خبر ہونے تک……….(تازہ خبروں پر تازہ تبصرے)

خیر حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ملک پروین توگڑیا کے باپ کا نہیں ہے کہ اسے ہندو راشٹر بنا لیں گے یہ ملک سب کا ہے جتنا ہندو کا اتنا مسلمان کا ،سکھ کا عیسائی کا اور دیگر مذاہب کے لوگوں کا۔دراصل ہر انسان میں کچھ نہ کچھ خصلت ہوتی ہے جسکی تکمیل کے لئے وہ کچھ بھی کر جاتے ہیں ۔پروین توگڑیا جیسے لوگ اس ملک میں کتنے آئے اور چلے گئے مگر یہ ملک ثابت قدم رہا۔اسلئے وہ جو خواب دیکھ رہے ہیں وہ بلی کے خواب کی مانند رہے گا جس میں انہین صرف چھیچھڑے ہی نظر آتے ہیں۔رہا سوال اجودھیا میں رام مندر بنانے کا تو اسکے لئے انہیں اعلان کرنے کی کیا ضرورت ہے اس ملک کا ہر ذی ہوش یہ جانتا ہے کہ طاقت کے بل پر کچھ بھی کیا جا سکتا ہے مگر اس زور زبردستی اور ناحق ظلم کی جب انتہا ہوگی تو کیا ہوگا شاید یہ توگڑیا نہیں جانتے اسلئے وہ اول فول بک رہے ہیں وہ جو کہہ رہے ہیں وہ اتنا آسان نہیں ہے توگڑیا کا وجود مٹ جائیگا مگر ہندوستان کا وجود ہندو راشٹر میں تبدیل نہیں ہو گااس ملک کی سیکولر بنیاد کو کوئی ہلا نہیں سکتا۔اور نہ ہی اس ملک پر کسی ایک مخصوص قوم کی اجارہ داری ہے بلکہ یہ ملک پھولوں کے اس گلدستے کی طرح ہے جس میں مختلف قسم کے پھول سجائے گئے ہیں اور ہر پھول اپنی اپنی خوشبو سے اس ملک کی عوام کو معطر کئے ہوئے ہیں۔توگڑیا خواب دیکھا کریں خواب دیکھنا برا نہیں ہے مگر خواب کی تعبیر کو سمجھے بغیر اپنا ذہنی توازن مت کھو دینا ورنہ خوش فہمی کے اس سیلاب میں خود ہی بہہ جائینگے ۔اور کوئی بچانے والا بھی نہیں ہوگا۔(بصیرت فیچرس) 


دنیا نے عالمی یوم ماں منایا۔۔۔۔۔۔۔!

فاروق انصاری

بڑے ملکوں کے چونچلے ہیں عالمی سطح پر کسی مخصوص چیز کا دن منانا۔مثلاً عالمی یوم خواتین ،عالمی یوم انسانیت ،عالمی یوم ماں وغیرہ ۔اسی طرز پر یوم ماں بھی منایا گیا اس دن اخبارات میں ماں کی اہمیت بتائی گئی قلم کاروں نے اس عنوان پر مضامین لکھے ،نظمیں لکھیں کہیں کہیں پروگرام بھی ہوئے اور اسطرح اس یوم کو بھی روایتی انداز میں منا لیا گیا۔مگر اسکا اصل مفہوم آج بھی دنیا سمجھ نہیں پائی ہے اگردنیا نے ماں کی اہمیت کو سمجھا ہوتا تو بوڑھی ہو جانے کے بعد اس ماں کو شیلٹر ہوم میں نہیں رکھا جاتا۔ماں کی اہمیت کو تو صرف اسلام مذہب نے بتایا اور اسے اجاگر کیا ہے اسلام نے ماں کے پیروں تلے جنت بتائی ہے اس کا مطلب یپہی ہے کہ اگر جنت چاہتے ہو تو ماں کی خدمت کرو۔مگر ترقی یافتہ ممالک جو آج یوم ماں منا رہے ہیں وہی ممالک ان ماؤں کے لئے شیلٹر ہوم بنا کر انہیں گھر سے باہر نکال کر کرایہ کے دیکھ بھال کرنے والے نوکر کے سپرد کر دیتے ہیں کیا ماں کی یہی عظمت ہے ؟آج سبھی اخبارات میں ماں کے عنوان سے بڑے بڑے مضامین شائع ہوئے ہیں اور ماں کی بہت تعریف کرتے ہوئے اسکی عظمت اور وقار کو اجاگر کیا گیا ہے ۔لیکن اگر ان مضامین کے تناظر میں ہم دیکھیں تو حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے اور ماں کا دن صرف ایک فیشن یا روایات کی نذر ہے ۔جنہیں ماں کی عظمت پہچاننی ہو وہ اسلام کی تعلیمات کا مطالعہ کر لے ۔مگر افسوس کہ آج اسی اسلام کو ماننے والے مسلمان بھی ماں کی عظمت کو تار تار کر رہے ہیں نوجونوں میں یہ صفات کچھ زیادہ پائی جا رہی ہیں جہاں انکی شادی کر کے دیئے وہیں سے ماں کی عزت اچھالی جانے لگتی ہے ۔جوان بہو گھر میں ہوتے ہوئے ماں سے کام والی کی طرح کام لیا جاتا ہے کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے جس مذہب نے ماں کے پیروں تلے جنت بتایا ہے اگر اس مذہب کے ماننے والے زیادہ تر لوگ ماں کو گھر میں نوکرانی کی طرح رکھنے لگیں تو یہ نہ صرف اپنی عاقبت خراب کرنے والی بات ہے بلکہ اپنی زندگی کو بھی تباہی کے دہانے پر لیجانے والی بات ہے۔دنیا یوم ماں منا رہی ہے اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں مگر ہمارا مذہب ماں کے تعلق سے کیا حکم دیتا ہے اس سے تو سروکار ہونا چاہیئے ۔آج مسلمانوں میں اخلاقی پستی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے ماں باپ کی عزت و عطمت کو فراموش کر دیا ہے ہر طرح کے عیب نکالنے لگے ہیں پرانے خیالات والا کہہ کر انکی توہین کرتے ہیں ۔کاش کہ مسلمانماں کی عظمت کو سمجھ لے اور انکی خدمت کو اپنا شعار بنا لے تو آج بھی مسلمان قابل احترام بن سکتا ہے ۔(بصیرت فیچرس) 


ڈاکٹر جلیس انصاری اور انکے ساتھیوں کے مقدمات سرد خانے میں کیوں؟

۱۲ ؍ سال سے جیلوں میں قید ان لوگوں کا پرسان حال کوئی نہیں۔انصاف کا تقاضہ انتظار میں۔۔۔!

فاروق انصاری

ممبئی میں ۲۱ ؍ مارچ ۳۹۹۱ کے سلسلہ وار بم دھماکوں کے بعد اکا دکا لوکل ٹرینوں میں ہونے والے بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار ڈاکٹر جلیس انصاری اور انکے ساتھی گذشتہ ۱۲ ؍ سال سے جیلوں میں بند ہیں چند افراد ضمانت پر ہیں مگر انکلے مقدمات کا ابھی تک کوئی سرا نہیں مل رہا ہے ۔۱۲ ؍ سال بہت ہوتے ہیں عمر قید کی حد بھی ۰۲ سال ہوتی ہے مگر یہ لوگ ۱۲ ؍ سال سے جیل میں ہیں اور ابھی تک انکے مقدمات عدالتوں میں جاری ہیں ۔کیا یہی انصاف کا تقاضہ ہے کہ اسے بھی انصاف کے لئے انتظار کرنا پڑے؟بتایا جاتا ہے کہ انکے خلاف کئی الزامات ہیں جن میں ایک دو معاملوں میں انہیں سزا بھی سنائی جا چکی ہے مگر مقدمات کے سماعت کی رفتار اتنی دھیمی ہے کہ اسے مکمل ہوتے ہوتے مزید ۰۲ سال گذر جائینگے تب تک شاید وہ سبھی لوگ اس دنیا میں ہی نہ رہیں۔کہا جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر سے انصاف نظر نہیں آتا ۔مگر یہاں تو انصاف میں تاخیر کی ابھی تک حد ہی مقرر نہیں ہے کہ انہیں کب انصاف ملے گا اگر وہ واقعی قصور وار ہیں تو انہیں سزا دی جائے اور اگر بے قصور ہیں تو انہیں ۱۲ ؍ سال تک جیل میں نہیں رکھا جا سکتا ۔۱۲ ؍سال تو ہو چکے ہیں اب مزید کتنے سال اور انہیں جیلوں میں قید رہنا ہوگا یہ تو انہیں بھی نہیں معلوم۔اور نہ ہی کسی کو معلوم ہے اگر ایک سنگین جرم کی سزا میں ملزمین کو ۰۲ ۔۰۲ سال تک جیل میں رہنا پڑے اور اسکے بعد بھی انکے مقدمات کا کوئی حل نہ نکلے تو یہ افسوس کی بات ہے جبکہ ایسے کیسوں میں عدلات کو بہت جلد فیصلہ دے دینا چاہیئے تاکہ دوسروں کو عبرت ملے اور اسطرح کی واردات کو روکنے میں کامیابی ملے۔ملک میں جتنی بھی تخریبی کاروائیاں ہوئی ہیں ان سب کے ملزمین ابھی تک جیل میں بند اپنے مستقبل کو دیکھ رہے ہیں ان سب کا یہی کہنا ہے کہ عمر قید ہو یا پھانسی وہ اسے قبول کر لیں گے مگر فیصلہ تو ہو۔لیکن قانون کا طرز عمل نہ جانے کیوں اتنا تھکا دینے والا ہوتا ہے اسکے انتظار میں لوگ انتقال کر جاتے ہیں یہ کیسا عدالتی نظام ہے ؟جبکہ لوگ منتظر رہتے ہیں کہ جس نے جو ظلم کیا ہے گناہ کیا ہے انکے خلاف سخت سے سخت کاروائی ہونی چاہیئے۔مگر یہ ہو تب نا۔ ہمارے یہاں نہ جانے انصاف کے معالوں میں ملک کا عدالتی نظام مبینہ طور سے اتنا سست کیوں ہے؟جتنے بھی مقدمات چل رہے ہیں ان کا نپٹارا جلد سے جلد ہونا چاہیئے اسکے لئے حکومت کو فکر کرنے کی ضرورت ہے۔حالانکہ ۲۱ ؍ مارچ ۳۹۹۱ کے سلسلہ وار بم دھماکوں کا مقدمہ ختم ہو چکا ہے عدالت نے انکے مقدمے کا فیصلہ بھی سنا دیا ہے جن کو سزا دینی تھی انہیں سزا مل رہی ہے مگر اسکے بعد کے مقدمے ابھی تک زیر سماعت ہیں ۔جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے ۔اس ضمن میں بتایا جاتا ہے کہ ان سب کے مقدمات اپنے آخری مراحل میں ہیں مگر وہ کب ختم ہونگے کسی کو نہیں معلوم۔۱۲ ؍ سال جیل میں گذر چکے ہیں اب مزید کتنے سال اور انہیں جیل میں رہنا پڑے گا یہ کوئی نہیں بتا رہا ہے اس سلسلے میں حکومت کو توجہ دینا چاہیئے تاکہ انصاف کا گلا نہ گھٹنے پائے ۔باہر ممالک کی عدالتوں کا یہ حال ہے کہ وہاں عدالت اپنا کام کرتی ہے اور کسی بھی مقدمے کا فیصلہ ایک ڈیڑھ سال میں ہی سنا دیا جاتا ہے مگر ہمارے یہاں تو وقت کی کوئی قید ہی نہیں ہے جبکہ انصاف کا تقاضہ یہی ہے کہ ملزم کے مقدمات کی سماعت جلد از جلد ہو اور انہیں سزا بھی جلد دی جائے ۔مگر ہمارے ملک میں عدلیہ کا معاملہ ایسا ہے کہ مقدمات ایک نسل تک چلتے ہیں کتنے لوگ تو موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اسکے بعد عدالت کا فیصلہ آتا ہے۔ڈاکٹر جلیس انصاری کے ساتھ ساتھ کئی ایسے لوگ ہیں جو ۰۲ ؍ سال سے زائد عرصے سے جیل میں بند ہیں اور انکے مقدمات کی سماعت بھی مبینہ طور سے سرد خانے میں چلی جاتی ہے ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ عدلیہ آج بھی غیر جانب داری سے فیصلہ دیتی ہے اسکے نزدیک امیر غریب چھوٹا بڑا سب برابر ہیں مگر جب مقدمے کی پیروی اور اسکی مسلسل سماعت ہی نہیں ہوگی تو انصاف کہاں نظر آئے گا۔عدلیہ کی غیر جانب داری کا ثبوت یہی ہے کہ بہت سے ایسے ملزم جنہیں پولس نے دہشت گرد کہہ کر پکڑا تھا عدالت نے ناکافی ثبوت اور پولس کے پاس ٹھوس دلدئل نہ ہونے کی بناء پر انہیں با عزت رہا کر دیا ۔آج کل تو ہر دوسرے تیسرے دن یہی دیکھنے ،سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے کہ فلاں کیس میں ماخوذ کئے گئے ملزم کو عدالت نے رہا کر دیا۔کاش کہ ڈاکٹر جلیس اور انکے ساتھیوں کو تاریخ پر تاریخ نہ دیتے ہوئے انکے مقدمے کی سماعت بھی مسلسل ہونے لگے تو اس میں سے بہت سارے لوگ با عزت بری ہو جائینگے۔شاید اسی نتیجے سے مبینہ طور سے ڈر کر سرکار انکے مقدمات کی سماعت میں تساہلی برت رہی ہے یہ انصاف دینے کا پیمانہ نہیں ہے اگر انصاف کو زندہ رکھنا ہے تو عدالت کے نظام کو فعال اور شفاف بنانا ہوگا ۔با لخصوص نچلی عدالتوں کو زیادہ مستعد کرنے کی ضرورت ہے۔خیر ملک کی عدلیہ آج بھی جسطرح سے غیر جانب دار اور انصاف دینے والی ہے اس شناخت کو برقرار رکھنے کے لئے ان سبھی مقدمات کا نپٹارا جلد از جلد ہونا چاہیئے جو برسوں نے التواء میں پڑے ہیں اسکے بغیر انصاف نظر نہیں آئے گا اور جو انصاف نظر نہ آئے وہ انصاف ہی کیسا؟ (بصیرت فیچرس) 

«
»

اسامہ بن لادن کی مخبری کس نے کی؟

بڑوں کے نقشِ قدم نشانِ منزل ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے