یہ تو ممکن ہی نہیں کہ دس آدمی صرف ایک ہی ذہن کے ہوں نتیجہ یہ ہوا کہ اختلاف کھل کر سامنے آنے لگا 100 برس کی جدوجہد کے بعد جو آزادی ملی تھی اور پورا ملک جشن منا رہا تھا ایسے میں جب یہ خبریں عام ہوئیں تو چمکتے دمکتے چہروں کی رونق کم ہونے لگی۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد بس یہی بات رہ گئی تھی کہ آزادی کی خوشیوں پر اوس پڑجائے اور عوام انگریزوں کے متعلق کہنے لگیں کہ ان سے تو وہی اچھے تھے۔
رفیع احمد قدوائی اللہ ان کی مغفرت فرمائے انہوں نے پنڈت جی سے کہا کہ آپ اپنے طور پر اپنا کام کریں اور ان کو میرے اوپر چھوڑ دیں۔ انہوں نے ہر لیڈر سے الگ الگ بات کی اور انہیںیقین دلایا کہ ہم سب اگر الگ ہوجائیں اور نہرو کو اکیلا چھوڑ دیں تو پورا ملک ہمارے ساتھ کھڑا ہوجائے گا پنڈت نہرو نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو آزاد ہندوستان کا گورنر جنرل بناکر ایک ہتھیار اپنے مخالفوں کو دے دیا تھا کہ اس کے ذریعہ الزام لگا تھا کہ وہ انگریزوں سے سازباز کررہے ہیں اسی وجہ سے اتنے منجھے ہوئے لیڈر بھی جھانسہ میں آگئے اور پرجا سوشلسٹ پارٹی بنا ڈالی رفیع صاحب بھی ان کے ساتھ تھے۔ چند روز کے بعد کانگریس نے رفیع صاحب کے علاوہ سب کو چھ سال کے لئے پارٹی سے نکال دیا اور رفیع صاحب واپس چلے گئے۔ اس وقت مخالفوں کو اندازہ ہوا کہ رفیع احمد قدوائی نے نہرو کے لئے میدان صاف کردیا۔ اس کے بعد 1963 ء تک ان میں سے کسی کو کسی بھی ٹکٹ پر نہروجی نے پارلیمنٹ میں نہیں آنے دیا۔ 1963 ء میں آچاریہ کرپلانی اور ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اس وقت کامیاب ہوسکے جب 1962 ء کی جنگ میں چین نے ہندوستان کو اتنا ذلیل کیا کہ نہروجی نے پلنگ پکڑلیا اور پورا ملک اس ذلت کا ذمہ دار نہرو کو سمجھنے لگا اس جنگ کو بھی نہرو نے اس طرح لڑا کہ ان کے مقابلہ پر بہت مشہور وزیروں کو کھڑا کیا لیکن بہت دیر ہوچکی تھی۔
عام آدمی پارٹی میں یہی کہانی دُہرائی جارہی ہے اور ظاہر ہے کہ 65 برس میں دنیا کی ہر چیز بدل گئی تو مخالفت اور محبت کا انداز بھی بدل گیا۔ نہرو جی کے وقت چند اخبار یا ریڈیو تھے وہ بڑے آدمیوں کے پاس کجریوال کے زمانہ میں ہر زبان کے ہزاروں اخبار اور سیکڑوں ٹی وی چینل اور انٹرنیٹ کی وجہ سے دنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے کے درمیان ہر وقت رابطہ ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک چھوٹی سی ریاست وہ بھی آدھے اختیارات والی دہلی کی حکومت میں اگر یوگیندر یادو، ڈاکٹر لوہیا، پرشانت بھوشن، کرپلانی جی اور جے پی کا کردار کویء گاندھی ادا کریں تو نہ اتنا چیخنے چلانے کی ضرورت ہے اور نہ شور مچانے کی کجریوال نہرو کا کردار ادا کررہے ہین اور سکون سے دس دن کا قدرتی علاج کا کورس پورا کرکے آج شام کو آرہے ہیں انہیں اطمینان ہے کہ کچھ نہیں ہوگا۔ ایک ہفتہ سے ہر ٹی وی چینل کے پکے ہوئے اور سنگھ کے پالے ہوئے نمک کا حق ادا کررہے ہیں اور صرف عاپ کی ان خبروں کے لئے وقف ہیں جو اس دوسالہ پارٹی کے اندر اختلاف سے متعلق ہوں اور ایسی تصویر پیش کررہے ہیں جیسے پورا ملک اُتھل پتھل ہونے والا ہے۔
لکھنؤ کارپوریشن کے میئر جن کا دس سال میں ہم نے تو کوئی بیان دیکھا نہیں وہ بھی یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ بھی بھگوا بریگیڈ کے ایک حولدار ہیں عاپ کی موجودہ کشمکش پر تبصرہ کررہے ہیں اور ان کی کرنی اور کہنی کا فرق دکھا رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ اس مسئلہ میں بی جے پی یا کانگریس کچھ بولے۔ دونوں نے ہر الیکشن کے موقع پر مینی فیسٹو چھاپا ہے کجریوال، سیسودیا اور سنجے سنگھ اگر ہر ایک کا حساب لیں تو بھاگنے کا کسی کو راستہ نہیں ملے گا۔ عاپ کے لیڈر اگر لوک سبھا کے الیکشن کے نتیجہ کے بعد خوفزدہ ہوگئے تھے اور یہ سوچنے لگے تھے کہ ڈیڑھ سال کی یہ معصوم بچی اتنا بڑا جھٹکا برداشت نہیں کرپائے گی تو کیا غلط تھا؟ انہوں نے اگر زخم خوردہ کانگریس سے تعاون مانگا تو کون سا گناہ کیا؟ کیا بی جے پی بھول گئی کہ جب پہلی بار مایاوتی نے چھ مہینے کی سنگت کے بعد ھوکہ دیا تو وہ میدان میں کھڑی رہ گئی تھی اس وقت نریش اگروال وزارت کی شرط پر 25 کانگریسیوں کو توڑکر نہ لاتے اور بی جے پی کو سہارا نہ دیتے تو کیا وہ زندہ رہ جاتی؟ یہ الگ بات ہے کہ نریش پھر واپس کانگریس میں نہیں گئے اور اب بہت دنوں سے ملائم جی کے ساتھ ہیں۔ دہلی میں اگر ممبر توڑکر حکومت بنانے کی کوشش کجریوال کررہے تھے تو بی جے پی کیا رام رام جپ رہی تھی؟ وہ بھی کانگریس یا عاپ کے ممبر خریدکر اپنی حکومت بنانے میں لگی تھی اور دنیا کو معلوم ہے کہ وہ کروڑوں روپئے ایک ممبر کو دے رہی تھی رہی یہ بات کہ جو کام دوسری پارٹیاں کررہی ہیں وہی اس نے کیا تو فرق کیا رہا؟ حیرت کی بات ہے کہ جب سیاسی دنیا میں آئیں گے تو امیدوار بھی کھڑے کریں گے ووٹ کے لئے وعدے بھی کریں گے اپنے کو دوسروں سے اچھا بھی بتائیں گے مودی صاحب نے کانگریس مکت کے نعرہ دیا تھا عاپ، مودی اور سونیا مکت کا نعرہ دے گی کیا پھر کسی کو یہ کہنے کا حق ہے کہ آپ لوگ تو وہی کررہے ہیں جو سب پارٹیاں کررہی ہیں؟ یعنی آپ کو یہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ ٹکٹ بانٹ کر گھر بیٹھ جانا چاہئے پھر عوام آپ کو بے مانگے ووٹ دے کر کامیاب کرادیں تو نئی بات ہوگی۔
بی جے پی ہو یا کانگریس دونوں نے ہمیشہ اپنی ہر چیز کو حکومت کے لئے بیچا ہے ذلیل سے ذلیل ترین کام کیا ہے 100 کروڑ ہندوؤں اور 20 کروڑ مسلمانوں کر ہر بار دھوکہ دیا ہے۔ 520 گز کے اٹل جی نے حکومت کے لئے رام مندر 370 یکساں سول کوڈ چھوڑا شاباش ہے ہندو قوم کو کہ جب دس برس کے بعد مودی نے یہی منتر پڑھا اور کہا کہ اٹل جی کو پوری اکثریت نہیں دی تھی ہمیں پوری اکثریت دو تو ہندو راشٹر بنادیں گے ہندوؤں نے من کی مراد پوری کردی۔ اب بھاگنے کا راستہ نہیں تھا لیکن حرفوں کے بنے شری مودی نے قوم کے سامنے چین، جاپان، امریکہ، آسٹریلیا، ماریشس اور شری لنکا کے نئے نئے کھلونے ڈال دیئے 370 کو کشمیر میں پاؤں رکھنے کی جگہ کے بدلے قربان کردیا رام مندر کو سپریم کورٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور سول کوڈ کے ذکر کی بھی اس لئے کہ ہندو ہی جوتا لے کر کھڑے ہوجائیں گے ضرورت نہیں سمجھی۔
عاپ کے دونوں باغی لیڈروں کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا بھوشن اگر اپنے باپ کی وجہ سے بی جے پی کے دشمن کے دشمن بن گئے تو انہیں معاف کردینا چاہئے تھا یوگیندر یادو ان لوگوں میں ہیں جو ماتحت رہ کر کام نہیں کرسکتے۔ باقی قابل ذکر نہیں۔ رہی پارٹی کی بات تو ابتدا سے ایک ہی آدمی چلاتا ہے۔ 1964 ء تک پنڈت جی نے کانگریس چلائی لیکن مخالفت کو بھی برداشت کیا۔ پھر مسز اندرا نے چلائی پھر راجیو نے، نرسمہاراؤ نے اور اب سونیا چلا رہی ہیں۔ بی جے پی اٹل جی چلاتے رہے پھر اڈوانی صاحب آئے اب شری مودی ہیں نام کے لئے بارات بھی ہے یوپی میں ملائم سنگھ جی ہیں اور یا مایاوتی ہیں بہار میں لالو یادو اور نتیش ہیں بنگال میں ممتا ہیں تمل ناڈو میں کروناندھی اور جے للتا ہیں اور پنجاب میں بادل۔ ہر گاڑی کا ڈرائیور ایک ہی ہوتا ہے جس پارٹی میں برابر کے دوچار ہوتے ہیں اس کا انجام آخر میں وہی ہوتا ہے جو اس تانگہ کا ہوتا ہے جس کے دونوں طرف گھوڑے ہوں اور اپنی طرف کھینچ رہے ہوں۔
کجریوال، سیسودیا اور سنجے سنگھ کے لئے بہتر یہ ہے کہ سب کو اپنی اپنی بولیاں بولنے دیں وہ لوگ جتنی صفائی دیں گے اتنی ہی اینٹیں اور آئیں گی۔ انہوں نے جو دہلی سے وعدے کئے ہیں صرف ان کی طرف توجہ دیں اور سب سے اہم کام یہ ہے کہ قدرت کی طرف سے جو مارچ کے درمیان میں عذاب اور مہنگائی برسی ہے ان کسانوں کی کمر تھام کر کھڑے ہوں۔ ان کی ہر ممکن سرکاری مدد کریں اور جس طرح پارٹی کے لئے عوام سے مدد مانگی تھی اسی طرح سب سے اوپر اس مسئلہ کو رکھیں کہ کسان خودکشی نہ کریں اور غریب مہنگائی سے چوری چکاری کی طرف نہ چل پڑیں۔ کجریوال نے جو بات پہلے کہی تھی کہ پانچ سال صرف دہلی، اس پر عمل کریں اور دہلی سے اس وقت تک باہر کی طرف نہ جھانکیں جب تک پوری دہلی کجریوال پانچ سال کہتی رہے اور آخری بات یہ ہے کہ مسٹر کجریوال ڈاکٹروں کی ہر ہدایت پر حرف بہ حرف عمل کریں۔ اس لئے کہ ملک میں دوسرا کجریوال نہیں ہے۔ اور یہ ان کے ساتھیوں کا بھی فرض ہے کہ انہیں ڈاکٹروں کے بنائے ہوئے خانوں سے باہر نہ نکلنے دیں اور دشمنوں کے حملوں کے جواب کی ذمہ داری ان کی نہ ہو وہ مون برت کا اعلان کرکے اپنی کرسی پر بیٹھیں اور میڈیا کے کسی ایڈیٹر سے نہ ملنے کا عہد کرلیں۔ خدا نہیں سلامت رکھے۔
جواب دیں