کون تھے حاتم طائی؟

یوں کسی زمانے میں میر امن دہلوی نے بھی حاتم طائی کو بنیاد بنا کر’باغ و بہار‘ کے عنوان سے قصہ چہار درویش میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے ہیں جبکہ حاتم دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی شخصیت ہیں جن کی سخاوت ضرب المثل ہے تاہم غنیمت یہ ہے کہ اہل علم نے اس جانب خاصی تفصیلات مجتمع کی ہیں۔ان شمار عرب کے نامور شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کا دیوان پہلی بار رزق اللہ حسون نے لندن سے 1876میں شائع کیا۔ 1897 میں دیوان کا ترجمہ جرمن زبان میں چھپا۔ایک موقع پر جب ان سے پوچھا گیاکہ سخاوت میں کیا کوئی شخص ان سے آگے بڑھا ہے؟توحاتم نے جواب دیاکہ ہاں‘ قبیلہ طے کا ایک یتیم بچہ مجھ سے زیادہ سخی نکلا جس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ دوران سفر میں شب بسری کیلئے ان کے گھر گیا، اس کے پاس دس بکریاں تھیں، اس نے ایک ذبح کی، اس کا گوشت تیار کیا اور کھانے کیلئے مجھے پیش کر دیا۔ اس نے کھانے کیلئے مجھے جو چیزیں دیں ان میں مغز بھی تھا۔ میں نے اسے کھایا تو مجھے پسند آیا۔ میں نے کہاکہ’واہ سبحان اللہ! کیا خوب ذائقہ ہے۔‘یتیم بچہ فوراً باہر نکل گیا اور اس نے تمام بکریاں میری لا علمی میں ایک ایک کر کے ذبح کر ڈالیں اور سب کے مغز مجھے پیش کئے۔ جب میں کوچ کرنے لگا تو دیکھا کہ گھر کے ارد گرد ہر طرف خون ہی خون بکھرا پڑا ہواہے۔ میں نے اس سے کہاکہ’آپ نے تمام بکریاں کیوں ذبح کیں؟‘اس نے کہاکہ’واہ، سبحان اللہ‘آپ کو میری کوئی چیز اچھی لگے اور میں اس پر بخل کروں، یہ عربوں کیلئے بدترین گالی ہے۔‘حاتم سے پوچھا گیاکہ’ بدلے میں آپ نے اسے کیا دیا؟‘توانہوں نے کہاکہ’تین سو سرخ اونٹھنیاں اور پانچ سو بکریاں۔‘ان سے کہا گیاکہ’‘تو پھر آپ اس سے بڑے سخی ہوئے۔‘انہوں نے جواب دیاکہ’نہیں وہ مجھ سے زیادہ سخی ہے، کیونکہ اس نے اپنا سب کچھ لٹا کر سخاوت کی جبکہ میں نے تو اپنے بہت سے مال میں سے تھوڑا سا خرچ کر کے سخاوت کی ہے۔
مہمان نوازی:
حاتم طائی کے گھر کوئی بھی مہمان آجاتا وہ اس کی عزت و تکریم میں کوئی کسر اٹھانہ رکھتے تھے بلکہ وہ خود مہمانوں کی تلاش میں لگے رہتے تھے اور آگ روشن کرکے ان کو آوازیں دیا کرتے بلکہ اپنے غلام کو خوشخبری دیتے تھے کہ اگر اس آگ کی وجہ سے کوئی مہمان ہمارے گھر آگیا تو تم آزاد ہوجاوگے۔ قیصر روم کو جب حاتم طائی کی سخاوت کی خبریں پہنچیں تو اس نے اپنے مصاحبوں سے پوچھا کہ حاتم کو کون سی چیز سب سے زیادہ محبوب ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ وہ اپنے گھوڑے سے بہت زیادہ پیار کرتا ہے۔ قیصر روم نے اپنے نمائندہ سے کہا اس سے وہ گھوڑا میرے لئے مانگ لاو۔ جب قیصر روم کا نمائندہ حاتم کے پاس پہنچا تو اتفاق سے حاتم کے پاس کھانے کیلئے اپنے ذاتی گھوڑے کے علاوہ اور کوئی چیز موجود نہیں تھی‘ حاتم طائی نے اپنا وہی گھوڑا ذبح کرکے اس کی دعوت کردی۔جب کھانا کھاچکے تو قیصر روم کے نمائندے نے حاتم طائی سے اس کے گھوڑے کے متعلق دریافت کیا۔ حاتم نے بتایا کہ یہ اسی گھوڑے کا گوشت ہی تو تھا اس پر وہ نمائندہ بے اختیار پکار اٹھا اللہ کی قسم میں نے حاتم طائی کو جتنا سنا تھا اس سے کچھ زیادہ ہی پایا ہے جبکہ حاتم طائی کا زمانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے پہلے کا ہے تب گھوڑے کا گوشت حلال تھا۔
ایمان لانے کا واقعہ:
اپنی سخاوت کیلئے ضرب المثل حاتم طائی کی وفات کے بعد ان کے قبیلے کی سلطنت کی ذمہ داری ان کے بیٹے عدی کو سونپ دی گئی اور پورے قبیلے نے اپنی آمدنی کا چوتھائی حصہ ان کے مخصوص کر دیا اور ان کے حکمران بننے پر خوشی کا اظہار کیا۔جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانیہ طور پر اسلام کی دعوت پیش کی اور عرب جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے تو یہ صورتحال دیکھ کر عدی نے خطرہ محسوس کیا کہ اگر عام لوگ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے متاثر ہوتے رہے تو بالآخر ہماری سلطنت بھی جاتی رہے گی اس لئے انھوں نے اسلام کی اشاعت روکنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض و عناد کی انتہا کر دی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت کا یہ سلسلہ 20 سال تک جاری رہا۔بعد میں عدی بن حاتم اسلام قبول کرکے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاکے دست مبارک پر مسلمان ہوئے جو9ہجری کا زمانہ بتایا جاتا ہے۔
مسلمانوں کی سی خوبیاں:
ابتدا میں وہ عیسائی تھے جبکہ اسلام کو عیسائیت کا رقیب سمجھتے تھے جبکہ سردار ہونے کی وجہ سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اقتدار ان کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا۔ ان کی سازش سے یمن کے قبیلہ طے نے بغاوت کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان دنوں یمن کے گورنر تھے۔ انہوں نے بغاوت کو ختم کیا اور بغاوت کے لیڈروں کو گرفتار کرکے مدینہ بھیج دیا۔ ان میں عدی کی بہن سفانہ بنت حاتم بھی تھی، وہ بھی حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوئیں تو انھوں نے کہا کہ میں سخی حاتم طائی کی بیٹی ہوں، میرا باپ بھوکوں کا پیٹ بھرتا تھا اور غریبوں پر رحم کرتا تھا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تیرے باپ میں مسلمانوں کی سی خوبیاں تھیں۔ عدی کی بہن نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر عرض کیا کہ میری آپ سے ایک درخواست ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو قبول فرماکر مجھ کوشکریہ کا موقع دیجئے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ کیا۔ عدی کی بہن نے کہا کہ’ملک الوالد وغاب الوافد، فامنن علی من اللہ علیک‘یعنی میرا والد فوت ہوچکے ہیں‘ میرا محافظ یعنی بھائی بھاگ گیاہے۔ آپ مجھ پر احسان فرمائیںیعنی آزاد کردیں تو اللہ تعالیٰ آپ پر احسان فرمائے گا۔میر ابھائی آپ کی فوج سے خوفزدہ ہوکر شام کے علاقہ میں بھاگ گیا ہے۔ آپ مجھ کو اجازت دیں کہ میں اس کو لے آؤں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لئے ایک امن نامہ لکھ دیجئے۔ 
بہن کی داد رسی:
یہ سن کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چپ چاپ چلے گئے اور کچھ جواب نہیں دیا۔ دوسرے روز پھر وہاں سے آپ کا گزر ہوا تو پھر اس نے وہی درخواست دہرائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم جلدی کیوں کرتی ہو، جب تمہارے علاقہ سے کوئی آئے گا جس پر تم کو اعتماد ہو، اس کیساتھ چلی جانا۔ چنانچہ چند یوم بعد ان کے رشتہ داروں میں سے چند اشخاص آگئے۔ عدی کی بہن کہتی ہے کہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے رشتہ داروں میں سے ایسے لوگ آگئے ہیں جن پر مجھ کو اعتماد ہے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے کپڑے کے جوڑے بھیج دئے اور میرے لئے زادراہ اور سواری مہیا فرمائی۔ میں اپنے قرابت داروں کیساتھ بھائی کے پاس پہنچ گئی۔ عدی فرماتے ہیں کہ میں اپنے بال بچوں میں بیٹھا ہوا تھا کہ دور سے مجھ کو چند سواریاں نظر آئیں، وہ دیکھتا کیا ہوں کہ میری بہن ہے۔ ابھی سواری سے اتری بھی نہ تھی۔ کہ مجھ کو برا بھلا کہنا شروع کیا کہ تو بڑا ظالم ہے، قاطع رحم ہے۔ اپنے بال بچوں کو اٹھا کر لے گیا اور بہن کو یہاں چھوڑ گیا۔ 
خدمت اقدس میں حاضری:
چونکہ باتیں سچ تھیں اور میرے پاس کوئی عذر بھی نہ تھا، میں بہت شرمندہ ہوا میں نے کہا۔ مجھ کو معاف کردے پھر میں نے اپنی بہن سے رسول اللہ کے متعلق استفسار کیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا تو خیال ہے کہ تم جلدی ان کی خدمت میں حاضر ہوجاؤ۔ اگر وہ نبی ہیں تو تم کو جلدی سبقت کرنی چاہئے اور اگر وہ بادشاہ ہیں تو تمہاری عزت میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اور میں ان کیساتھ سوار ہوکر مدینہ پہنچ کر مسجد نبوی میں داخل ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے۔ میں نے سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ عدی بن حاتم طائی ہو۔ آپ مجھے اپنے ساتھ گھر لے چلے، راہ میں ایک بڑھیا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں شروع کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں کھڑے رہے۔ جب تک بڑھیا کی داستان ختم نہ ہوئی، میں نے سوچا کہ بادشاہ اس طرح ضعیفہ بڑھیا عورتوں کے روکنے سے نہیں رکا کرتے۔ محمد بادشاہ نہیں ہیں۔ گھر میں داخل ہوئے جس گدے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھا کرتے تھے، میری طرف سرکا دیا۔ گدا ایک ہی تھا۔ میں نے عرض کیا۔ نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بیٹھئے! فرمایا، نہیں آپ بیٹھیں چنانچہ میں گدی پر بیٹھ گیا۔ اور رسول اللہ زمین پر بیٹھ گئے۔ اب مجھے یقین ہوگیا کہ آپ بادشاہ ہرگز نہیں ہیں۔ بیٹھتے ہی فرمایا کہ’ عدی تم رکوسی ہو۔‘واضح رہے کہ رکوسی عیسائیوں کا ایک فرقہ تھا۔
تین امور کی اطلاع:
میں نے جواب دیا ہاں پھر فرمایا تم اپنی قوم سے پیداوار اور مال غنیمت لیتے ہو، میں نے کہا‘ جی ہاں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تمہارے دین کے تو خلاف ہے۔ عدی نے کہا بے شک۔ اب میں نے دل میں سوچا کہ ہو نہ ہو، یہ نبی ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے عدی تم کو یہ امر مانع ہوا کہ مسلمان نہایت مفلس، قلاش اور غریب ہیں، عدی وہ وقت آنے والا ہے کہ مسلمانوں کے پاس اتنا مال آئے گا کہ کوئی زکوٰۃلینے والا نہیں ملے گا۔ اے عدی شاید تم کو یہ چیز مانع ہے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں بڑی بڑی زبردستی سلطنتیں ہیں۔ دشمنوں کے پاس بے شمار فوجیں اور وہ ہر طرح کے ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔ عدی وہ وقت آنے والا ہے کہ مسلمانوں کی سلطنت اتنی وسیع ہوجائے گی اور ایسا زبردست انتظام ہوگا کہ ایک عورت تن تنہا قادسیہ‘کوفہ سے کئی میل دور فاصلہ پرواقع‘ سے چلے گی اور خوفناک جنگلوں کو طے کرتی ہوئی مدینہ میں داخل ہوجائے گی۔ عدی شاید تم کو یہ مانع ہے کہ سردست مسلمانوں کی سلطنت بہت تھوڑی ہے۔ عدی خدا کی قسم ایک وقت آنے والا ہے کہ اسلامی فوجیں کسریٰ جیسی سلطنت کو پاش پاش کر ڈالیں گی۔ عدی! کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم پڑھو اللہ اکبر‘ اللہ بہت بڑا ہے۔ 
کب ہوا انتقال؟
حضرت عدی کہتے ہیں کہ یہ تقریر سن کر میں اسی وقت مسلمان ہوگیا اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔یہی حضرت عدی رضی اللہ عنہ جو حاتم طائی مشہور سخی کے صاحبزادے ہیں، فرماتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جو تین امور بیان فرمائے، وہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا جبکہ تیسری بات بھی پوری ہوگی‘ انشااللہ
1۔ میرے سامنے کسریٰ کی زبردست سلطنت پاش پاش ہوگئی۔
2۔ میری آنکھوں کے سامنے قادسیہ سے ایک عورت تن تنہا خطرناک جنگلوں کو طے کرتی ہوئی صحیح و سلامت مدینہ طیبہ پہنچ گئی۔
مجھے یقین ہے کہ تیسری بات بھی پوری ہوگی۔چنانچہ یہ تیسرا امرحضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے دور خلافت میں پوراہوا کہ لوگوں کو زکوٰۃلینے والا نہیں ملتا تھا۔ شام کے اسلامی لشکروں میں شامل رہے اور عراق کی فتح میں شامل تھے اور بعد میں جنگِ جمل اور جنگِ صفین میں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے شرکت کی۔ جنگ یرموک میں 60 ہزار رومی افواج کے مقابلے میں حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ نے محض60 مسلمانوں کو منتخب کر کے کھڑا کیا اور جنگ جیتی۔ ان60 افراد میں حضرت عدی بن حاتم بھی شامل تھے۔بعض روایات کے مطابق حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے 120 سال کی عمر پاکر 68ھ میں مختار ثقفی کے دور میں کوفہ میں انتقال فرمایا ۔
اسلام پھیلنے کا ذریعہ:
حضور سرر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق عظیم ایسا ہے کہ نہ صرف غیر معترف بلکہ اس کے اثر سے سخت مخالفین بھی قبول اسلام پر مجبور ہوئے۔ جولوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا، اس واقعہ سے ان کی تردید ہوتی ہے کہ حاتم طائی کی بیٹی کے تاثرات بتاتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام تلوار کے زور سے نہیں، خلق و کمال سے پھیلایا۔ عدی بن حاتم کے تعارف کے بغیر ان کے حالات خود بتائے کہ رکوسی ہو اور قوم سے پیداوار اور غنیمت وصول کرتے ہو اور ساتھ فرمایا یہ تمہارے دین کے خلاف ہے اور ان کے دل کی بات بھی ظاہر کردی کہ تم کو دین اسلام میں داخل ہونے سے فلاں امر مانع ہے۔ حضرت عدی رضی اللہ عنہ کو انہی امور کی تصدیق نے اسلام لانے پر مجبور کردیا ۔

«
»

مر اعشق بھی کہانی ،تر ا حسن بھی فسانہ

پیرس حملہ : امن عالم کے لئے ٹھوس لائحہ عمل کی ضرورت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے