مثلاً پولیس ایک کشمیری نوجوان کو جامع مسجد دہلی کے علاقے سے اسلحہ وغیرہ کے ساتھ گرفتار کرنے کا دعویٰ کرتی ہے اور میڈیا اْسے خطرناک دہشت گرد قرار دے کر کئی روز تک اس طرح دکھاتا رہتا ہے جیسے واقعی پولیس نے کسی بہت بڑے دہشت گرد کو پکڑاہو لیکن جب عدالت اْس کشمیری نوجوان کو بے داغ بری کر دیتی ہے اور پورے معاملے کو پولیس کی من گھڑت کہانی قرار دیتی ہے تو اْسی میڈیا کو سانپ سونگھ جاتاہے اور وہ اْس خبر کو نیچے کی باریک پٹی میں چلاکر گنگا نہا لیتا ہے۔ اسی طرح دہلی کے ایک 16 سالہ نوجوان عامر کو پولیس پرانی دہلی سے پکڑ کر اْسے بہت بڑے دہشت گرد کے روپ میں عدالت میں پیش کرتی ہے۔ ہماری از حد غیر منصفانہ اور سنگین روایات کے مطابق مقدمہ 16 سال تک کھنچتا رہتا ہے اور جب عدالت اس 32سالہ جوان کو جسکی پوری جوانی پولیس ظلم کی بدولت جیل میں گزر گئی 16 سال بعد با عزت بری کر دیتا ہے تو صبح شام دہشت گردی کی مالا جپنے والا میڈیا پھر کمبھ کرن بن جاتا ہے اور اِ س اہم خبر کو اِ س لائق بھی نہیں سمجھتا کہ اْسے نیچے پٹی ہی میں چلا دے ! جبکہ یہی میڈیا متعدد دہشت گردانہ بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار سادھوی پرگیہ ٹھاکر سنگھ اور کرنل پروہت کو نہ صرف یہ کہ کبھی بھول کے بھی دہشت گرد نہیں کہتا بلکہ اْ ن دہشت گردوں کے نام ہمیشہ احترام سے لیتا ہے۔آج میڈیا بیشتر ایسی خبریں گھنٹوں دکھاتا رہتا ہے جن سے معاشرے کا کوئی بھلا نہیں ہونے والا۔ راہل دیو نے ان باتوں سے پوری طرح اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ میڈیا کبھی جلد بازی سے کام لیتا ہے تو غلطی ہو ہی جاتی ہے لیکن بعض ٹی وی اینکروں کی غلطی کی وجہ سے میڈیا کی پوری نئی نسل کو مورد الزام نہیں قرار دیا جا نا چاہیے۔ پھر بھی راہْل دیو نے ہمت اور جرئت کا ثبوت دیتے ہوئے اس کا اعتراف کیا کہ ملک کا میڈیا مسلمانوں کے تئیں "ایک خاص قسم کی سوچ اور نظریہ پیش کرتا ہے "لیکن انہوں نے اس "سوچ اور نظریے "کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ اور دہشت گردی اور اسلام کے تئیں منفی سوچ اور رویے کے لیے عالمی میڈیا کو ذمہ دار بتاتے ہوئے بڑی معصومیت سے فرمایا کہ "بھلا اِس صورت حال کو ہم اکیلے کیسے بدل سکتے ہیں ؟اْن کا کہنا تھا کہ یہ تعصب اور جانبداری صرف میڈیا میں نہیں پورے سماج میں ہے اور سماج کو بدلے بغیر صرف میڈیا کو ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک سماج میں تعصب اور لا علمی رہے گی تب تک یہ تمام خامیاں بھی موجود رہیں گی۔ لہذا میڈیا کو اچھا بنانے کے لیے قارئین اور ناظرین کو بھی اچھا بنانے کی ضرورت ہے۔ آج کتنے لوگ ہیں جو اخبارات کے اداریے پڑھتے ہیں ؟ اور کتنے لوگ ہیں جو سنجیدہ اور اچھے اخبار خریدتے ہیں ؟ اسی طرح پاکستان سے آئے ہوئے مہمان جنگ آن لائن کے اڈیٹر فاضل جمیلی نے بھی اعتراف کیا کہ پاکستانی معاشرہ اس وقت حد درجہ عدم توازن کا شکار ہے ان حالات میں محض صحافت سے اس سدھار کی توقع کرنا ٹھیک نہ ہو گا۔ کیونکہ صحافی خود وہاں متوازن نہیں وہ مجبور محض بن کر رہ گئے ہیں۔ اب پاکستانی میڈیا پر بھی مارکٹنگ اور کارپوریٹ شعبے حاوی ہیں۔ کیا چھپے گا اور کیا نہیں اس کا فیصلہ ورکنگ اڈیٹر کے بجائے مارکٹنگ کے لوگ کرتے ہیں تو جب صحافی خود ہی بے بس ہیں تو اْن سے سماج میں توازن لانے کی امید بھلا کیسے کی جا سکتی ہے۔ میڈیا اب اِنڈسٹری بن چکا ہے اور کسی انڈسٹری سے جو مغربی قارونی سرمایہ داریت کی تابع ہو اخلاق باختہ اور زوال گزیدہ سماج کی مسیحائی کی توقع ہی فضول ہے ! اب ہمیں یہ بات کھلے دل کے ساتھ تسلیم کر لینی چاہیے کہ انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے نصف اول کی طرح آج میڈیا مشن نہیں ، صارف کلچر کی ایک شئے ، چیز اور کموڈیٹی ہے لہذا اب وہاں بھی قانون صارفیت کا بول بالا ہے۔آج میڈیا وابستہ و پیوستہ (EMBEDDED)ہے کارپوریٹ دنیا سے اور اسٹیٹ اور اسکے تمام بازو اب کاپوریٹ سکٹر اور MNCsسے EMBEDDEDہیں۔ اور بقول ہرش مندر "+آج اسٹیٹ اس کے ستون اور اس کے کارندے کسی حل کے بجائے بذات خود ایک مسئلہ بن چکے ہیں۔ جب انہی کو غریبوں اور لاکھوں کروڑوں مستضعفین فی لا رض کی کوئی فکر نہیں تو صرف میڈیا سے جس کو چلانے کے لیے زر کثیر کی ضرورت پڑتی ہے ، یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ تن تنہا دنیا کے تمام کمزوروں ،اور دبے کچلے ہوئے محروم لوگوں کا مسیحا بن جائے گا !۔ دراصل یہ پورا سماجی ڈھانچہ سڑ چکاہے۔ اب کوئی انقلاب ہی اسے تبدیل کر سکتا ہے اور بس۔
قصہ داؤد ابراہیم کا…؟
نئی دہلی،۵؍ مئی: اب تک داؤد ابراہیم کو پکڑنے میں ناکام مودی سرکار پر اپوزیشن نے دباؤ بنانا شروع کردیا ہے، یہ تنازعہ منگل کو وزیر مملکت برائے داخلہ ہری بھائی چودھری کے اس بیان سے شروع ہوا جس میں انہوں نے داؤد کے بارے میں کوئی جانکاری نہ ہونے کی بات کہی تھی، اب خبر آرہی ہے کہ پاکستان میں داؤد کی مبینہ موجودگی کے بارے میں مرکزی وزارت داخلہ بدھ کو پارلیمنٹ میں وضاحت یا صفائی پیش کرسکتی ہے، خفیہ ایجنسیوں کے مطابق، داؤد ابراہیم کے تینوں پاسپورٹ کی تفصیلات اور تین پتوں کی جانکاری پاکستان سے شےئر کی جاچکی ہے۔
مرکزی حکومت نے انڈرورلڈ ڈان داؤد ابراہیم سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ اسے اس بات کی جانکاری نہیں ہے کہ 1993ء کے بم دھماکوں کا ملزم داؤد ابراہیم اس وقت کہاں ہے؟ مرکزی حکومت کا یہ بیان اس کے سابق موقف سے بالکل الگ ہے۔ مرکز کی جانب سے یہ جواب مرکز ی وزیر مملکت برائے داخلہ ہری بھائی چودھری نے داؤد ابراہیم کی حوالگی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں دیا ۔ سرکار سے جب داؤد کی حوالگی سے متعلق سوالات پوچھے جانے لگے تو وزیر مملکت برائے داخلہ ہری بھائی چودھری نے کہاکہ جس شخص کے بارے میں یہ سوالات کیے جارہے ہیں اس کی لوکیشن یعنی وہ اس وقت کہاں ہے اس بات کی جانکاری حکومت ہندکو نہیں ہے، اس لیے جوں ہی حکومت ہند کو اس کے ٹھکانے کا پتہ چلے گا وہ فوراً حوالگی کی کارروائی شروع کردے گی۔ یہاں غور طلب امر یہ ہے کہ ہری بھائی چودھری کا بیان گزشتہ سال ماہ دسمبر کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے اس بیان سے بالکل الٹ ہے جس میں انہوں نے کہاتھا کہ ’’ہم نے پاکستان سے لگاتار کہا ہے کہ وہ داؤد کو ہمیں سونپ دے ، ہمیں تحمل برتنے کی ضرورت ہے اس معاملے میں جلد ہی کارروائی ہوگی۔ راج ناتھ سنگھ کا یہ بیان اس وقت آیا تھا جب انٹیلی جینس بیورو کے خفیہ ونگ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے داؤد کی ایک ٹیلیفون کال ٹریس کی ہے جس میں اس عالمی گینگسٹر کے کراچی میں موجود ہونے کا پتہ چلا ہے۔ چودھری کے تازہ بیان کے بعد سرکار کی اچھی خاصی کرکری ہورہی ہے اور مودی سرکار ڈیمیج کنٹرول میں جٹ گئی ہے۔
بی جے پی کے رکن پارلیمان اورممبئی کے سابق کمشنر ستیہ پال سنگھ نے کہاکہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے ملک کی خفیہ ایجنسیوں نے ملک کے چوٹی کے اداروں کو داؤد کے ٹھکانے کے بارے میں لگاتار جانکاری دی ہے، ستیہ پال سنگھ نے یہ بھی کہاکہ یہ ایک حساس اور حکمت عملی سے سوچا سمجھا جانے والا معاملہ ہے، مجھے ابھی بھی لگتا ہے کہ ہماری ایجنسی کو پتہ ہے کہ داؤد کہاں ہے، جن لوگوں نے اسے تحفظ دے رکھا ہے وہ ضرور نہیں چاہیں گے کہ اس کے بارے میں کسی کو پتہ چلے، ستیہ پال سنگھ کے مطابق ان کے دور پولس کمشنر میں انہیں جو جانکاری ملی تھی اس کے مطابق داؤد کے پاس 7پاسپورٹ تھے جن میں تین پاکستان اور چار ہندوستان کے مختلف شہروں کے بنے ہوئے تھے۔ ہندوستان نے 2011ء میں پاکستان کو جن 50موسٹ وانٹیڈ دہشت گردوں کی فہرست دی تھی اس میں داؤد ابراہیم 8ویں نمبر پر تھا، یہ لسٹ اس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے پاکستان کو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان کو ان گلیوں کی جانکاری نہیں جہاں داؤد رہتا ہے۔ ذرائع کے مطابق ہری بھائی چودھری کے تازہ بیان کے بعد وزارت داخلہ میں افراتفری مچ گئی ہے کہ آخر داؤد کو لے کر اتنی بڑی چوک مرکزی حکومت سے کیسے ہوگئی؟ ذرائع کے مطابق وزیر مملکت برائے داخلہ نے پارلیمنٹ میں جو بیان دیا ہے اسے وزارت کے دوسرے نمبر کے داخلی سلامتی یونٹ نے تیا ر کیا تھا۔ اسی دوران ذرائع سے ملنے والی خبروں کے مطابق حکومت نے یہ طے کیا ہے کہ و ہ داؤد ابراہیم کے تعلق سے داخلہ سکریٹری سے تصدیق طلب کرے گی، اس کے علاوہ جواب تیار کرنے والے افسران سے بھی جواب طلب کیاجائے گا اور سرکار داؤد سے جڑے پرانے جوابوں پر بھی غور کرے گی۔
کانگریس نے 1993ء میں ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکوں کے ملزم داؤد ابراہیم کو ہندوستان واپس لانے کے بارے میں مرکزی حکومت پر سنجیدہ نہ ہونے کا الزام لگاتے ہوئے آج کہاکہ اس سلسلے میں پاکستان پر دباؤ ڈالا جاناچاہیے اور وزیر اعظم کو عام انتخابات سے قبل کیے گئے وعدے کوپورا کرناچاہیے، کانگریس کے ترجمان گوروگوگوئی نے آج یہاں پارٹی کی معمول کی بات چیت میں کہا کہ مودی سرکار کا لوک سبھا میں آج دیاگیا تحریری بیان تعجب خیز ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ داؤد ابراہیم کے بارے میں اس کے پاس کوئی اطلاع نہیں ہے اور اسے ہندوستان لانے کی کارروائی اس کی موجودگی کے بارے میں کوئی اطلاع ملنے کے بعد ہی شروع ہوسکے گی۔ انہوں نے کہاکہ دسمبر2014ء میں مرکزی وزیرمملکت برائے امور داخلہ کرن رجیجور نے کہا تھا کہ داؤد ابراہیم کے بارے میں ٹھوس اطلاع حکومت کے پاس ہے اور اسے ہندوستان لانے کے لیے پاکستان کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس سلسلے میں آج دیاگیا سرکار کا بیان حیرت انگیز ہے کہ اس کے پاس داؤد ابراہیم کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے، مسٹر گوگوئی نے کہاکہ حکومت کو اس سمت میں سنجیدگی سے اقدام کرناچاہیے، انہوں نے کہاکہ اس معاملے میں انتہائی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے، اور نریندر مودی کو داؤد ابراہیم کو ہندوستان واپس لانے کے بارے میں انتخابات سے قبل کیے گئے اپنے وعدے کو پورا کرناچاہیے، لوک سبھا میں مودی سرکار کے تحریری بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اپنے انتخابی وعدوں کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے، کانگریس ترجمان نے کہاکہ ان کا یہ مطالبہ ہے کہ حکومت اس سلسلے میں پاکستان کے ساتھ بات چیت کرکے اس پر دباؤ ڈالے، انہوں نے امید ظاہر کی کہ مسٹر مودی اس سلسلے میں کئے گئے اپنے وعدے کو پورا کریں گے۔
جواب دیں