ان پہيليوں پر سرسرى نظر نه ڈاليں بلكه انہيں بوجهنے كى كوشش كريں از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى ، آكسفورڈ ايک ماں كے تين بيٹے ہيں، پهلا بيٹا ماں كا پكايا ہوا كهانا بے دلى سے كهاتا ہے، اس ميں عيب نكالتا ہے، اور اس كى نا قدرى كرتا ہے، اسے نه ماں كى […]
ان پہيليوں پر سرسرى نظر نه ڈاليں بلكه انہيں بوجهنے كى كوشش كريں
از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى ، آكسفورڈ
ايک ماں كے تين بيٹے ہيں، پهلا بيٹا ماں كا پكايا ہوا كهانا بے دلى سے كهاتا ہے، اس ميں عيب نكالتا ہے، اور اس كى نا قدرى كرتا ہے، اسے نه ماں كى قربانيوں كا علم ہے، نه اس كى محبت فراواں كا اور نه اس كى رحمدلى كا، وه ان سب باتوں سے بے نياز اپنے آپ ميں مست ہے، اسے اگر غرض ہے تو صرف لذت اندوزى سے، اور اسے اگر كوئى فكر ہے تو صرف منافع خورى كى ۔
دوسرا بيٹا ماں كے كهانے كو تحسين كى نگاه سے ديكهتا ہے، اسے حيرت ہوتى ہے كه ماں اتنا لذيذ كهانا پكاتى ہے، وه ماں كى تعريف كرتا ہے، وه اس كهانے كو اپنى شاعرى كا موضوع بناتا ہے، لوگ اس كى قادر الكلامى كے گن گاتے ہيں، اسے شاعر دوراں اور صاحب اعجاز بيان گردانتے ہيں ۔
تيسرے بيٹے كو جستجو ہوتى ہے كه ماں كهانا كس طرح پكاتى ہے؟ وه شب وروز اس كے پكانے كا جائزه ليتا ہے، پهر اسے اندازه ہوتا ہے كه كس طرح ماں محنت كرتى ہے، پيسے كماتى ہے، بازار جاكر كهانے كى اشياء خريدتى ہے، گهر آكر كئى گهنٹے مطبخ ميں گزارتى ہے، گرمى وسردى برداشت كرتى ہے، اپنا آرام قربان كرتى ہے، پكانے ميں ترتيب كا خيال ركهتى ہے، مختلف چيزيں تناسب سے ديگچى ميں ڈالتى ہے، بار بار كهانا چكهتى ہے، اور اسى طرح بہت سى جزئيات كا اہتمام كرتى ہے، تب جاكر كهانا تيار كرتى ہے، وه بيٹا سوچتا ہے كه ہر روز ماں كهانا اتنى توجه سے كيوں پكاتى ہے، تو اسے اندازه ہوتا ہے كه ماں كو اپنے بچوں سے غير معمولى محبت ہے، اس كى محبت فاسد نيت اور اغراض سے پاك ہے ۔
اس تيسرے بچے كا دل جذبۂ شكر سے لبريز ہوجاتا ہے، ماں كے احسانات كے تلے خود كو دبا ہوا محسوس كرتا ہے، اس كى محبت كى چنگارى اسے ايك عجيب لذت سے سرشار كرتى ہے، اس كا تعلق ماں سے بڑه جاتا ہے، وه اس كى تعظيم كرتا ہے، اس سے محبت كرتا ہے، اور اس كى خدمت دل لگا كر كرتا ہے، اور اس ميں اسے جو لطف ملتا ہے وه بيان سے باہر ہے، بلكه وه چاہتا ہے كه ماں كى خاطر خود كو قربان كردے، اسے ماں كى كوئى تكليف برداشت نہيں ہوتى، وه اس كا تصور بهى نہيں كرسكتا كه اس كى ماں كو كوئى اذيت پہنچے ۔
بالعموم اس دنيا كى ہر چيز كے متعلق ہمارا رويه پہلے بيٹے كى طرح ہے، بے تعلقى، بے نيازى، نادانى، اور ناقدرى وناشكرى، ہم اس كائنات كو ايك ہرى بهرى چراگاه سمجهتے ہيں، اور ہم اس كے بہائم چرنده ہيں، ادهر منه مارا اور ادهر منه مارا ۔
كچه لوگ دوسرے بيٹے كى طرح ہيں، كوئى چيز اچهى لگى تو اس پر استعجاب كرديا، سورج كى تعريف كردى، پهول اور پودوں كى ستائش كى، كوه وبياباں كى مدح سرائى كى، اور زمين وآسمان كے مظاہر پر حيرت كا اظہار كرديا، بعضے ايسے بهى ہيں جو تخليق كے كرشموں پر اشعار كہتے ہيں، اور اپنى معجز بيانى سے خود خوش ہوتے ہيں اور دوسروں كو بهى سرشار كرتے ہيں ۔
بمشكل كوئى ايسا ہے جو ہر چيز پر گہرى نظر ڈالے، اس كا مطالعه كرے، اس كے رازہائے سر بسته معلوم كرے، اور ايك كڑى كو دوسرى كڑى سے ملائے، آيات وآلاء سے رب تك رسائى حاصل كرے، اس كى صفات سمجهے، اس كے علم وقدرت كى نشانيوں كا ادراك كرے، اور اس كى محبتوں اور رحمتوں كى گہرائى اور گيرائى كے كنه تك پہنچنے كى كوشش كرے ۔
سچى بات يه ہے كه اگر كائنات كى معرفت ہوگى تو رب كائنات كى معرفت ہوگى، اور اگر مخلوقات پر نگاه بيگانگى ڈالى جائے گى، تو خالق سے بهى بيگانگى ہوگى بلكه يه بيگانگى بڑهتى جائے گى ۔
آپ اس كائنات كو چيستاں سمجهيں، اس كى ہر چيز كو معمہ گردانيں، جب كسى تخليق پر نظر ڈاليں تو اس كے ساته پہيلى كا معامله كريں، اور پهر اس پہيلى كو بوجهنے كى كوشش كريں، اور جب تك پہيلى بوجه نه ليں چين سے نه بيٹهيں، اور جب آپ چند پہيلياں بوجه ليں گے تو دوسرى پہيلياں بوجهنا آسان ہو جائے گا، پهر آپ كو اپنى زندگى كى سب سے بڑى لذت حاصل ہوگى، وه لذت جو آپ كو مست كردے گى، غم دوراں سے آپ كو بے نياز كردے گى، اور زمان ومكان كے قيود وحدود سے آپ كو آزاد كردے گى ۔
معموں كو حل كرنے كا ہنر نيوٹن سے سيكهيں، اس نے ايك درخت سے سيب كو زمين پر گرتے ہوئے ديكها تو اسے يه ايك چيستاں معلوم ہوا، سيب زمين كى طرف كيوں آيا؟ آسمان كى طرف كيوں نہيں گيا؟ اور پهر اسے اس وقت تك سكون نہيں ملا جب تك اسے اپنے سوالوں كا جواب نہيں ملا، پہيلى بوجهنے كى اس شديد خواہش كا نتيجه تها كه اس نے زمين كى كشش دريافت كى، يہاں كچه اور معمے تهے جن پر اس نے غور نہيں كيا، وه يه كه كس نے سيب بنايا؟ اسے كس طرح بنايا؟ كس نے زمين كے اندر كشش بنائى؟ اور وه سب اس نے كيوں كيا؟ اس طرح كے دقيق معموں كے حل كرنے كا ہنر حضرت ابراہيم عليه السلام كو معلوم تها، بلكه تمام پيغمبر كائنات كو پہيلى سمجهتے تهے اور پهر اسے بوجهنے كى كوشش كرتے تهے، ان كى سنتوں پر گام زن ہوں، اور "قل رب زدني علما" كو ورد حال كريں ۔
