خبر ہونے تک …..

حالانکہ آج تک پولس علمائے کرام کے خلاف کوئی ثبوت عدالت میں پیش نہیں کرسکی ہے لیکن انہیں آج تک عدالت سے ضمانت نہیں مل سکی ہے، نتیجے میں ان کے اہل خانہ بال بال قرضے میں ڈوب چکے ہیں اور ان کی معاشی حالت انتہائی ابتر ہوگئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ گلبرگہ کے مسلم ایم ایل اے قمرالاسلام جو کرناٹک کی کانگریس سرکار کے کابینی وزیر ہیں انہوں نے بھی بالکل ایک ’مسلم کانگریسی‘ کی طرح مظلومین کی طرف سے آنکھیں پھیرلی ہیں۔ 
سارا معاملہ اس وقت منظر عام پر آیا جب جمعےۃ علماء مہاراشٹر کے حافظ ندیم صدیقی اور ان کے وکلاء کی ایک ٹیم دہشت گردی کے چند مقدمات کے سلسلہ میں گلبرگہ پہنچی اور انہیں جیل کے اندر سے مذکورہ معاملہ کے ملزمین میں سے ایک عالم دین کا خط ملا جس میں انہوں نے پولس ٹارچر، جھوٹے الزامات اور حراستی موت کا انکشاف کیا تھا۔ اس سلسلے میں کل جمعرات کوجمعےۃ علماء مہاراشٹر کی جانب سے ایڈوکیٹ تہور خان پٹھان نے گلبرگہ ہائی کورٹ میں گرفتار علمائے دین میں سے ایک مولانا شمشاد عالم کی ضمانت پر رہائی کی درخواست دائر کی ہے۔ اس نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے ایڈوکیٹ پٹھان نے سارے معاملے کی تفصیلات یوں بتائیں کہ’ معاملہ سیدھا سادا حراستی موت ، غیر قانونی حراست اور حراست میں ٹارچر کا ہے‘۔ انہوں نے بتایا کہ ’مولانا شمشاد عالم رہنے والے تو یوپی کے ہیں مگر برسہا برس سے گلبرگہ کے ایک دور دراز کے قصبے میں فرحت آباد میں بسے ہوئے ہیں اورمسجد کی امامت وخطابت اور مذہبی فرائض کی ادائیگی کے علاوہ مسلم بچے بچیوں کے لیے کمپیوٹر کلاس چلاتے اور سرکاری اسکیموں کے تئیں لوگوں میں بیداری پھیلاتے ہیں،ان کی ہی اٹھارہ مہینے کی بچی کے قتل کامعاملہ ہے، بچی 22مئی 2014کو لاپتہ ہوگئی تھی، مولانا نے پولس میں اس کی رپورٹ درج کرائی، 26مئی کو بچی کی سر، ہاتھ اور پیر کٹی لاش مولانا ہی کے گھر کے پچھواڑے سے برآمد ہوئی، مولانا نے اس کی رپورٹ بھی درج کرائی لیکن بجائے چھان بین کے پولس نے مولانا ہی کو اپنی بیٹی کے قتل کا ملزم بناکر گرفتار کرلیا، گرفتاری 3جون کو عمل میں آئی، ساتھ میں چار علمائے کرام مزید گرفتار ہوئے جن کے نام مولانا عبدالغفار، مولانا سہیل احمد، مولانا عبدالرزاق اور مولانا حافظ اسد تھے۔ پولس نے کسی کی گرفتاری بھی ’آن دی ریکارڈ‘ نہیں بتائی لہذا یہ تمام گرفتاریاں غیرقانونی تھیں، اسی طرح پولس مشائخ نامی ایک مزدور کو 3اور 4جون کی درمیانی شب اس کے گھر سے اٹھالے گئی، یہ بھی غیر قانونی حراست تھی، مشائخ کی بیوی شہناز بیگم کئی دن ایک سے دوسرے پولس تھانوں میں چکر لگاتی رہی، 7جون کی صبح فرحت آباد پنچایت سمیتی کے ایک رکن سیتا رام نے اسے مشائخ کے شدید طو رپر زخمی ہونے کی اطلاع دی جبکہ حقیقت یہ تھی کہ حراست میں شدید ٹارچر سے اس کی موت ہوچکی تھی‘‘۔ 
ایڈوکیٹ پٹھان نے بتایاکہ ’’مشائخ پر یہ الزام تھا کہ ننھی سعدیہ آیت کے قتل کے بعد اسی نے لاش اٹھائی تھی، اس سے یہی اعتراف کرانے کے لیے پولس نے اس پر زبردست ٹار چر کیاتھا جس کی تاب وہ نہیں لاسکا‘‘۔ انہوں نے مزید بتایاکہ ’’تمام علمائے کرام پر اور مٹھولال نامی ایک مزدور پر خزانے کی تلاش میں بچی کو بلی چڑھانے کا الزام عائد کیا گیا ہے جبکہ علاقے بھر کے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ پولس اور علاقے کے فرقہ پرست مولانا شمشاد عالم کی مسلمانوں میں بیداری اور تبلیغی دعوت کی کوششوں سے سخت ناراض تھے اسی لیے انہیں اور ان کے ساتھی علمائے کرام کو پھنسایا گیا، علاقے بھر میں ان دو افراد کی طرف جو غیر مسلم ہیں انگلی اٹھائی جارہی ہے جو خزانے کے لیے بلی چڑھانے کے لیے بدنام ہیں، کہاجاتا ہے کہ مولانا شمشاد عالم کی بچی کا قتل انہوں نے ہی کیا اور اب پولس انہیں بچار ہی ہے اور فرقہ پرستوں کے اشارے پر علمائے کرام کو پھنسا رہی ہے‘‘۔ ایڈوکیٹ پٹھان کے مطابق ’’تین باتیں بے حد واضح ہیں، ایک تو یہ کہ اگر یہ علمائے کرام قصور وار ہوتے تو پولس میں شکایت درج کرانے کی جلد بازی کرتے دوسرے یہ کہ وہ روزانہ پولس کے پاس جاکر معاملے کی تفتیش کے لیے دباؤ نہ ڈالتے اور تیسرے یہ کہ لاش گھر کے پچھواڑے نہ پھینکتے کہیں دور پھینکتے تاکہ لاش جلدی نہ مل سکے‘‘۔ معاملہ کے مختلف پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے ایڈوکیٹ موصوف نے بتایاکہ ’’اب صورتحال یہ ہے کہ مولانا ندیم صدیقی کی ہدایت پر میں اور میرے ساتھی وکلاء ، وسیم، منوج وغیرہ نے مقدمہ ہاتھ میں لیا ہے، ملزمین کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ پولس والے انہیں زبان بند رکھنے کے لیے لالچ بھی دے رہے ہیں اور دھمکا بھی رہے ہیں، یہ سب غریب ہیں، ان کے بال بچے ہیں، مولانا عبدالرزاق کی دس اولاد ہیں، مرحوم مشائخ کے پانچ بچے ہیں، پولس نے اہل خانہ سے سادہ کاغذات پر دستخط کرائے، پھر کنڑی زبان میں یہ تحریر کیا کہ ملزمین کی بیویوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ان کے شوہروں نے بچی کے قتل میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے، ملزمین سے ٹارچر کے ذریعے اعتراف کرایا، اسی کی بنیاد پر انہیں ضمانت نہیں دی گئی حالانکہ حراستی اعتراف عدالت میں قابل قبول نہیں ہوتا، اسی طرح بیویاں یہ کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے جیسا پولس کہہ رہی ہے ویسا کوئی بیان دیا ہی نہیں ، اعلیٰ سے اعلیٰ پولس افسر اس میں ملوث ہیں، سب پر ٹارچر کا الزام ہے، یہ الزام ہے کہ مشائخ کی لاش پر ٹھوکریں ماری گئیں۔ گلبرگہ میں مسلم اکثریت ہے لیکن نہ کوئی مسلم لیڈر نہ مسلم تنظیمیں اور جماعتیں اور نہ ہی قومی انسانی حقوق کمیشن اور حقوق انسانی کی تنظمیں کوئی ان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا، ابتداء میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے رنج وغم کا اظہار کیا، مظاہرہ کیا لیکن اب خاموشی ہے، یہ انتہائی افسوس ناک اور شرمناک خاموشی ہے ، ہم نے ضمانت کی عرضی دی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ عدلیہ، قومی انسانی حقوق کمیشن، کرناٹک کی کانگریس سرکار او رحقوق انسانی کی تنظمیں اور عوام کوئی خاموش نہ رہے، سب اس معاملے میں انصاف کے لیے آواز اٹھائیں‘‘۔ 


کتھنی اور کرنی میں فرق ! 

 عالم نقوی

وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکی ویکلی جریدے "ٹائم "کو انٹر ویو دیتے ہوئے جمعرات 7 مئی 2015کو جو کچھ کہا وہ کم و بیش وہی تھا جو مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ 21 اپریل 2015کو لوک سبھا میں کہہ چکے ہیں۔ لیکن بات دستور میں درج حقوق انسانی اور وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے اچھے اچھے اور میٹھے میٹھے بیانات کی نہیں ،اْن حالات کی ہے جو ملک میں اقلیتوں اور کمزوروں کو درپیش ہیں اور اْن کرتوتوں کی ہے جو اْن کے "پریوار "کے لوگ پچھلے ایک سال سے با لخصوص انجام دے رہے ہیں اور اْس عدمِ کارروائی کی ہے جس کا مظاہرہ مودی سرکار پچھلے ایک برس سے کرتی آ رہی ہے۔ 
مودی جی اْس امریکی رپورٹ سے پریشان ہیں جو 30 اپریل 2015کو جاری ہوئی تھی اور جس میں مذہبی آزادی پر حملوں کے لیے مودی سرکار پر تنقید تھی۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 2005 میں اسی لیے مودی کو امریکی ویزا نہیں دیا گیا تھا۔ امریکی کمیشن برائے بین ا لا قوامی مذہبی آزادی کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق مہاراشٹر ،اتر پردیش ، تلنگانہ ، آندھرا پردیش ، گجرات ،بہار ، چھتیس گڑھ ، اڑیسہ ،کرناٹک مدھیہ پردیش اور راجستھان میں مذہبی آزادی پر سب سے زیادہ حملے ہوئے ہیں۔ اور اسکا ذمہداراْس انتخابی پروپیگنڈا مہم کو قرار دیا گیا ہے جو 2014 کے عام انتخابات کے دوران سنگھ پریوار کی جانب سے پورے ملک میں چلائی گئی تھی۔ 
ٹائم میگزین کے سوال کے جواب میں مودی جی نے فرمایا کہ اْن کی حکومت ذات پات ، رنگ و نسل یا مذہب کی بنیاد پر کسی بھی تفریق اور امتیازی سلوک کو برداشت نہیں کرے گی۔ "جب بھی کسی مخصوص مذہبی اقلیت کے خلاف کسی فرد کی رائے سامنے آئی ہے ،ہم نے فوراًاْس کی نفی کی ہے۔ "اقلیتوں کے حقوق کے تئیں ” "تصوراتی خطروں "کی ہماری حکومت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ "اِسی طرح وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے لوک سبھا میں اعلان کیا تھا کہ ملک کا آئین تمام شہریوں کو برابر کے حقوق دیتا ہے اور ذات ،نسل ،مذہب ،علاقے اور جنس کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ 
لیکن زمینی صورت حال یہ ہے کہ پچھلے ایک سال کی مودی حکومت کے دوران سات سو سے زائد فرقہ وارانہ فسادات ہو چکے ہیں۔مودی سرکار عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے ، اور اچھے دن واپس لانے میں پوری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ وہ عام آدمی کے بجائے سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مفادات کے لیے کام کر رہی ہے۔ ملک کے قدرتی اور انسانی وسائل دونوں کارپوریٹ سیکٹر کے ہاتھوں گروی رکھنے کے تمام انتظامات مکمل ہیں تاکہ وہ بے روک ٹوک اْن کا استحصال کر سکیں۔مودی سرکار سب کو ساتھ لے کر سب کا وکاس کر نے کے بجائے عملاً سنگھ پریوار (آر ایس ایس )کے ایجنڈے پر عمل کرنے اور پورے ملک میں اْسے نافذ کرنے کی سمت مضبوطی سے قدم بہ قدم آگے بڑھ رہی ہے۔اقلیتوں کی عبادتگاہوں پر حملے ، فرقہ وارانہ فسادات ، نام نہاد "گھر واپسی ” اور "لو جہاد ” کی شر انگیزی، دستور ہند سے چھیڑ چھاڑ بے روک ٹوک جاری ہے اور مودی۔راجناتھ کہتے ہیں کہ "سب خیریت ہے ” ٹائم کے نمائندے نے اْن سے یہ نہیں پوچھا کہ مرکزی وزیر نرنجن جیوتی ممبران پارلیمنٹ ساکشی مہاراج ،گری راج کشور ،سادھوی پراچی کے خلاف انہوں نے کیا کارروائی کی ؟ 
علی ا لا علان ناتھو رام گوڈسے کا قصیدہ پڑھنے والوں اور اسکا مجسمہ لگانے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ؟ کیا اْن پر دہشت گردی کی دفعات ، مکوکا ،یا یو اے پی اے وغیرہ کے تحت کارروائی ہوئی ؟ اس لیے کہ راشٹر پتا مہاتما گاندھی کے قاتل اور حامی اگر مسلمان ہوتے تو دہشت گرد ہی کہلاتے !سیتا رام یچوری نے با لکل ٹھیک کہا ہے کہ مودی سرکار نے ہندستان کے اتحاد ہی کو خطرے میں ڈال دیا ہے ! یہ بات انہوں نے ٹائمز آف اندیا کے اکشے مکل سے گفتگو کرتے ہوئے کہی تھی۔یہ انٹر ویو 21 اپریل کے ٹائمز میں موجود ہے۔ چونکہ 2017 میں یو پی میں الکشن ہیں اور حالیہ ضمنی انتخابات میں بی جے پی کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی ہے اس لیے سنگھ پریوار کی پوری توجہ اس وقت یو پی اور اس میں بھی سب سے زیادہ مغربی یو پی پر ہے جہاں مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں یا ہو سکتے ہیں۔ مظفر نگر ، میرٹھ ، بریلی ،بدایوں آگرہ اور متھرا کے حالات اس وقت بہت ہی سنگین ہیں۔ سپریم کورٹ کے سابق جج اور مشہور ماہر قانون جسٹس مار کنڈے کاٹجو نے 2 مئی کو اپنے بلاگ پر با لکل ٹھیک لکھا ہے کہ ہندو ووٹوں کے ارتکاز کے لیے فرقہ وارانہ فسادات ہی بی جے پی کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ کار گر ہتھیار ہے اور اس نے اْسی کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مودی جی اور راجناتھ جی کی خدمت میں عرض ہے کہ صرف اچھی اچھی باتیں کرنے اور بات بات پر دستور کی کتاب کھول کر دکھانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ آپ لوگ اگر واقعی ملک کے مستقبل کے تئیں سنجیدہ ہیں تو برائے کرم اب کچھ کر کے بھی دکھائیے !اور یاد رکھیے کہ : ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں۔۔ناوکاغذ کی سدا چلتی نہیں !



جالے ؍دربھنگہ کی خبریں: 

سرکاری موبائیل پر نامعلوم شخص کے ذریعہ دھمکی سے بی ڈی مہیش چندر خوفزدہ 

جالے ؍دربھنگہ، ۸؍مئی: (رفیع ساگر) مقامی بی ڈی او کے سرکاری موبائیل پر نامعلوم شخص کے ذریعہ مبینہ طور پر دی کی دھمکی کے بعد بی ڈی او مہیش چندر کافی دہشت میں ہیں۔تھانہ صدر ہری شنکر مشرا نے بتایا کہ جس موبائیل نمبر سے بی ڈی او کو دھمکی ملی ہے اس کا سی ڈی آر نکالا جا رہا ہے،جلد ہی اس کے کی شناخت کر کے سخت کارروائی کی جائے گی۔بتایا گیا ہے کہ جمعرات کو 9631734912سے نامعلوم شخص نے بی ڈی او کے سرکاری موبائیل نمبر9431818202پر کال کر کے نہ صرف بدکلامی سے کام لیا تھا بلکہ انہیں طرح طرح کی دھمکیاں بھی دے ڈالی تھی۔یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد بی ڈی او نے تھانہ صدر کو کارروائی کے لئے درخواست دی ہے،جس پر کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔


بائیک سوار کی سڑک حادثہ میں دردناک موت

جالے ؍دربھنگہ، ۸؍مئی: (رفیع ساگر) بھرواڑہ ۔کلی گاؤں سڑک میں استھوا کے پاس جمعہ کی سہ پہر ایک تیز رفتار بائیک سوار کی سڑک حادثہ میں دردناک موت ہوگئی۔باوثوق ذرائع کے مطابق بھرواڑہ باشندہ جھڑوکھی ٹھاکر کا15سالہ لڑکا گوتم ٹھاکر استھوا ہائی اسکول کے پاس سے اپنی بائیک سے کافی اسپیڈ میں گزر رہا تھا،وہ بائیک کو ہاتھ چھوڑ کر چلا رہا تھا اسی دوران گوتم بائیک سے توازن کھو بیٹھا اور اس کی بائیک سڑک کنارے 5فٹ گڑھے میں گر کر حادثے کا شکار ہوگئی جس میں موقع پر ہی وہ ہلاک ہو گیا۔گوتم اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا اور بازار میں ہی سونار کے کام میں اپنے والد کا ہاتھ بٹاتا تھا۔اس کی موت کے بعد گھر میں کہرام مچ گیا ہے۔پنچ نامہ تیار کر اس کی آخری رسومات ادا کی گئی۔


ندی میں غرقاب گڈو کی لاش کا28گھنٹے گزر جانے کے باوجود بھی نہیں مل سکی 

جالے ؍دربھنگہ، ۸؍مئی: (رفیع ساگر) حیا گھاٹ تھانہ کے باگمتی ندی کی کریہہ گھاٹ پر غسل کر نے دوران جمعرات کی سہ پہر غرقاب ہوئے20سالہ گڈو کی لاش کا28گھنٹے گزر جانے کے باوجود بھی کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے،حالانکہ اس کی تلاش میں مقامی غوطہ خور لگاتار کوشش کر رہے ہیں۔تھانہ صدر کوشل کمار نے بتایا کہ اب بھی اس کی تلاش کی جا رہی ہے،لیکن ندی کی دھار تیز ہونے کے سبب اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں چل پا رہا ہے۔غور طلب ہے کہ کٹیہار کے رہنے والے محمد ذوالفقار کا لڑکا محمد گڈو یہاں ولاس پور مشرقی پنچایت میں اپنے بہنوئی شاداب کے یہاں آیا ہوا تھا۔جمعرات کو شام4بجے کے قریب وہ غسل کر نے کے لئے کریہہ ندی کے گھاٹ پر آیا تھا جہاں وہ غرقاب ہو گیا۔لاش کی برآمدگی کے لئے انتظامی افسران موقع پر کیمپ کئے ہوئے ہیں۔

«
»

اسامہ بن لادن کی مخبری کس نے کی؟

بڑوں کے نقشِ قدم نشانِ منزل ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے