چلئے سلمان خان کے’ ہٹ اینڈ رن ‘معاملے کے بہانے ہی سہی ظفر سریش والا کو یہ تو احساس ہوا کہ مسلمان ہونے کا مطلب قید میں جانا ہوتا ہے۔ اب تک وہ اس بات کو قبول کرنے سے انکار کرتے تھے ۔ویسے ان سے یہ بھی کہنا ہے کہ سلمان خان کو اس لیے سزا نہیں سنائی گئی تھی کہ وہ مسلمان ہیں بلکہ اس لیے سزا سنائی گئی تھی کہ سیشن کورٹ کی نظر میں وہ مجرم تھے۔ رہی ہندو اور مسلمان ہونے کی بات تو سیشن کورٹ کا جو فیصلہ تھا وہ ایک طرح سے چند مظلوم مسلمانوں کے حق میں تھا۔۔۔ سلمان خان کی کار سے ہلاک اور زخمی ہونے والے تمام کے تمام لوگ مسلمان ہی تھے۔۔۔ اب اگر ظفر سریش والا کی یہ بات کہ سلمان کو سزا اس لیے سنائی گئی کہ وہ مسلمان ہیں مان لی جائے اور مان کر عدلیہ پر جانبداری کا الزام لگایاجائے تو یہ سوال بھی اٹھے گا کہ عدلیہ اگر ایک مسلمان کے تئیں جانبدار تھی تو پھر سلمان خان کی کار سے مرنے والے نوراللہ اور زخمی مسلمانوں کے حق میں فیصلہ کرکے ان سے انصاف کیوں کررہی تھی۔۔۔؟ ظفر سریش والا شاید اس سوال کا جواب نہ دے سکیں کیوں کہ ’ہندو، مسلم اورفرقہ پرستی‘ کے سوالوں پر وہ کھلے دل سے نہیں بلکہ ایک ایسے ذہن سے سوچتے ہیں جس میں ’مودی اور بی جے پی‘ کے ’مفادات‘ کا ہی خیال رہتا ہے۔۔۔ یعنی وہ ’چِت بھی اپنی اور پٹ بھی اپنی‘ والے محاورے پر عمل کرتے ہیں۔ ویسے ظفر سریش والا کو یہ پتہ ہوناچاہیے کہ سلمان خان خود کو صرف ’مسلمان‘ ہی نہیں ’ہندو‘ بھی مانتے ہیں یہ اور بات ہے کہ جو ’ہندو‘ ہو وہ ’مسلمان‘ اورجو ’مسلمان‘ ہو وہ ’ہندو‘ بیک وقت نہیں ہوسکتا۔
دوسرا بیان سادھوی پراچی کا ہے، انہوں نے ظفر سریش والا سے ہٹ کر بیان دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ سلمان اگر ’خان‘ اور ’مسلمان‘ نہ ہوتے تو غریبوں کو انصاف ملتا اور انہیں عدالت سے چھٹکارہ نہ ملتا۔ یعنی ان کی نظر میں کسی کے مسلمان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے سزا نہیں ہوسکتی ! سادھوی کو چاہیے کہ وہ ملک بھر کی جیلوں کا جائزہ لیں ہرجگہ مسلمان اپنی آبادی کے تناسب کے مقابلے قید میں زیادہ نظر آئیں گے۔ سادھو اور سنت تو ’سچ‘ بولتے ہیں مگر اب سادھو، سنتوں اور پراجی جیسی سادھویوں نے ’جھوٹ‘ بولنے کا جیسے کہ بیڑااٹھالیا ہے۔ پراجی جی! ایک سچ آپ سے کہے دیتے ہیں؛ جیل میں ان لوگوں کونہیں ڈالا جاتا جن کے ساتھ مودی، آر ایس ایس او رسنگھ پریوار کا نام جڑا ہو۔ کیا آپ نہیں دیکھ رہی ہیں کہ گجرات کے تمام فسادی ایک کے بعد ایک جیل سے باہر آتے جارہے ہیں! (بصیرت فیچرس)
’ہٹ اینڈ رن‘ معاملہ: سلمان خان بچ تو گئے مگر۔۔۔!
*شکیل رشید (فیچر ایڈیٹر روزنامہ اردوٹائمز ، ممبئی)
کیا ہندوستان میں انصاف کے دوپیمانے ہیں ؟
مذکورہ سوال اِن دنوں فلم اسٹار سلمان خان کو سیشن کورٹ کے ذریعے سنائی جانے والی سزا کی ممبئی ہائی کورٹ سے معطلی اورفوری بلکہ ایک طرح سے مستقل ضمانت دیئے جانے کے بعد‘ لوگوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے ۔۔۔سوال کے جواب میں دوطرح کے لوگ سامنے آئے ہیں‘ایک تووہ جن کا یہ ماننا ہے کہ دولت اورشہرت اگر کسی کے پاس ہے تواس کے ہرطرح کے گناہوں پرپردہ پڑجاتاہے ۔۔۔ عدلیہ کا رویہ بھی اس سے ’ہمدردانہ ‘ ہوتاہے ۔۔۔ اورعدالتیں ملزموں یا مجرموں کی حیثیت دیکھ کرہی فیصلے کرتی ہیں۔
دوسرے وہ لوگ ہیں جنہیں یہ کہنے میں ذرا بھی تامّل نہیں ہے کہ اگر کسی کے پاس دولت ہے اوروہ بڑے وکیلوں کی خدمات حاصل کرنے کی سکت رکھتا ہے تویہ اس کا قانونی حق ہے ‘ اس کا یہ عمل نہ توغیرقانونی ہے نہ ہی غیراخلاقی ۔۔۔
بہرحال انصاف کے دوہرے پیمانے پر بحث کا نتیجہ چاہے جونکلے اس سچائی کو نظراندازنہیں کیاجاسکتا کہ ممبئی ہائی کورٹ کے ‘سلمان خان کی پانچ سال کی قید بامشقت کی سزا کو معطل کئے جانے والے فیصلے نے عام ہندوستانیوں کوایک بار پھرسے مایوس کیاہے ۔ جب سیشن کورٹ نے سلمان خان کوپانچ سال کی قید بامشقت کی سزا سنائی تھی تب عام لوگوں کو یہ احساس ہوا تھا کہ ’قانون کی نظر میں سب برابرہیں‘ کیا امیرکیا غریب ‘ کیا مشہور اورکیاغیر مشہور‘۔۔۔لیکن سیشن کورٹ کے فیصلے کے فوراًہی بعد‘ہائی کورٹ سے دودِن کی ضمانت اورپھرجمعہ کے روز‘ سیشن کورٹ کی سزاکی معطلی اور سلمان خان کو تقریباً مستقل مِلنے والی ضمانت نے اس بھرم کوتوڑدیا ہے کہ ہندوستان میں عدلیہ غیرجانبدار اورکسی بھی طرح کے بیرونی دباؤ سے محفوظ ہے ۔ یہ بھرم بھی ٹوٹا ہے کہ انصاف کے پیمانے سب کے لیے یکساں ہیں۔ جس طرح ہائی کورٹ نے سلمان خان کی سزا کومعطل کرنے اورضمانت دینے کا فیصلہ ‘ فوری طورپر کیا اس نے ملک کی ایک بڑی آبادی کوحیرت میں ڈال دیاہے ۔
سلمان خان کوہائی کورٹ سے مِلنے والی راحت نے کئی سوال کھڑے کردیئے ہیں۔
ایک بڑا سوال یہ کہ کیا واقعی 28ستمبر 2002کی اس شب جب ان کی سفید رنگ کی مہنگی لنیڈکروزرکارباندرہ کے علاقے میں امریکن ایکسپریس بیکری کی فٹ پاتھ پر چڑھ گئی تھی اوروہاں سوئے ہوئے کئی انسانوں کو روندتے ہوئے گذرگئی تھی ‘ جس کے نتیجے میں ایک شخص کی جان گئی اورکئی زخمی ہوئے تھے ‘ سلمان خان کارکی ڈرائیونگ نہیں کررہے تھے ؟ کیا واقعی اس شب جب حادثہ پیش آیاتھا سلمان خان شراب کے نشے میں چورنہیں تھے ؟ کیا واقعی سیشن کورٹ میں سلمان خان کے خلاف جوثبوت پیش کئے گئے اورجن گواہوں کی پیشی ہوئی وہ سب کے سب ’ناکافی ‘ یا ’ناقص ‘ تھے اوروہ گواہ بھی جوخود مذکورہ شب حادثے کا شکار ہوئے تھے یا جن کے اعزاء حادثے میں ہلاک اورزخمی ہوئے تھے‘ سچ نہیں بول رہے تھے ؟کیا سلمان خان کا پولس باڈی گارڈ رویندر پاٹل (جواب اس دنیا میں نہیں ہے ) جس نے سارے معاملے کی اطلاع پولس کودی تھی اورکہا تھاکہ کارکی ڈرائیونگ خودسلمان خان کررہے تھے ‘جھوٹا تھا ؟ ان سوالوں کے جواب بڑے اہم ہوں گے کیونکہ ممبئی ہائی کورٹ سے سلمان خان کو ملنے والی ضمانت اورضمانت سے بھی کہیں زیادہ اہم ‘پانچ سال قید بامشقت کی سزاکی معطلی کے فیصلے کا بنیادی سبب یہی ہے کہ سلمان خان کے دفاع میں مذکورہ سوالوں کے جواب میں یہی کہا گیاکہ سلمان خان بے قصور ہیں اور تمام گواہیاں ناکافی۔ سلمان خان کے وکلاء ہریش سالوے اور امیت دیسائی نے ممبئی ہائی کورٹ میں جودلیلیں دیں ان کا لب لباب یہی تھاکہ :’’ سیشن کورٹ کے جج نے حقائق کو نظراندازکیا ہے‘پولس نے جوشواہد پیش کئے ہیں وہ ناکافی ہیں‘ مقدمے میں بہت سے اہم نکات پر غورنہیں کیاگیا ‘ صرف اس بنا پر کہ جائے حادثہ پر سلمان خان موجود تھے ‘ جرم نہیں ثابت ہوجاتا ‘ کئی اہم گواہوں ‘جیسے کہ کمال خان اورڈرائیور اشوک چوہان کے بیانات نہیں لیے گئے اورجِن گواہوں کے بیانات لیے ان کے بھی بیانات میں تضادات ہیں لہٰذا یہ کہنا کہ سلمان خان مجرم ہیں درست نہیں ہے ‘‘۔ ممبئی ہائی کورٹ نے نہ صرف یہ کہ دفاعی وکلاء کی دلیلیں قبول کیں بلکہ سیشن کورٹ کی سزا کوہی معطل کرکے سلمان خان کوضمانت دے دی۔ اب سلمان خان آزاد ہیں‘وہ فلموں کی شوٹنگ کرسکتے ہیں‘پارٹیوں میں جاسکتے ہیں۔۔۔ چونکہ اس ملک میں شراب کے پینے پر کوئی روک نہیں ہے لہٰذا شراب بھی پی سکتے ہیں اورڈرائیورنگ بھی کرسکتے ہیں !
ہائی کورٹ کے ذریعے سلمان خان کی سزا کی معطلی کے فیصلے پر فلمی دنیا خوش ہے ۔ اسے خوش ہونا بھی چاہئے کیونکہ اگر سلمان خان کوپانچ سال کی قیدبامشقت ہوجاتی تو فلمی دنیاکوکئی سوکروڑ روپئے کا خسارہ ہوجاتا۔۔۔ ایک معمولی اندازے کے مطابق اگرسلمان خان جیل چلے جاتے تو فوری طورپرفلمی دنیا کے پانچ سوکروڑروپئے ڈوب جاتے ۔ ان دنوں سلمان خان کی دوفلمیں ’بجرنگی بھائی جان ‘اور’پریم رتن دھن پائیو‘تکمیل کے مراحل پرہیں‘ دوفلموں پرکام شروع ہونے والا ہے اوردوفلموں کے کنٹریکٹ سائن ہونے ہیں۔۔۔ ان فلموں کی مجموعی سرمایہ کاری 750کروڑ روپئے بتائی جارہی ہے ۔ سلمان خان 12کمپنیوں کے اشتہارات میں بھی آتے ہیں جن کی مالیت 200سو کروڑ روپئے سے کم نہیں ہے ۔۔۔ فلمی دنیا کے بڑے بڑوں کا یہ کہنا تھاکہ اگرسلمان خان کوجیل ہوئی تواربوں روپئے ڈوب جائیں گے ۔۔۔ فلمی دنیا میں ایک ہلچل تھی ‘ساری فلم انڈسٹری ایک آوازہوکر سلمان خان کی حمایت میں سڑکوں پراتر آئی تھی ‘ فیس بک ‘ٹوئٹر اورسوشل میڈیاکا سلمان خان کی حمایت کے لیے خوب استعمال کیاگیا۔ بڑے بڑے وکلاء سے رابطے قائم کئے گئے ۔۔۔ سیاست دانوں کے دروازے بھی کھٹکھٹائے گئے اور ایڑی چوٹی کا زورلگادیاگیاکہ سلمان خان کا جیل کی کال کوٹھری میں ایک قدم بھی نہ پڑے کیونکہ ایک قدم پڑنے کا مطلب بھی فوری طورپر 250 کروڑ روپئے سے لے کر 5سوکروڑ روپئے تک کا نقصان تھا ۔۔۔ ستم ظریفی ملاحظہ کریں کہ سلمان خان کے لیے فلمی دنیا کی حمایت اس لیے نہیں تھی کہ انہیں سلمان خان سے بہت پیار ہے یا سلمان خان فلمی دنیا کے بہت چہیتے ہیں بلکہ یہ حمایت خالص’کاروباری ‘ نوعیت کی تھی ۔ سلمان خان کی قید فلمی دنیا کے لیے نقصان دہ تھی اسی لیے فلمی دنیانہیں چاہتی تھی کہ سلمان خان سلاخوں کے پیچھے جائیں ۔ بس ‘ اس سے زیادہ انہیں سلمان خان سے کچھ لینا دینا نہیں تھا ۔۔۔ سنجے دت کی مثال سامنے ہے جوآج کئی مہینوں سے قیدی کی زندگی گذار رہے ہیں لیکن فلمی دنیا ہے کہ اب ان کی طرف مڑکر بھی نہیں دیکھ رہی ہے ۔۔۔ سنجے دت نے اپنی فلمیں مکمل کرلی ہیں اس لیے اب ان سے کوئی ’کاروباری ‘رشتہ نہیں رہ گیا لہٰذا‘فلمی دنیا انہیں فراموش کربیٹھی ہے ۔
یہ فلمی دنیا کی ’بے حسی ‘ کی ایک بے حد شرمناک تصویر ہے ۔۔۔
فلمی گلوکارابھیجیت کے ذریعے فٹ پاتھ پر سونے والوں کو ’ کتّا‘ قراردینے سے لے کرسنجے خان کی بیٹی فرح خان کے ذریعے یہ مشورہ دیئے جانے تک کہ فٹ پاتھ پر رہنے والوں کے لیے اندرونی گلیاں مختص کی جائیں تاکہ فٹ پاتھ پر گاڑی چڑھنے سے کوئی نہ مرے ‘ وہ کلمات ہیں جو فلمی دنیا کی ’بے حسی ‘ کواجاگر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ انہیںیہ فکرنہیں کہ کوئی ایسی ترکیب کی جائے کہ کوئی نشے میں گاڑی نہ چلائے اوراگر چلائے توفٹ پاتھ پر اس کی گاڑی نہ چڑھ جائے ‘انہیں یہ پریشانی ہے کہ غریب فٹپاتھ پر کیوں سوتے ہیں! ۔۔۔ مرے پرسودرّے کے مصداق وہ آتش بازی اورپٹاخے بازی تھی جو سلمان خان کی سزا کی معطلی کے فیصلے کے بعدکی گئی ۔۔۔ یہ وہ بے حسی ہے جِس میں مبتلا افراد نے ان غریبوں کی طرف دھیان تک نہیں دیا جوسلمان خان کی کارکی زدمیں آکرہلاک اورمعذورہوئے ہیں۔
محمد عبداللہ شیخ معذورین ہی میں سے ایک ہیں۔ اس شب یہ بھی سلمان خان کی کارسے زخمی ہوئے تھے۔ کاران کے پیرپر جاچڑھی تھی جوٹوٹ گیاتھا ۔ 2007میں انہیں عدالت کے حکم پر دوسرے زخمیوں ہی کی طرح تین لاکھ روپئے بطور ہرجانہ دیاگیاہے ‘ جس میں سے ایک لاکھ 20ہزار روپئے قانونی مدمیں کاٹ لیے گئے ‘ کچھ رقم قرضے چکانے میں صرف کردی۔ زخمی ہوکر وہ اترپردیش کے اپنے گاؤں چلے گئے تھے ۔2003میں واپس آئے تو بیکری جس میں وہ کام کررہے تھے ‘انہیں کام پر رکھنے کوتیارنہیں ہوئی لہٰذا انہیں نئے سرے سے دوسری بیکری میں کام کرناپڑا ۔۔۔ محمد عبداللہ شیخ کا کہنا ہے کہ زخموں کے اثرات ایسے پڑے ہیں کہ اب ہرکام کرنے میں بڑی ہی مشقت کرنی پڑتی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’سلمان خان کوسزا ملے نہ ملے میری زندگی پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا ‘ ابتدا ء میں میں سلمان کوبددعائیں دیتا تھا لیکن اب میں نے صبرکرلیاہے ‘وہ ایک بڑے بااثر انسان ہیں‘ہم ان کا کیا بگاڑسکتے ہیں !ہم نے یہ سُنا ہے کہ وہ لوگوں کی بڑی مدد کرتے ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہم زخمیوں کی انہوں نے کوئی بھی مدد نہیں کی ہے ‘‘۔
محمد نذیر بھی اس روزاسی فٹ پاتھ پر سورہا تھا جس پرسلمان کی کارچڑھی تھی ۔ محمد نذیر کا بھائی منوّحادثے میں شدید زخمی ہوا تھا۔ آج سلمان خان سے اسے شدید نفرت ہے ۔ محمد نذیر کے مطابق :’’ ہم زخمیوں کے پاس کھڑے دھاڑیں مارکررورہے تھے ‘کئی ہنوزکارکے تلے دبے تھے ‘ سلمان ڈرائیونگ سیٹ سے اترے ‘وہ شراب کے نشے میں دھت تھے ‘ وہ واپس کار میں جابیٹھے اورپھرکار اسٹارٹ کرنے لگے ‘ جب کارنہیں چلی تو وہ پھر کارسے باہرنکلے ‘ ہم نے انہیں پکڑلیا ‘ وہ منت سماجت کرنے لگے کہ پہلے زخمیوں کونکالو اور جب تک ہم زخمیوں کوباہرنکالتے سلمان خان وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے ‘‘۔
مسلم شیخ کے والد نعمت شخ ایک الگ ہی داستان سناتے ہیں ۔ کار نے مسلم شیخ کی ٹانگ بیکار کردی ہے ‘ اس میں لوہے کی چھڑپڑی ہے ‘وہ کسی کام کا نہیں رہ گیاہے ۔ نعمت شیخ کا کہنا ہے کہ :’’سلمان خان کے وکیل پانچ لاکھ روپئے لے کرآئے تھے کہ یہ لے لو اورپلٹ جاؤ‘‘۔۔۔ نعمت خان نے نہ پیسے لئے نہ پلٹے کیونکہ وہ انصاف چاہتے تھے اور آج بھی انصاف چاہتے ہیں۔
نوراللہ شریف بیکری کا وہ ملازم تھا جوحادثے میں ہلاک ہوا تھا۔ آج اس کی بیوہ فریدہ بیگم اپنے بیٹے فیروز کے ساتھ ممبئی کے مالونی کے علاقے میں رہتی ہے ۔ فیروزشادی شدہ ہے لیکن کوئی مستقل روزگار نہیں ہے ‘جہاں کام ملتا ہے کرلیتا ہے ۔۔۔ ہرجانے کے طورپر اس خاندان کو دس لاکھ روپئے دینے کا عدالت نے حکم دیاتھا لیکن اس کے لیے اس خاندان کو مرحوم نوراللہ سے اپنا رشتہ ثابت کرنے کے لیے ناکوں چنے چبانے پڑے ۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جوسلمان خان اور کارحادثے کی ’حقیقت‘ کوپوری طرح سے اُجاگرکرتے ہیں‘وہ حقیقت جو آج ہائی کورٹ میں ’مشتبہ ‘بنادی گئی ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جوفلمی دنیا کی ’بے حسی ‘ کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ ان کاکوئی پرسانِ حال نہیں ہے ۔ رہے سلمان خان تو دولت اورشہرت کی دیوی ان کے قدم چوم رہی ہے ۔۔۔ وزیراعظم نریندرمودی سے لے کر مودی کے دستِ راست ظفر سریش والا تک‘ایک زمانہ ان کاساتھی ہے ۔ لوگ یہ جانتے ہیں کہ ’انہوں نے مودی کوگجرات 2002کے قتل عام ‘ سے ’بری ‘ قرار دیاہے ‘ ان کے ساتھ پتنگ بازی کی ہے ‘اس لئے کوئی یہ نہیں چاہتا کہ سلمان خان سے دشمنی مول لے ۔لیکن ایک اورسچ ہے ‘ یہ کہ طاقت‘ دولت اورشہرت عارضی ہوتی ہیں اور جب مظلومین اوپروالے سے انصاف طلب کرتے ہیں تووہ ان کی سب سے پہلے سُنتا ہے ۔ سلمان خان بچ توگئے ہیں مگران کوچاہئے کہ وہ اوپروالے سے ڈریں‘ اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنی غلطی کوتسلیم کریں‘ پچھتاوے کا اظہارکریں اورمہلوک اورمجروحین ومعذورین کی دل کھول کر مدد کریں۔۔۔۔ ان کا یہ عمل واقعی میں ’نیک عمل‘ کہلائے گا اوراس سے رئیسوں کے بیٹوں کوایک سبق بھی ملے گا کہ ’گناہ کرکے اس پرپردہ ڈالنا سب سے بڑا گناہ ہے ‘۔۔۔ اس طرح ممکن ہے کہ رئیسوں کے بگڑے بیٹے راہِ راست پرآجائیں اورپھروہ فٹ پاتھ پر کسی سونے والے پراپنی کارنہ چڑھائیں۔ (بصیرت فیچرس)
بانئ دارالعلوم مولانا محمد قاسم نانوتوی کے آفاقی افکار کی ترویج حجۃ الاسلام اکیڈمی کا اولین مقصد : مولانامحمد شکیب قاسمی
کل ہند مسابقہ الامام محمد قاسم نانوتوی کے نتائج کا اعلان، شرکاء مسابقہ کو گراں قدر نقد انعامات
دیوبند ، ۹؍مئی-عالمی شہرت یافتہ دینی درسگاہ دارالعلوم وقف دیوبند کے شعبۂ تحقیق حجۃ الاسلام اکیڈمی کے زیر اہتمام مسابقہ الامام محمد قاسم نانوتویؒ کے دوسرے دور بابت 2015ء کے نتائج کا آج اعلان کردیا گیا۔ نسل نو کو فکر قاسمی سے قریب کرنے کے لئے اور بڑے پیمانے پر حضرت نانوتوی کے افکار و نظریات کی ترویج و اشاعت کے لئے یہ مسابقہ حجۃ الاسلام اکیڈمی ہر سال منعقد کرتی ہے۔ دراصل یہ ایک صحافتی مقابلہ ہوتا ہے جس میں صرف عربی زبان میں ہی مقالات قبول کئے جاتے ہیں۔سالِ گذشتہ اس مسابقہ میں شرکت کرنے والے ممتاز مقالہ نگاروں کو گراں قدر نقد انعامات اور اعزازی اسناد سے سرفراز کیا گیا تھا جب کہ تین ممتاز مقالہ نگاروں کے مقالہ جات کو کتابی شکل میں بھی اکیڈمی منظر عام پر لاچکی ہے۔سالِ رواں جن تین موضوعات پر مقالات طلب کئے گئے تھے وہ یہ ہیں: (۱)حضرت نانوتوی اور آزادئ ہند میں ان کا کردار (۲)حضرت نانوتوی بحیثیت بانی دارالعلوم دیوبند (۳)حضرت نانوتوی اور علم حدیث میں ان کی خدمات۔دیوبند، لکھنؤ، دہلی، سہارنپور، علی گڑھ، حیدر آباد اور دیگر بڑے شہروں کی یونیورسٹیوں اور جامعات سے مذکورہ موضوعات پر بڑی تعداد میں عربی زبان میں مقالے موصول ہوئے۔حجۃ الاسلام اکیڈمی کے ڈائریکٹر جناب مولانا محمد شکیب قاسمی نے مسابقہ الامام کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ مسابقہ میں اول پوزیشن سے کامیاب محمد شاہد سیتاپور کو مبلغ 20 ہزار روپئے نقد اور سند اعزاز، دوم پوزیشن سے کامیاب ارشد پرویز پورنیہ کو مبلغ 15ہزار روپئے نقد مع سند اعزاز، سوم پوزیشن سے کامیاب ریحان غزالی بستی کو مبلغ 10ہزار روپئے نقد مع سند اعزاز اور چوتھی پوزیشن حاصل کرنے والے ثاقب قمر مدھوبنی کو مبلغ 5ہزار روپئے نقد مع سند اعزاز سے نوازا جائے گا۔ جب کہ عمدہ نمبرات سے کامیاب دیگر چھ مساہمین (۱)محمد سجاد مہاراشٹر (۲)عاصم کمال اعظم گڈھ (۳)ظفر الحسن ارریہ (۴)زبیر حسین حیدرآباد (۵)محمد رضوان مظفر نگر (۶)شرف عالم دربھنگہ میں سے ہر ایک کو تشجیعی طور پر ایک ہزار روپئے نقد انعام اور سند شکر و تقدیر نیز بقیہ تمام مساہمین کو صرف سند شکر وتقدیر سے نوازا جائے گا۔مولانا محمد شکیب قاسمی نے مزید تفصیلات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ مذکورہ مقالہ نگار حضرات فوری طور پر انعامات حاصل کرنے کے لیے حجۃ الاسلام اکیڈمی سے رابطہ کر سکتے ہیں البتہ پوزیشن حاصل کرنے والے چاروں ممتاز مقالہ نگاروں کو آئندہ سال منعقد ہونے والے اجلاس عام میں ہی ملک کی مقتدر شخصیات کے ہاتھوں سند اعزاز دی جائے گی، نیز اکیڈمی سے شائع ہونے والا مجلہ محکمہ ’’وحدۃ الامہ‘‘ انہیں دو سال تک اعزازی طور پر جاری کیا جائے گا۔ ساتھ ہی اجلاس کی حتمی تاریخ کا تعین ہونے کے بعد تحریری دعوت نامہ انہیں ارسال کر دیا جائے گا۔اخیر میں انہوں نے اکیڈمی کے عزائم پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ فکر نانوتوی کی ترویج و اشاعت کی غرض سے ممکنہ تدابیر پر عمل درآمد کے لئے اکیڈمی مسلسل سرگرم عمل ہے۔
گجرات: مسلم اکثریتی علاقے میں پارکنگ پرکشیدگی ، مندرکے پجاری نے چلائی گولی،
سابق کونسلر کی موت، حالات کشیدہ پولس کا سخت حفاظتی بندوبست
وڑودرا، ۹؍مئی:(بصیرت نیوز سروس) گجرات کے کھیڑا ضلع کینڈیاڈ میں مسلم اکثریتی علاقے میں واقع ایک مندر کے پجاری کی طرف سے گولی مارنے کے بعد ہسپتال میں علاج کے دوران ایک سابق کونسلر کی موت ہو جانے سے فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی ہے۔ پجاری پر الزام ہے کہ جمعہ کو دیر رات بھیڑ کی طرف سے پتھراؤ اور مبینہ حملے کئے جانے کے بعد اس نے گولی چلا دی جس سے ساجد ووہرا نام کے شخص کی آ ج موت ہو گئی۔ ووہرانڈیاڈ کے مرید علاقے کے سابق کونسلر تھے۔ملزم پجاری جس کا نام اشوک بھوریا بتایا جاتا ہے۔ ان کے پاس لائسنس والی بندوق تھی۔ اپنے خاندان سمیت اسی مندر میں رہتاہے۔واقعہ جمعہ دیر رات 2بجے ہوا۔ معاملے میں دونوں طرف سے ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔مہلوک ساجد کے بھائی محمد عمران کی طرف ہے جو ایف آئی آر درج کی گئی ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ ووہرا کی اشوک بھوریا پجاری کے ساتھ پارکنگ کولے کر جھڑپ ہو گئی جس کے بعد ملزم نے بندوق سے حملہ کر دیا۔وہیں پجاری کے بیٹے گریش گری کی طرف سے دائر کی گئی دوسری ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ رات دو بجے کے قریب 50لوگ مندر کے باہر جمع ہو گئے انہوں نے مندر پر پتھروں سے حملہ کیا،اس لئے پجاری نے فائرنگ کر دی۔پجاری کی بندوق سے نکلی گولی ووہرا کے سینے میں لگی،انہیں زخمی حالت میں آنند کے ایک ہسپتال لے جایا گیا۔ہفتہ کو اسپتال میں علاج کے دوران انہوں نے دم توڑ دیا۔اطلاعات کے مطابق مقامی دلت فرقہ کے سرپرست سادھو دلرام بابا کے مندر کے پروہت اشوک بھدوریا نے اپنی لائسنس والی 12بورگن سے سابق کونسلر ساجد وہرا پر گولی چلائی تھی۔ الزام ہے کہ ساجد وہرا اس ہجوم کی قیادت کررہے تھے جس نے مندر پر پتھراؤ کی کوشش کی۔ ان کے ایف آئی آر میں کہاگیا ہے کہ تیز دھار ہتھیاروں سے مسلح ہجوم نے دلرام بابا کے آشرم پر حملہ کیا اور وہ وہاں توڑ پھوڑ کرناچاہتے تھے ۔ ہجوم میں شامل لوگ پتھراؤ کرتے ہوئے آشرم کی طرف بڑھے۔ کھیڑا کے ایس پی مسٹر سچن بادشاہ نے بتایاکہ اسپتال میں وہرا فوت ہوئے اور جب ان کی لاش وہاں سے ان کے گھر لائی گئی تو اس وقت علاقے میں نظم ونسق برقرار کھنے کے لیے پولس تعینات کی گئی۔ اب تک کسی کو گرفتار نہیں کیاگیا ہے۔ بادشاہ نے بتایاکہ پرانے معاملہ پر دو فرقوں کے افراد لڑ پڑے۔ جھگڑے کے دوران لگ بھگ پچاس افراد نے اس مندر پر پتھراؤ شروع کیا جہاں وہ رہتا تھا اس پر اپنے دفاع کے لیے بھوریا نے اپنی لائسنس والی بندوق سے گولی چلائی۔ بادشاہ نے واضح کیا کہ مسلم اکثریتی علاقہ میں یہ واقعہ پیش آیا ۔ موٹرسائیکل پر لوگوں میں جھگڑا ہوگیا۔ مندر پر حملہ کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، اس سلسلہ میں آدمی کے بارے میں اب تک صحیح تفصیل نہیں ملی ہے۔ تاہم مسلم اکثریتی علاقہ میں وہاں کے لوگ ماضی میں پروہت اور اس کے اہل وعیال سے ملے ہیں جو مندر میں رہتے ہیں، انہوں نے بتایاکہ ذاتی دفعات کے لیے گولی چلائی گئی۔ کھیڑا کے ایس پی سچن بادشاہ نے کہاکہ ہسپتال سے ووہرا کی لاش ان کے گھر لاتے وقت لاء اینڈ ا رڈر کو ذہن میں رکھتے ہوئے پولیس کی تعیناتی کی گئی تھی،اس معاملے میں ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔انہوں نے کہاکہ چونکہ ایف ا ئی ا ر دونوں طرف سے درج کی گئی ہے اور معاملہ قتل کا ہے اس لیے اس کی چھان بین انتہائی سنجیدگی سے کرنا ہوگی۔ پولیس افسرنے بتایا کہ دو فرقوں کے درمیان کسی پرانے مسئلے کو لے کر جھگڑا ہو گیاتھا ۔انہوں نے مزید کہا کہ حالات کشیدہ مگر قابو میں ہیں، اس لئے پولس فورس کے ساتھ ایس آر پی بھی تعینات کردی گئی ہے۔
جواب دیں