حفیظ نعمانی
اجودھیا کے صحافی و ادیب شیتلا سنگھ نے کہا کہ فیصلہ سمجھ سے باہر ہے مودی حکومت کو فائدہ پہنچانے والا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا ارشد میاں نے امن کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ہماری توقعات کے مطابق نہیں ہے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی نے فرمایا کہ کچھ فیصلہ حق میں اور کچھ ہمارے خلاف ہے۔ اجودھیا کے شیتلا سنگھ نے دیگر متعدد کانگریسی لیڈروں کے ساتھ وی ایچ پی اور بی جے پی لیڈروں کے بارے میں لکھا ہے سبھی وہاں رام مندر کی تعمیر چاہتے تھے صفدر امام قادری نے لکھا ہے کہ آج جو سپریم کورٹ نے نتیجہ اخذ کیا ہے اس کا مزاج رام جنم بھومی آندولن کے اس نعرہ سے مطابقت رکھتا ہے کہ مندر وہیں بنائیں گے۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دے دیا کہ پونے تین ایکڑ زمین پر رام مندر بنے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب اس مقدمہ کو اتنے سادہ نتیجے سے یہاں تک پہنچنا تھا تو اس کے لئے ہزاروں فسادات اور کروڑوں اربوں کی جائیدادوں کی بربادی قومی زندگی کے سواسو برسوں کا رتلاس کس لئے کیا گیا۔ سادہ سا نتیجہ تھا کہ ہندوستان کی اکثریت کے جذبات کا خیال رکھا جائے اور بدل کے طور پر ہر اقلیت کی آبادی کے لئے ہرجانہ بھی پیش کردیا جائے۔
ایک مسئلہ سے ہم بہت پریشان ہیں کہ جب 6 دسمبر 1992 ء کو مسجد کی شہادت کے بعد پوری زمین حکومت نے اپنے قبضہ میں لے لی اور وہ نہ وقف بورڈ کی ملکیت رہی اور نہ نرموہی اکھاڑے کی رام للا اور سیتا رسوئی کی لیکن مقدمہ جب شروع ہوا تو بتایا گیا کہ ہم ملکیت کا مقدمہ طے کریں گے زمین کا مالک کون ہے۔ اور یہ بات محترم جج صاحب کو معلوم تھی کہ مالک نریندر مودی یا آدتیہ ناتھ یوگی ہیں پھر اس کے لئے 40 دن کی بحث کیا صرف ڈرامہ تھا؟
دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی و دیگر نے اجودھیا کے فیصلہ کے بارے میں عدم اطمینان کیا ہے فرمایا کہ حالیہ فیصلہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ ہے فیصلہ کی کاپی موجود نہیں ہے لیکن خلاف توقع فیصلہ سے توقعات کے مطابق نکالنا بے سود ہے جو سمجھ سے باہر ہے اس کے باوجود ملک میں امن امان ہر قیمت پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شرانگیزی کرنے والوں کو لگام دے۔
سپریم کورٹ کے پانچوں ججوں نے اتفاق رائے سے فیصلہ کرلیا ظاہر ہے یہ بہت بڑی بات ہے لیکن ایک مسلمان تو یہ محسوس کررہا ہے کہ محترم جج صاحبان اس پر تو متفق ہوگئے کہ مسجد کی عمارت کے نیچے کوئی مندر نہیں تھا۔ ہم نے دیکھا تو نہیں لیکن سنا ہے کہ زمین کے نیچے کچھ نہ کچھ تھا اور وہ کچھ بھی ہوسکتا ہے؟ جبکہ ہمارے مخالف فریق کی روزِ اوّل سے دلیل یہ تھی کہ اس جگہ شاندار رام مندر تھا جسے میرباقی نے توڑکر اس پر مسجد بنائی اور کھدائی کے بعد یہ الزام غلط نکلا اور مسجد کے نیچے یہ نہیں معلوم کہ کتنی نیچے؟ بہرحال نیچے کچھ نکلا جو نہ مندر ہے نہ مندر کا ٹکڑا ہے مگر زمین چونکہ اب حکومت کے قبضہ میں ہے اس لئے وہ اس زمین کو رام مندر کے لئے دے رہے ہیں اور پانچ ایکڑ اجودھیا میں مسلمان لے لیں۔
اسدالدین اویسی صاحب نے اس طرح ناک بھوں چڑھائی ہے جیسے ہندوستان کے مسلمان صرف وہی ہیں جبکہ پانچ ایکڑ زمین 20 کروڑ مسلمان انشاء اللہ اگر کھجور پیدا ہوئیں تو ایک ایک کھجور سب کو مل جائے گی۔ بہرحال یہ اویسی صاحب کا مسئلہ ہے جس دن مختار عباس نقوی نے اپنے گھر بلاکر اپنی صدارت میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو ہر حال میں قبول کرنے کی عہد و پیمان لیا تھا لیکن جن حضرت نے ہر بات قبول کرنے کا وعدہ کیا تھا انہوں نے سوچا تھا کہ گوگوئی صاحب اتنا تو ضرور کریں گے کہ اتنا مسلمان کو ملنا چاہئے اور اتنا ہندوؤں کو اور مٹھی بند رکھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولانا محمود مدنی نے شدت سے فیصلے کو تسلیم کرنے کا وعدہ کیا تھا انہوں نے کہا ہے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ حقائق اور سچائی کو نظرانداز کرنے والا۔ اور ایسے جیسے جتنے ردعمل سامنے آتے ہیں وہ صرف اس لئے کوئی مسلمان سوچ نہیں سکتا تھا کہ جس وقت یہ مان لیا جائے گا کہ مسجد کے نیچے کسی مندر کا ڈھانچہ نہیں نکلا تو ہر ہندو تسلیم کرے گا کہ ہمیں گمراہ کیا گیا۔
مولانا کو تو اس کی تکلیف ہے کہ عدالت نے راتوں رات مسجد میں مورتی رکھنے کے فیصلے کو غلط بتایا اور دن کے اُجالے میں اتنی بھاری بھرکم مسجدوں کا وزن ہوتا ہے اتنی ہی وزن والی مسجد کو گرانے کے منظر کو دیکھا اور ایک ان کی سزا بھی نہیں دی کہ تم مندر میں قدم رکھ سکتے تھے۔ بات غیرمتعلق ہی سہی لیکن جب یہ مان لیا گیا کہ مسجد کے نیچے کوئی مندر نہیں تھا تو ہندوؤں کا مقدمہ ختم ہوگیا۔ اب اس کے بعد جو دیا جاتا وہ مسلمانوں کی رائے سے دیا جاتا۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ جج صاحبان نے مسلمانوں کی طرف دیکھا ہی نہیں۔ لیکن یہ بات سب کہہ چکے ہیں اور بار بار کہہ چکے ہیں۔
ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ آٹھ تاریخ کو این ڈی ٹی وی انڈیا کے ایک رپورٹر ونے کٹیار کے پاس گئے اور خبر سنائی کہ کل اجودھیا کا فیصلہ سنا دیں گے انہوں نے کہا کہ وہ آئے گا تو دیکھیں گے رپورٹر صاحب نے مزید کہا کہ اب کاشی اور متھرا تو آپ چھوڑ دیں گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ چھوڑتے ہم کسی کو نہیں ہیں۔ اور وہاں سے اُٹھ کر انہوں نے ہر اس آدمی سے کہا جو اُن کو ملا کہ ونے کٹیار تو کہتے ہیں کہ ہمارا کاشی اور متھرا تو باقی ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لیڈر کم بولتا ہے رپورٹر حلق میں ڈالتا ہے اور انگلی سے نکال لیتا ہے۔ دن کے بعد سے میں کاشی متھرا کا یہ واقعہ درجنوں بار سن چکا ہوں جس کی حقیقت معلوم ہے۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں