھا۔ اس سے دو ایک سال قبل ہم لوگ شام کی شفٹ میں کام کر رہے تھے۔ یو این آئی اردو سروس سے ایک خبر آئی جو کہ ”آئی ایس آئی“ یعنی انڈین اسٹینڈرڈ انسٹی ٹیوٹ سے متعلق تھی۔ یو این آئی کے مترجم نے عجلت میں قلم گھسیٹتے ہوئے اس کا ترجمہ کیا ہوگا۔ لہٰذا ISI کو کمپیوٹر آپریٹر نے 151 سمجھا۔ پوری خبر میں جگہ جگہ 151 ہی ٹائپ کیا ہوا تھا۔ اتفاق سے وہ خبر میرے پاس آئی اور میں نے جب یہ فاش غلطی دیکھی تو میں نے اسے درست کیا اور اپنے پاس بیٹھے ہوئے ساتھی کو بتایا کہ دیکھیے میں نے تو درست کر دیا ہے لیکن کل دہلی کے تمام اخباروں میں 151 ہی چھپا ہوگا۔ اگلے روز جب ہم نے قصداً دوسرے اخبارات کو دیکھا تو سب میں واقعی 151 ہی چھپا ہو ا تھا۔ زبان و بیان کی غلطیاں تو بہت ہوتی ہیں۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ زبان سیکھنی ہو تو اخبار پڑھا کیجیے۔ لیکن اب یہ کہنا پڑتا ہے کہ زبان بگاڑنی ہو تو اخبار پڑھا کیجیے۔
ایک اور مثال دے کر بات ختم کرو ں گا۔ جب اترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی تو ابتدا میں جو اہم فیصلے کیے گئے تھے ان میں ایک فیصلہ سلاٹر ہاوسز یا بوچڑ خانوں کے سلسلے میں بھی تھا۔ (اب یہاں لفظ فیصلہ استعمال ہوا ہے۔ بہت سے اردو صحافی ہندی والوں کی نقل میں فیصلہ لیا لکھتے اور بولتے ہیں۔ جبکہ فیصلہ لیا نہیں کیا جاتا ہے)۔ بہرحال میں نے ریڈیو وائس آف امریکہ کے لیے رپورٹ تیار کی اور سلاٹر ہاوس یا بوچڑ خانے کو ”مذبح“ لکھا۔ لیکن جب رپورٹ نشر ہونے کے بعد اس کی ویب سائٹ پر لگی تو مذبح کو ”مذبح خانہ“ لکھا ہوا تھا۔ میں نے دفتر میں میل کیا اور اس غلطی کی نشاندہی کی۔ انھوں نے فوراً اس کی تصحیح کر دی۔ لیکن جب میں نے بی بی سی اردو سروس کی ویب سائٹ پر بھی ”مذبح خانہ“ دیکھا تو اس کے شکایت کے کالم میں ایک مکتوب پوسٹ کیا۔ جس پر ریڈی میڈجواب آیا کہ آپ کی شکایت پر پندرہ دنوں کے اندر کارروائی کی جائے گی۔ دہلی کے ایک بڑے اخبار میں بھی ”مذبح خانہ“ ہی لکھا جاتا رہا۔ ہم نے نشاندہی کی او ربتایا کہ جس طرح مسجد کے ساتھ خانہ نہیں لگے گا کیونکہ خانہ اس میں پوشیدہ ہے اسی طرح مذبح کے ساتھ بھی خانہ نہیں لگے گا۔ مذبح کا مطلب ہی ہے ذبح کرنے کی جگہ۔ اْسی طرح جیسے مسجد سجدہ کرنے کی جگہ۔ بہر حال متعدد بار کی نشاندہی کے بعد اس اخبار میں اس غلطی کی اصلاح ہو گئی۔
پاکستان کے روزنامہ جسارت کے ایڈیٹر اطہر ہاشمی ہر ہفتے ایک کالم لکھا کرتے تھے جس کا عنوان تھا ”خبر لیجے زباں بگڑی“۔ اس میں وہ زبان کی اصلاح کرتے تھے۔ لیکن اب وہ اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ اب کوئی اس طرح زبان کی اصلاح کرنے والا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ (پس نوشت: ایسا نہیں ہے کہ ملک بھر سے شائع ہونے والے تمام اردو اخباروں میں ایسی غلطیاں ہوتی ہوں۔ کچھ اخبارات ایسے بھی ہیں جو ان باتوں کا خیال اور لحاظ رکھتے ہیں۔ اس لیے سب کو ایک ہی پیمانے پر نہیں تولا جا سکتا)۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں