نور اللہ جاوید، کولکاتا ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کے لیے تاریخ اور حقائق سے چھیڑ چھاڑبالی ووڈ کے ساتھ ساتھ علاقائی سنیما میں بھی مسلم مخالف اور جارحانہ قوم پرستی پر مبنی فلم سازی کے رجحان میں اضافہکیا مسلم امّت پروپیگنڈہ مہم کا جواب دینے کے منصوبے پر […]
ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کے لیے تاریخ اور حقائق سے چھیڑ چھاڑ بالی ووڈ کے ساتھ ساتھ علاقائی سنیما میں بھی مسلم مخالف اور جارحانہ قوم پرستی پر مبنی فلم سازی کے رجحان میں اضافہ کیا مسلم امّت پروپیگنڈہ مہم کا جواب دینے کے منصوبے پر کام کرے گی ؟ سیاسی رجحانات سے سنیما کا متاثر ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہردور میں سیاست سے سنیما متاثر ہوتی رہی ہے ۔حکمرانوں نے تاریخ کے مختلف مراحل میں سنیما کو پروپیگنڈہ کے طور پر استعمال کیا ہے کیوں کہ تصاویر، حرکت اور آواز میں وہ قوت ہے جس کے ذریعہ آسانی سے انسانوں کے دل و دماغ پر دستک دی جاسکتی ہے۔ دیگر فنون و لطیفہ کے برعکس سنیما میں فوری وقوع کا احساس دلانے اور قدرتی طور پر متاثر کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ فلمیں حقیقت کا بھرم پیدا کرتی ہیں۔ بھارت میں سنیمانے سو سالوں کا سفرطے کرلیا ہے۔ایک صدی پر مشتمل اس دورانیے میں بھارتی سنیمانے جدید تکنیک ، فنکارانہ خوبیوں ، ناظرین کے حلقہ کو وسیع کرنے کے اعتبار سے کافی ترقی کی ہے ۔چناں چہ بھارتی سنیما اپنی وسعت اور تکنیک کے معاملہ میں ہالی ووڈ کا مقابلہ کررہا ہے ۔دنیا کے بڑے فلم فیسٹول میں بھارتی سنیمااور بھارتی فلمی اسٹاروں کی دھوم ہے۔بھارتی ادکاروں اور فن کاروں نےدنیا بھر میں اپنے مداح پیدا کیے ہیں ۔اس کے ساتھ ہی موضوعات کے اعتبار سے بھی اس نے کئی مراحل طے کیے ہیں۔ ہر مرحلے میں غالب موضوع کے ایک خاص پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے۔ برطانوی دور میں بننے والی فلموں میں مرکزی پیغام مذہب اور مذہبی شخصیات کے گرد گھومتا تھا، جس نے بھارتی معاشرے پر پارسی تھیٹر کے اثرات کو ظاہر کیا۔ ہندی سنیما کا اگلا مرحلہ، آزاد بھارت میں، فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر مبنی فلموں کا تھا تاہم پچھلی چند دہائیوں میں، ایک نیا رجحان سامنے آیا جس میں فلمیں اسلاموفوبیا کو ہوا دینے اور فرقہ وارانہ اختلاف پر مرکوز ہونے لگی ہیں۔2014کے بعد بالی ووڈ اور دیگر علاقائی سنیما میں تاریخی واقعات اور شخصیات کے نام فلم سازی کا ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے۔ ان فلموں میں شاطرانہ طریقے سے تاریخی حقائق اور واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے۔تاریخ کے نام پر بننے والی فلموں میں غیر ملکی حملوں اور قبضوں کا ہندوتوا ورژن پیش کیا جا رہا ہے تاکہ ایک ایسے ہندو بھارت کی صورت گری کی جا سکے جس کا ان کے خیال میں ایک جنونی مسلمان گروہ نے محاصرہ کر رکھا تھا۔ یہ تمام فلمیں تباہ کن لڑائیوں میں مسلمانوں کے لشکر کا سامنا کرنے والے خود کے فرض کیے ہوئے نیک ہندو بادشاہ پر اختتام پذیر ہوتی ہیں۔ان فلموں نےقوم پرستی کے جذبات کو متاثر کیا۔ قرون وسطٰی کے مسلم حکمرانوں کو ہندو سماجی نظام کو برباد کرنے والے ویلن کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ فلموں پر نظر رکھنے والے محققین نے نشاندہی کی ہے کہ ان فلموں نے مسلم کمیونٹی کے بارے میں افسانوں کو جنم دیا ہے۔بھارتی سنیما کے فلم سازوں نے خود کو ہندو قوم پرست منصوبوں کے ساتھ جوڑ کر عوام کا استحصال کرکے بہت زیادہ منافع کمانے کا ایک طریقہ ڈھونڈلیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ تحریک آزادی کی جدو جہد کو بھی فرقہ واریت کی بائنری میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ ’’رانی لکشمی بائی‘‘ جیسی خاتون پر بننے والی فلم میں انگریزی استعمار کے خلاف جدوجہد اور اس میں ملک کے تمام طبقات کی شرکت اور تعاون کو نظر انداز کرکے گئو کشی اور ہندوتوا کے نظریات کو فروغ دیا گیا ہے۔اسی طرح گزشتہ سال کے اواخر میں پردہ سیمیں پر دھوم مچانے والی فلم ’آر آر آر‘ کہنے کو تو مجاہدین آزادی کی کہانی پر مشتمل ہے مگر اس میں بڑی چالاکی سے ذات پات کی تفریق کو جواز بخشنے کی کوشش کی گئی ہے۔بھارتی سنیما بالخصوص بالی ووڈ میں مکمل طور پر ہندو دائیں بازو نظریہ کو اختیار کرکے مسلمانوں کو غیر بنانے کا مستقل رجحان مضبوط ہوتا جا رہا ہے اور المیہ یہ ہے کہ سنیما کو دیکھنے والے زیادہ تر ناظرین کی طرف سے بھی اس طرح کے تعصبات و خرافات کی تائید ہو رہی ہے۔ آج بھارتی سنیما مواد کے اعتبار سے بحران کے دور سے گزر رہا ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ وہ عوام کے لیے معیاری سیرو تفریح کا سامان پیدا کرنے میں ناکام ثابت ہو رہا ہے۔ چناں چہ اپنی اس ناکامی کے تدارک کے لیے ایک طرف عریانیت و اخلاق باختہ مودا کا سہارا لے کر نوجوانوں کو لبھانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو دوسری طرف سیاست دانوں کے اشاروں پر انتہا پسندی و قوم پرستی کے ایجنڈے کی مقصد براری کے لیے ہندوؤں کی دیو مالائی کہانیوں کو حقیقت کا روپ دے کر نفرت انگیز ماحول کو ہوا دیتے ہوئے ملک کے عوام کو منقسم کیا جا رہا ہے۔ باجی راو مستانی، پدماوت، سوریہ ونشی جیسی فلموں میں مسلم شخصیات کی شبیہ کو منفی طور پر اجاگر کرتے ہوئے مسلمانوں کے کردار کو جس طریقے سے پیش کیا گیا ہے اس سے نہ صرف تاریخی حقائق کو نقصان پہنچا ہے بلکہ مسلمانوں کی غلط تصویر پیش ہوئی ہے اور مستقبل میں اس کے مضر اثرات سامنے آنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ کشمیر فائلز کے بعد دی کیرالا اسٹوری جیسی فلموں کو سرٹیفکیٹ کا دیا جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ آج بھارتی سنیما مسلم مخالف پروپیگنڈہ مشنری میں تبدیل ہوگیا ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بورڈ نے تمام قوانین و ضوابط کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ تاریخی واقعات اور ماضی کے حادثات پر فلم سازی سے ایک قدم آگے بڑھ کر اب آر ایس ایس اور بی جے پی کے پسندیدہ موضوعات ’لو جہاد‘، ’گھر واپسی‘ ، ’مسلمان ملک کے لیے خطرہ‘ ، ’گئو کشی‘ اور جارحانہ قوم پرستی جیسے ایشوز کو سامنے رکھ کر فلمیں بنائی جا رہی ہیں۔ سمراٹ پرتھوی راج، رام سیتو، کوڈ کا نام: ترنگا اور برہمسترا پارٹ ون: شیوا جیسی فلمیں اسی منصوبے کا حصہ ہیں۔اس فلم میں قوم پرستی اور ہندوتوا جیسے تصورات کا احاطہ کیا گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ ایک طرف سپریم کورٹ نفرت انگیز تقاریر پر سختی دکھاتے ہوئے پولیس کو از خود کارروائی کرنے کی ہدایت دے رہی ہے تو دوسری طرف وہ دو فرقوں کے درمیان اجتماعی طور پر نفرت انگیزی کو بڑھاوا دینے والی فلموں پر ’اظہار رائے کی آزادی‘ کے نام پر پابندی لگانے سے انکار کر رہی ہے۔عدالتوں کے پورے احترام کے ساتھ عرض ہے کہ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عدالتیں اس طرح کی فلموں سے سماج پر مرتب ہونے والے اثرات کی سنگینی کا احساس کرنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔معاشرے میں جہاں سیاسی بیان بازی کی وجہ سے نفرت انگیز ماحول پیدا ہوتا ہے وہیں نفرت انگیز فلموں سے لوگوں کے دل و دماغ کہیں زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔انفرادی طور پر پھیلائی جانے والی نفرت سے کہیں زیادہ اجتماعی نفرت انگیزی سنگین ہوتی ہے۔ اس طرح کی پروپیگنڈہ فلموں کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے اور حکومت کے ایما پر ہی ایسی فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ ٹیکس معافی کے ساتھ انہیں ہر طرح کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ایسے میں مسلمانوں کے سامنے بھی کئی سوالات ہیں کہ وہ پروپیگنڈہ پر مبنی فلموں کا جواب کس طریقے سے دیں گے؟ میڈیا کی اس صنعت کا استعمال کرکے تاریخی حقائق اور سچائی کو سامنے لانے کا کوئی منصوبہ آیا ان کے پاس موجود بھی ہے یا نہیں؟ یا پھر وہ خاموش تماشائی بن کر صرف اپنی بے بسی کا نوحہ پڑھتے رہیں گے۔ یہ صورت حال جہاں بھارتی سنیما کے زوال کی عکاسی کرتی ہے وہیں مسلمانوں کے سامنے بھی کئی سوالات کھڑے کرتی ہے۔ یہ سوالات اس لیے اہم ہیں کہ جس تسلسل کے ساتھ بھارتی سنیما میں سنگھ پریوار کے نظریات کو فروغ دیا جا رہا ہے اور مسلم مخالف قوم پرستی اور تاریخی شخصیات کے نام پر بننے والی فلموں میں انہیں ہندوؤں کے قاتلوں کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس سے ملک میں نہ صرف نفرت انگیزی کے ماحول میں شدت آئے گی بلکہ ملک کے دو بڑے طبقات کے درمیان خلیج میں اضافہ ہوگا۔ بدامنی اور فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ ’کیرالا اسٹوری‘ اظہار رائے کی آزادی اور آئین گزشتہ کئی برسوں سے کیرالا میں دائیں بازو کی جماعتیں قدم جمانے کی کوشش کررہی ہیں۔اس مقصد کےلیےبڑے پیمانے پر فرقہ واریت ، لوجہاد اور مسلم انتہا پسندی جیسے "خطرات” کا ہوا کھڑا کیا جارہا ہے۔ ’لو جہاد‘ کے نام پر سب سے زیادہ جھوٹ اور پروپیگنڈہ پھیلایا گیا ہے۔’تبدیلی مذہب‘ کے انفرادی واقعات کو ’لوجہاد‘ اور منظم سازش سے جوڑ کر یہ بیانیہ مرتب کیا گیا کہ کیرالا میں ہندو لڑکیوں کو محبت کے فریب میں پھنساکر مسلمان بنایا جارہا ہے۔ ’’ہادیہ کیس‘‘ میں ملک کی سب سے بڑی ایجنسی این آئی اے کو جانچ کی ذمہ داری سونپی گئی تھی مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا۔ حکومت کی خفیہ رپورٹس سے بھی یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ’لوجہاد‘ کے نام پر کچھ بھی نہیں ہے ۔ ملک کے سابق وزیر داخلہ اور مودی حکومت میں وزیر دفاع جیسے اہم عہدہ پر فائز راج ناتھ سنگھ وزارت داخلہ کے انچارج رہنے کے دوران یہ واضح کرچکے ہیں بھارت میں مسلمانوں اتنی بڑی آبادی ہونے کے باوجود داعش کے فریب میں پھنسنے والوں کی تعداد پوری دنیا میں سب سے کم ہے۔اس کے باوجود پروپیگنڈہ کا سلسلہ جاری ہے۔ اب اس پروپیگنڈہ کو آگے بڑھانےکےلیے سنیما کا سہارا لیا گیا ہے۔’’دی کیرالا اسٹوری‘‘ کے ذریعہ لوجہاد اور مسلم ہونے والی خواتین کو دہشت گردتنظیموں کے ہاتھوں یرغمال بنانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔پہلے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کیرالا میں 32ہزار ہندو ، عیسائی لڑکیوں کو مسلم بناکر دہشت گردی میں ملوث کیا گیا ۔جب اس اسٹوری پر چوطرفہ تنقید کی گئی توتین افراد کی اسٹوری بتاکر یہ کہنے کی کوشش کی گئی تعداد کے بجائے اس معاملے کی حساسیت کو سمجھا جائے۔ ویڈیو میں شالنی اننی کرشنن کا مرکزی کردار ادا کرنے والی ادا شرما کو یہ کہتے ہوئے دیکھا گیا کہ ’میں اکیلی نہیں ہوں، میری طرح 32 ہزار لڑکیاں ہیں جو پہلے ہی مذہب تبدیل کر کے شام اور یمن کے صحراؤں میں دفن ہو چکی ہیں۔ اس فلم کے ڈائریکٹر سدیپتو سین ایک انٹرویو میں کہتے ہیں ’’یہ تعداد اہم نہیں ہے۔ ہاں، ہم نے کہا کہ32ہزار لڑکیاں اپنا گھر چھوڑ کر چلی گئیں، لیکن ہم نے یہ نہیں کہا کہ وہ آئی ایس میں شامل ہوئیں۔ ہم نے ان لڑکیوں کا ٹھکانہ جاننے کے لیے آر ٹی آئی بھی دائر کی تھی۔ لیکن کیرالا پولیس نے ابھی تک ہمیں لاپتہ ہونے والی لڑکیوں کی صحیح تعداد نہیں بتائی ہے۔ ہمیں تعداد کے بجائے مسئلے پر بات کرنی چاہیے۔ اگر یہ صرف سو لڑکیوں کے ساتھ ہوا تو کیا معاملہ کی سنگینی کم ہو جائے گی؟ نمبروں پر زور دینے کے بجائے، ہمیں ان لڑکیوں کے درد اور ان کے ساتھ کیا ہوا اس کے بارے میں بات کرنی چاہیے‘‘۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر کسی دعویٰ کے پس منظر میں دلیل اور حقائق نہیں ہے تو وہ دعویٰ ردی کی ٹوکری میں پھینک دینے کے قابل ہے۔اگر اس کو ردی میں نہیں پھینکا جاتا ہے تو وہ جھوٹ حقیقت کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور پھر اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔کیرالا میں بڑے پیمانے لڑکیوں کے اسلام قبول کرنے اور پھر ان کے داعش جیسی تنظیموں سے جوڑنے سے متعلق کسی بھی دعویٰ کا ثبوت پیش کرنے میں فلم ساز ناکام ہیں ۔وہ اپنا سورس نہیں بتارہے ہیں ۔اسمبلی میں پیش کردہ ایک رپورٹ کا آدھا ادھورا حوالہ دیا جارہا ہے۔ انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق کیرالا کے سابق سابق وزیر اعلیٰ اومن چانڈی نے 2012میں اسمبلی کہا تھاکہ کیرالا میں 2009 سے اب تک(یعنی 2012تک) 2
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں