سچر کمیٹی رپورٹ نے ہندوستا نی مسلمانوں کو دلتوں سے بھی بدتر کا خطاب دے کر یہ بتا دیا کہ اگر مسلم لیڈران،مسلم تنظیمیں ،سیاسی علماء اکرام اور سیکولر حکومتوں کوعام مسلما نوں کی فکر ہوتی تو مسلمانوں کی حالت دلتوں اور پچھڑی ذاتوں سے بھی بدتر نہ ہوتی؟اور اس بدترین المیہ کی وجہ یہ ہے کہ ملک کے مختلف ریاستوں میں وقف بورڈ کی 4.9 لاکھ سے زائد وقف کی املاک موجود ہیں اوراس املاک اوراس کی آمدنی سے تعلیمی ادارے،ہوسٹل،اور لائبریریاں قائم کرنا ،کھیل کود کی سہولیات فراہم کرانا ،تعلیم کے فروغ کے لئے و ظیفہ د ینا،فرقہ وارانہ فسادات اور قدرتی آفات متاشرین کو ہیلتھ کئیر،راحت رسانی اور معاشی امداد فراہم کرنا ،کمیونٹی کے لئے مسافر خانہ اور شادی حال بنوانا،غریب بیواؤں ،مفلس اور جسمانی طور پر معذور افراد کو معاشی امداد فراہم کرانا ،نادار لڑکیوں کی شادی کا انتظام کرنا اور مطلقہ خواتین کی کفالت کرنا اور نان ونقطہ فراہم کراناعلاوا اس کے مساجد ،درگاہ ،قبر ستا ن کی دیکھ بھال اور وقف جا ئداد کو مجتمع کرناجسے مقاصد شامل ہیں لیکن وقف کی املاک کرپشن ،بدعنوانی اور سرکاری و غیر سرکاری قبضہ کا شکار ہو گئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تمام مقاصد کوپائے تکمیل تک پہنچانے میں آپ کوکامیابی حاصل ہوگی ؟چناچہ سچر کمیٹی رپورٹ کا خاکہ پیش کرتے ہیں
نیشنل کیپیٹل ٹریٹری کامطالعہ
سچر کمیٹی رپورٹ کے مطابق حکومت ہند نے نئی دارالحکومت کی تعمیر دہلی شہر کی توسیع کے لئے 1911سے 1915 کے درمیان کافی اراضی حاصل کی اور اس اراضی میں وقف کی کئی املاک کو حاصل کیا گیا حالانکہ ان میں بیشتر املاک کے معاملے میں معاوضہ نہیں ملا یا قبول نہیں کیا گیا 1940 میں 42 معاملات میں حکومت ہند نے سنی مجلس اوقاف(دہلی وقف کا پیشرو)کے ساتھ انفرادی معاہدے کئے جس کی روسے انہیں ان املاک کو مذہبی مقاصد کے لئے استمعال کرنے کی اجازت مل گئی دہلی گزٹ میں 1970میں ایک نوٹیفیکشن کے ذریعہ ان املاک کی ایک بڑی تعداد بشمول ان املاک کے جو معاہدے میں شا مل نہیں ،وقف کی املاک قرار دے دیا گیا لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی دونوں نے وزارت برائے شہری ترقیا ت،حکومت ہند کے تحت اس فیصلے کو دہلی کی عدالتوں میں چیلنج کیا اور 300 سے زائد مقدمات داخل کئے گئے
1974 اور 1984 کے درمیان چار اعلی اختیاراتی کمیٹیوں نے فریقین کے درمیان ان تنازعات کا معائنہ کیا اس معاملے کی جانچ ایک وزراتی گروپ نے( جس میں 6کابینی وز یر شامل تھے )بھی کی ۔افسران کی ایک کمیٹی نے جس میں منسٹری آف ورکس اینڈ ہاوسنگ ۔وزرات امور داخلہ ،دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی ،لینڈ اینڈڈیولپمنٹ افسر اور دہلی وقف بورڈ کے نما ئندگان شامل تھے نے تمام تفصیلی معائنہ کیا اور دہلی کی ترقی کے لئے درپیش ضرورتوں کے سیاق واسباق میں ہر جائداد کا تجزیہ کیا ۔انھوں نے یہ تصدیق کی کہ123 املاک کے معاملے میں واضع تھا کہ انہیں وقف املاک کے زمرے میں ڈالا جاسکتا ہے اور انہوں نے یہ شفارش بھی کی کہ ان املاک کو دہلی وقف بورڈ کو سونپ دیا جائے ۔حکومت ہند نے 31جنوری 1984کو کمیٹی کی سفارشات کو منضوری دی اور 123 املاک کو (61املاک ایل ڈی او اور 62 املاک کو ڈی ڈی اے کے قبضے میں تھی ) منتقل کرنے کا حکم دیا ۔ان 123 املاک کے علاوہ کمیٹی آف آفیسرز نے پایا کہ 40 دیگر املاک جو کہ وقف کی املاک تھیں سرکاری املاک کے اندر جیسے عوامی پارک وغیرہ واقع تھیں اس وقت یہ طے کیا گیا کہ ان املاک کے تعلق سے حکومت کی ملکیت برقرار رہے گی لیکن وقف بورڈ کو انہیں وقف املاک کے طور پر استمعال کرنے کی اجازت ہوگی
مندرجہ بالا مختارناموں ،معاہدوں کے باوجود ایک رٹ پٹیشن کے نتیجے میں دہلی ہائی کورٹ نے 1984 میں ان املاک سے متعلق اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ حکو مت کا ان پر دستور قبضہ برقرار رہنا چاہئے یو نین آف انڈیا نے ہائی کورٹ کو دئے گئے جواب میں اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نوٹیفائڈ وقف املاک کی مکمل جا نچ پڑتال اور جگہ کی تصدیق کے بعد صرف اس طرح کی املاک کو دہلی وقف بورڈ کو منتقل کرنے کا حکم دیاگیا تھا جو حسب ذیل ہے (1)نوعیت میں واضح طور پر وقف ہیں (2)عوامی استمعال کے لئے ضروری نہیں(3)متصل سرکاری عمارتوں سے واضح طور پر الگ کیا جاسکے (4)دہلی وقف بورڈکو وقف املاک کی منتقلی موشرمینجمنٹ اوررفاہ عامہ کے لئے ہے (5) وقف املاک جو جگہ پر موجود نہیں لیکن گزٹ میں نوٹیفائڈ کیا گیا ہے کو نظر انداز کردیا گیا ہے ۔چنانچہ حکومتی ایجنسیوں اور دہلی وقف کے درمیان تمام متنازعات ختم ہو گئے تھے اور تمام زیر التوا مقدمات دونوں پارٹیوں کی جانب سے واپس لینے تھے تا ہم 6جون 1984کو عارضی اسٹے کی وجہ سے اس ضمن میں مزید کوئی اقدام نہیں کیا سکا کہا جاتا ہے کہ 22سال بعد اور 112 بار اسے آویزاں کرنے کے بعد بھی معاملے کی سماعت نہیں ہو ئی کیونکہ حکومت کی جانب سے کسی قسم کا جوش و جذبہ نہیں دیکھاگیا ۔اس 22سال کے دورا ن وقف املاک پر وسیع پیمانے پر غیر قانونی قبضہ کیا گیا ہے اور یہ عمل اب بھی جاری ہے دہلی وقف بورڈکو اپنی املاک کو استمعال کرنے سے موثر طریقے سے محروم کردیا گیا ہے دہلی وقف بورڈ اپمی اس جائداد سے وسائل پیدا کرنے اور قرض سے نجات حاصل کرنے کے لائق نہیں رہا اور اب تو بلکل کنگال ہو چکا ہے
2003 میں ان 123 املاک کی بازاری قیمت عرضی گزاروں نے 3000 کروڑ روپئے بتایا تھا ان کے بعد دہلی میں اراضی کی قیمت دوگنا ہوئی ہے لہذہ ان وقف املاک کی قیمت ایک اندازے کے مطابق 6000 کروڑ روپئے لگائی جاسکتی ہے طویل مقدمے بازی کی وجہ سے ان کی معاشی اہمیت ختم نہیں ہوجاتی اگر اس وقت اس کی ممکنہ معاشی کا فائدہ اٹھایا جائے تو اتنے وسائل وجود میں آجائے کہ جو دہلی میں مسلم کمیونٹی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہوں گے حکومت ہند افسران کو ہدایت دینے پر غور کرسکتی ہے کہ وہ اس معاملے میں سرگرم دلچسپی کا مظاہرہ کریں اور جس قدر جلد ممکن ہوسکے عدالتوں سے اس معاملے کو نمٹارا ہو جائے ،،
درپیش رکاوٹیں ؛کچھ شفارشات
اوقاف کی ملکیت ایک سماجی معاشی ادارہ ہے جو آج کے دور میں غیر سرکاری تنظیموں کے مساوی ہے تا ہم اس وقت وقف املاک کا انتظام ناقص ہوتا جارہا ہے مقد مہ کے بڑھتے ہو ئے واقعات اور ناقص انتظامیہ دونوں اس کے ذمہ دار ہیں اکشر و بیشتر وقف بورڈ اہم مقدمات اور اس کے نتیجے میں گرانقدر املاک معاشی اور انتظامی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ہار جاتا ہے لہذا وقف بورڈکو انتظامی سطح پر ضروری معاشی اور قانونی حمایت کے ساتھ مظبوط کرنا نہایت ضروری ہے ہندوستان میں پھیلی ہوئی تقریبناپانچ لاکھ سے زائد وقف کی املاک کے انتظام کو بہتر بنانے کے لئے وقف کو اعلی قانونی ،انتظامی اور عدالتی ترجیحات عطا کی جانی چاہئے مرکزی اور ریاستی سطح پر حکومتوں نے غالبا اس کے لئے کہ انہوں نے خود وقف کی بھاری املک پر قبضہ جما رکھا ہے صرف اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لئے خود کو موزوں سمجھا ہے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ وقف کو دولت بھی پیدا کرتی ہے اور ضرو رت مندوں کی فلاح کے لئے انکی ضروریات بھی پوری کرتی ہے مناسب قانونی ا ور لجسلیٹو امپاور منٹ کے ساتھ جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے وقف املاک کے انتظام کو دوبارہ زندہ اور توانا کیا جاسکتا ہے پورے ہندوستان میں وقف کے کام کاج اور انتظام کو بہتر بنانے کے لئے کچھ سفارشات پیش کی جارہی ہے ریاستی اور قومی سطح پر وقف املاک کی ترقی کے لئے تکنیکی مشاورتی گروپ فراہم کرنا ضروری معلوم پڑتا ہے یہ تنظیم ریاستی وقف بورڈوں کے نمائندگان اور اسکول آف پلانگ اینڈ آرکیٹیکچر،نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائین اور آئی ٹی آئی کے ماہرین نیز ماہر عمرانیات ،معاشیات ،مالی اور قانونی ماہرین پر مشتمل ہوگی وقف کی کوئی بھی جائداد جس کی موجودہ غیر ترقی یافتہ مارکیٹ ویلو تخمینہ ایک کروڑ یا اس سے زیادہ ہوگا اسے تکنیکی مشاورتی بورڈ کے حوالے کردیا جائے،،
آخر بات یہ ہے کہ آزادی کے ۶۶ برسوں میں مسلم قیادت اس قابل نہ ہوسکی کہ ملک گیر سطح پر نہ سہی راجدھانی دہلی کی وقف املاک جو عدالتوں میں زیر غور ہے کو حاصل کرلیتی حالا نکہ الیکشن قریب آتے ہی مسلم قیادت کی آنکھ چڑھنے لگتی ہے برساتی مینڈھک کی طرح لوگ ٹرٹرکرتے نظر آتے ہیں لیکن افسوس کہ وقف املاک کو حاصل کرنے اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے مسلم قیادت میں حرارت نظر نہیں آتی اگر ملک گیر سطح پر وقف املاک کے حصول کی جدوجہد شروع ہوجائے تو حکومتوں اور عدالتوں کو سنجیدہ ہونا پڑے گا مسلم پرسنل لاء بو ر ڈ،جماعت اسلامی وجمیعت علماء جیسی سنجیدہ تنظیمیں اور عام آدمی پارٹی کے وزیر اعلی کیجری وال اگر سنجیدہ ہوجائیں اور وقف کی ملکیت مسلمانوں کے حوالے ہوجائے تو یقیننا مستقبل کے دس برسوں میں ہندوستان کا مسلمان اس قدر خود کفیل بن سکتا ہے وہ ہاتھوں کو پھیلانے کے بجائے دینے والا ہوسکتا ہے ۔شاید کہ دل میں اتر جائے میری بات
جواب دیں