جب آپ خدا كى كتاب پڑهيں تو قاريوں كى طرح الفاظ پر اكتفا نه كريں، گا گا كر اور مختلف الحان سے پڑهنے كو تلاوت كا نام نه ديں، اديبوں كى طرف قرآن كے اعجاز پر حيرت كناں نه رہيں، اور ان كى تقليد ميں مفردات وتراكيب كى تحليل كو اپنے علم كى معراج نه تصور كريں، بلكه ہر آيت كو مختلف حيثيتوں سے معمہ سمجهيں، اسے حل كريں، خواه اس ميں كتنا ہى وقت نه صرف ہو، آپ امام طبرى، علامه زمخشرى اور امام ابن تيميه سے سيكهيں كه وه كس طرح ايك ايك آيت پر طرح طرح كے سوالات كرتے ہيں، اور پهر انہيں حل كرنے كى كوشش كرتے ہيں، عصر حاضر ميں مولانا حميد الدين فراہى نے قرآن كى پہيليوں كو بوجهنے كى جو كوشش كى ہے صديوں ميں اس كى نظير نہيں، اس كى كچه جهلك سيد قطب كے يہاں بهى ملتى ہے، آپ ان دونوں كى تحريروں كا بنظر غائر مطالعه كريں، اور تدبر كتاب الہى كو اپنى خو بنائيں ۔
آپ بخارى شريف كو كسى مسلك وعقيده كى عينك سے نه ديكهيں، آپ امام بخارى كى عظمت كے گيت نه گائيں، ختم بخارى كے شاندار جلسے نه كريں اور جشن بخارى كے لئے اشتہار بازى نه كريں، بلكه اس كتاب كے معموں كو حل كرنے پر لگ جائيں، امام بخارى نے جو حديثيں كتاب ميں شامل كى ہيں غور كريں كه انہيں كيوں شامل كيا ہے؟ جو حديثيں شامل نہيں كى ہيں ان كے پيچهے كيا اسباب ہىں؟ امام بخارى كا كہنا ہے كه انہوں نے بہت سى صحيح حديثيں چهوڑ دى ہيں، آپ تحقيق كريں كه جو حديثيں انہوں نے چهوڑ دى ہيں اور جو داخل كى ہيں كيا ان دونوں ميں كوئى فرق ہے؟ وه كون سى حديثيں ہيں جن كے لئے وه متابعات وشواہد كا اہتمام كرتے ہيں؟ حديثوں سے وه مسائل كس طرح مستنبط كرتے ہيں؟ قرآنى آيات سے وه كيسے استشہاد كرتے ہيں؟ يه سوالات چند نمونے ہيں آپ كے ذہن كو مہميز لگانے كے لئے، ورنه يه كتاب معموں سے پر ہے، اس ميں وه اسرار وحقائق پنہاں ہيں جو اہل علم كى آنكهوں سے نيند اچك ليتے ہيں ۔
آپ خدا كى ہر تخليق اور اس كے ہر امر كے متعلق جستجو ويافت كا يہى رويه ركهيں، آپ كى مثال اس ماں كے تيسرے بيٹے كى ہوگى، آپ كو صحيح معرفت حاصل ہوگى، الله تعالى كے علم، قدرت اور رحمت كے راز يكے بعد ديگرے آپ پر فاش ہوں گے، اور يہى ہے وه ملكوت السماوات والأرض جس كى سير حضرت ابراہيم عليه السلام كو كرائى گئى تهى ۔
جب آپ خلق وامر كے ہر جزء كو معمہ سمجهيں گےاور پهر اسے حل كريں گے تو آپ كا دل جذبۂ شكر سے لبريز ہوگا، آپ اپنے رب كى قربت كے منازل طے كريں گے، اور آپ ولايت خاصه پر سرفراز ہوں گے ۔
نوٹ : مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں