ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت داخلہ میں اس وقت کے انڈر سکریٹری آر وی ایس منی نے تقریباً 2ماہ کے اندر گجرات ہائی کورٹ میں 2 حلف نامے داخل کئے جبکہ دونوں میں عشرت کے پس منظر کے بارے میں متضاد نظریے پیش کئے گئے۔ 6اگست 2009کو داخل حلف نامہ میں عشرت جہاں اور دیگر 2افراد کو دہشت گرد ڈکلیر کیاگیا جبکہ 30ستمبر 2009کو داخل حلف نامہ میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ کہنے کیلئے پختہ ثبوت نہیں ہیں کہ وہ ایک دہشت گرد تھی۔ بھولی بھالی سی بی آئی نے اس معاملہ پر منی سے پوچھ گچھ کی تھی لیکن اسے کوئی اطمینان بخش جواب نہیں ملا۔بیچاری جانچ ایجنسی نے اب اس اطلاع سے متعلق فائلیں طلب کی ہیں جن کی بنیاد پر موقف تبدیل ہوئے۔ دوسری جانب وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے نے اس معاملہ میں طفلانہ تسلی دی ہے کہ اگر انٹلی جنس بیورو کا کوئی افسر قصور وار پایا جاتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
سیاسی تحفظ اور پشت پناہی:
مسئلہ محض عشرت کا ہی نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں آزادی کے بعد ہزاروں مسلم مخالف فسادات ہوئے جن میں لاکھوں افرادموت کی نیند سوگئے ‘یہ الگ بات ہے کہ1984سکھ مخالف فساد وفاقی حکومت کیلئے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں۔ امریکہ میں سکھوں کی تنظیم ’سکھس فار جسٹس‘ نے ایک مقدمے میں ہندوستان کی کانگریس پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی کیخلاف شواہد فراہم کرنے والے کیلئے 20 ہزار ڈالر کے انعام کانہ صرف اعلان کیاگیا ہے بلکہ اس سلسلہ میں تنظیم نے اخبار میں اشتہار بھی شائع کروادایا ہے۔دوسری جانب ملک میں کچھ دنوں سے یہ بحث چل رہی ہے کہ 1984 میں دو دن کے اندر تقریباً 4 ہزار سکھوں کے قتل عام کیلئے راہل گاندھی کو معافی مانگنی چاہئے یا نہیں۔یہ بحث اس وقت شروع ہوئی جب ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران راہل گاندھی سے دہلی کے قتل عام کے بارے میں اس وقت کی کانگریس حکومت کی ذمہ داروں کے بارے میں پو چھا گیاتو راہل گاندھی نے جواب دیا کہ وہ اس وقت بہت چھوٹے تھے۔اس سے قبل گجرات کے وزیراعلیٰ نریندرمودی سے ان کے مخالفین یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ وہ گجرات کے 2002 کے فسادات میں ایک ہزار سے زائد مسلمانوں کی ہلاکت کیلئے مسلمانوں سے معافی طلب کریں جبکہ یہ فسادات یا تو انتظامی نااہلی کے سبب ہوئے ہیں یا پھر حکومت کی پشت پناہی سے ‘اس لئے فسادیوں کیخلاف عموماً کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔مبصرین حیران ہیں کہ ہزاروں انسانوں کے قاتل سیاسی تحفظ اور پشت پناہی کیساتھ بے خوف و خطر گھوم رہے ہیں جبکہ فسادات میں بڑا نقصان ہمیشہ مذہبی اقلیتوں کا ہی ہوتا رہا ہے۔
کھلے عام تباہی اور بربادی:
بابری مسجد شہادت کی طرح گجرات کے فسادات ہندوستان کی تاریخ میں پہلے ایسے فسادات تھے جن کی جیتی جاگتی خوفناک تصاویر لوگوں نے ٹیلی ویژن کے توسط سے پہلی بار براہ راست دیکھیں۔ 1984 سکھ مخالف فسادات اس سے کہیں بڑے پیمانے پر ہوئے تھے اورفسادیوں نے انسانیت کیخلاف جرائم کی نئی تاریخ رقم کی تھی لیکن 4ہزار انسانوں کے قتل اور10 ہزار سے زیادہ انسانوں کو مجروح کرنے کے جرم کی پاداش میں شاید10 افراد کو بھی سزا نہیں ملی۔بالکل اسی طرح جیسے بابری مسجد شہادت کے بعد مسلم مخالف فسادات کے قصور وارشری کرشنا کمیشن رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے باوجود آج بھی قانون کے شکنجہ سے بچے ہوئے ہیں۔اسی طرح گجرات میں بھی یہی صورت حال تھی۔ متاثرین نے حقوقِ انسانی کی تنظیموں کی مدد سے رپورٹیں درج کروائیں لیکن پولیس نے اس طرح ان معاملوں کی تفتیش کی کہ یکے بعد دیگرے سارے کیس منہ کے بل گرگئے۔ بالآخر سپریم کورٹ کی مداخلت سے اس کے مقررہ افسروں نے دوبارہ جانچ کی اور مقدمات میں اب تک سینکڑوں قصورواروں کو سزائیں مل چکی ہیں۔ ان میں مودی کی ایک خاتون وزیر بھی شامل ہیں۔کون نہیں جانتا کہ بابری مسجد کے انہدام کے بعد 1992 ‘93 میں ملک کے کئی شہروں میں کتنے فسادات ہوئے تھے جبکہ سب سے بڑا فساد ممبئی میں ہوا جس میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے تھے۔سری کرشنا کمیشن نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں اہم قصورواروں کی شناخت کی تھی لیکن ایک ہزار سے زیادہ انسانوں کے قتل کیلئے ایک بھی شخص کو سزا نہ دی جا سکی۔
لیڈروں کے دوہرے کردار:
عجیب بات تو یہ ہے کہ اڈوانی کی بدنام زمانہ سومناتھ رتھ یاترا کو بہار میں داخلہ سے روکنے والے سیکیولرلالو یادو 1989 کے بھاگلپورکے فسادات کے بعد اقتدار میں آئے تھے لیکن انھوں نے 15 برس کے اپنے دور اقتدار میں متاثرین کیلئے کچھ نہ کیا جبکہ نتیش کی حکومت بننے کے بعد مقدمہ چلا اور کئی افراد کونہ صرف عمر قید کی سزا ہوئی بلکہ متاثرین کو معاوضہ بھی ملا۔ 1984 کے سکھ مخالف فسادات اس سے کہیں اعلی سطح پر ہوئے تھے اورفسادیوں نے انسانیت کیخلاف جرائم کی نئی تاریخ رقم کی لیکن چار ہزار انسانوں کے قتل اور دس ہزار سے زیادہ انسانوں کو مجروح کرنے کے جرم کی پاداش میں شاید دس افراد کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ایسا نہیں ہے کہ محض مظفر نگر کے حالیہ مسلم کش فسادات اور پناہ گزیں خیموں میں جاری اموات کی سیاہی ملائم سنگھ یادوکے چہرہ پر پتی ہوئی ہو بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ انھوں نے ماضی میں بھی میرٹھ کے ملیانہ اور ہاشم پورہ محلے کے تقرییاً 50 مسلمانوں کا قتل کرنے والے نیم فوجی فورس پی اے سی کے اہل کاروں کو نہ صرف یہ کہ بحال کیا بلکہ ان میں سے متعدد کو ترقی بھی عطا کی۔
اترگئی سماجواد کی قلعی:
حقائق شاہد ہیں کہ ملائم کی حکومت قصور وار اہل کاروں کیخلاف مقدمہ چلانے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہی ہے یہ مقدمہ کئی دہائی سے سماعت کے بغیر پڑا ہوا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخرگجرات کے 1984 کے فسادات کیلئے معافی مانگنے کی سیاست کے درمیان کو ئی یہ مطالبہ کیوں نہیں کر رہا ہے کہ مظفر نگر کے فسادات کے مجرموں کو گرفتار کیا جائے اور انھیں سخت ترین سزائیں دی جائیں؟جبکہ یہ نہ کسی کا ایجنڈہ ہے اور نہ ہی کسی کو اس میں دلچسپی ہے۔اس کی بجائے سیاسی جماعتیں عوامی تقریبات میں اپنے ان رہنماؤں کی عزت افزائی کر رہی ہیں جن پر فسادات برپا کرنے کا الزام ہے۔حالت یہ ہے کہ محض دو چار دن کی حراست کے بعد سبھی آزاد ہیں جبکہ حکمران کانگریس نے 10 برس قبل اپنے انتخابی منشور میں مذہبی فسادات پر قابو پانے اور متاثرین کی موثر مدد کیلئے ایک قانون بنانے کا وعدہ کیا تھا۔10 برس کے بعد جب حکومت ختم ہونے کے قریب ہے اور پارلیمان کا اجلاس ختم ہونے کو ہے تو کانگریس نے پچھلے دنوں ایک بل پیش کیا۔ بل میں بہت ساری خامیاں تھیں جو بحث کے بعد آسانی سے دور کی جا سکتی تھیں لیکن سبھی جماعتوں نے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اسے مسترد کر دیا۔جبکہ مذہبی فسادات ہندوستان کی رنگا رنگ جمہوریت پر بد ترین سیاہی ہیں۔ گذشتہ66برس سے ہزاروں قاتل سیاسی پشت پناہی، تحفظ اور قانون سے ماورا ملک کے مختلف علاقوں میں بے خوف خطر سرگرم ہیں اور انھیں پھر کسی نئے شکار کی جستجو ہے۔شاید ایسے حالات کیلئے ہی غالب نے کہا تھا کہ
آہ کو چاہیے اِک عمر اثر ہونے تک‘
کون جیتا ہے تری زْلف کے سر ہونے تک
جواب دیں