صاحب! کٹورا تھما کے ہی دم لیں گے

 

 

  از۔محمدقمرانجم 

 

گذشتہ دن ہوئی (جی ایس ٹی )کاونسل کی 41ویں اجلاس میں مرکزی حکومت کی جانب سےریاستی حکومتوں سے کئے گئے جی ایس ٹی معاوضہ دینے کے وعدہ کو تورڈیا گیاہے، جب کہ گودی میڈیا اس خبر کو توڑ موڑکر دکھا رہی ہے جوکہ بکاہوا میڈیاہے یہ سبھی لوگ اچھی طرح سے جانتے مانتے اور سنتے آرہے ہیں، جی ایس ٹی کا معاملہ  یہ ایک بہت ہی سنگین اور ملک کے معاشی حالات کو بد سے بدتر کرنے والا معاملہ ہے، 

جب کہ ریاستوں کو ان کے حصے کا پیسہ ملنا چاہئے کیونکہ یہ جمہوری حق ہےاور مرکزی حکومت کو اس پر پابندی لگانے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے

واضح ہو کہ مارچ سے ہی باضابطہ ادائیگی نہیں کی گئی، 

 

گذشتہ دن جو کچھ فیصلہ لیا گیا اس کو آپ اس طرح سمجھیں کہ کسی قرضدار شخص سے آپ کو اپنے پیسے لینے ہوں، اس نے آپ کے ہر مہینے کی قسط باندھ دی ہو، دو سال تک وہ آپ کو حیلے حوالے بہانے کرکے کسی طرح سے(نہ چاہتے ہوئے بھی) پیسہ دیتارہا۔

اب تیسرے سال وہ آپ کو لگاتار چار ماہ تک مہینے کی قسط نہیں دے رہا اور آپ جب روز مانگنے جاتے ہیں تو وہ بول رہاہے کہ اب پیسے تو میں نہیں دوں گا۔

اگر تم کو ضرورت ہوتو تمہیں میں بڑی آسانی کے ساتھ 

بطور قرض روپیہ دلا دیتاہوں، مگر ایک شرط ہے کہ اس ادھار کا بیاض تمہیں ہی چکانا ہوگا۔گذشتہ دن حقیقت میں یہی معاملہ ہوا۔

صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے ریاستی حکومتوں کو مئی جون جولائی اور اگست یعنی مکمل چار ماہ کا معاوضہ دینے سے کلی طور پر انکار کردیاہے،حکومت نے حال میں اس معاملے دیکھ بھال کرنےوالی کمیٹی کو بتایا کہ اسکے پاس ریاستوں کو معاوضہ دینے کے لئے روپئے نہیں ہیں۔

اب  ریاستوں کو تو پیسے چاہیئے، اس لئےانکے وسائل کی حصولیابی میں اضافے کے لئے حکومت نے دوطرح کےطریقے بتائیں ہیں ۔دونوں ہی طریقوں میں مرکزی حکومت اپنی زمہ داری سے سبکدوشی اختیار کررہی ہے۔پہلا طریقہ ٹیکس لےکر۔مطلب یہ کہ ریاستی حکومت اپنا پورا (جی ایس ٹی) معاوضہ جو کہ 2.35 لاکھ کروڑ روپئےہوتا ہے، آر بی آئی سے صلاح و مشورہ کرنےکے بعد بازار سےاٹھائیں(جیسے کہ بازارکے راستے میں 2.35 کروڑ روپئے پڑے ہیں) 

جب کہ دوسرا طریقہ قرض لےکر۔مطلب یہ ہے کہ (آربی آئی)کی صلاح و مشورہ سے ریاستوں کو ایک خاص تجویز دی جائے تاکہ وہ ایک طئے شدہ بیاض در پر 97000 کروڑ روپئے رقم بطورقرض حاصل کریں اور پھر اس پیسےکو پانچ سال کے بعد واپس کریں،

جب کہ دونوں ہی طریقوں میں ریاستوں کو پھانسی پر چڑھانے کے مترادف ہےاور یہ صاف کھلم کھلا دھوکہ دہی مرکزی حکومت کی جانب سے کی جارہی ہے، اگر ریاستوں کو ہورہے نقصان کا 5 سال تک معاوضہ دینے کی بات کی گئی تھی تو معاوضہ دینے کی زمہ داری حکومت کی یے، ریاستی حکومتیں اسکے لئے ادھار کیوں لیں، جب کہ سچ یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے معاشی کیفیت کو پوری طرح سے تہس نہس کردیاہے، 

پہلے پورا ٹیکس سسٹم اپنے ہاتھ میں لے کر (جی ایس ٹی) نافذکرکے سب گڑ گوبر کردیا اور اب جب ملک کی معیشت سنبھالی نہیں جارہی یے تومرکزی حکومت پیٹھ دکھا کر بھاگ رہی ہے اور لوگوں سے بول رہی ہے کہ ادھار لے کر کام چلاؤ، 

قائین کرام!   آپ اس بات سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ملک کا کیا حال ہونےوالا ہے

اب آگے ریاستوں کو کیا دقت پیش آنےوالی یے وہ بھی ملاحظہ فرمالیں، ایس بی آئی کی تازہ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ  ریاستوں کواشیاء اور خدمات ٹیکس کی آمدنی کے حساب سے 53.000 کروڑ روپئے کا خسارہ ہورہاہے اگر ریاستی حکومتیں جی ایس ٹی(ایس جی ایس ٹی) کی گراوٹ کوبھی اس میں جوڑ دیا جائے تو اپریل-جون سہ ماہی کے دوران ریاستوں کی محصولات کی وصولی میں کمی بڑھ کر 1.2 

لاکھ کروڑ روپئے ہوجاتی ہے،ایس بی آئی پیپر کا کہناہے کہ اگر 20 ریاستوں کے سروے میں لگ بھگ 3 لاکھ کروڑ روپئے کی محصلات کی وصولی میں کمی آئی ہے اور مرکزی حکومت کے جی ایس ٹی وصولی کمی کو جوڑ دیاجائے تو آئندہ سال 2021 میں مکمل خسارہ تقریباً 4.5 لاکھ کروڑ روپئے کا ہوگا، 

ریاستوں کو کورونا بیماری سے جنگ کرنے اور مقابلہ کرنے کےلئے زیادہ سے زیادہ 1.7 لاکھ کروڑ روپئے خرچ 

کرنے ہونگے، اگر یہ رقم بھی جوڑی جاتی ہے تو ریاستوں کے لئے مکمل خرچ کی رقم 6.2 لاکھ کروڑ

روپئے ہونگے،کورونا کےوقت میں مودی حکومت نے ریاستوں کو زیادہ تعاون کرنا چاہئے تھا مگروہ تو دور رہا بلکہ جو امدادی رقم دینے کا وعدہ ہواتھا وہ بھی ابھی تک نہیں دیاگیا ہے اب ایسے نازک وقت میں مرکزی حکومت نے اپنے ہاتھ اوپر کر لئے ہیں ان خسارےوالی رقم 6.2 لاکھ  کا بڑی رقم اب ان ریاستوں کو اپنے خزانے سے دینا ہوگا تو اب کس بنیاد پر کہا جارہاہے کہ آربی آئی سے یا بازار سے ریاستیِ ادھار قرض لے لیں،جی ایس ٹی کی حصہ داری جب ریاستی حکومتیں کئی دنوں سے مانگ رہی ہیں تو حکومت بڑی بے شرمی کے ساتھ وعدہ کے مطابق پیسے دینے سے مکر رہی ہے جس سے حکومت کا غیز زمہ دارانہ ہونا اور عوام کو دھوکھے میں رکھنے قابل مذمت ہے

جب کہ ریاستی حکومتوں کا کہناہے مرکزی حکومت واجبات کی ادائیگی کےلئے اپنےعہد کو پورا کرے، 

جب  ریاستیں پہلے ہی سے خسارے میں ہیں

یعنی صاف صاف نظر آرہے کہ ملک کی معاشی حالت اب نازک سے نازک ہونے والی ہے۔ریاستیں اسکے لئے مرکزی حکومت کو مورد الزام کیوں نہیں ٹھہراتی ہیں، 

ابھی کچھ دنوں بعد حالت ایسی ہوجائے گی کہ ریاستیں اپنے حکومتی کارکنان اور اعلی افسران کو تنخواہ تک نہیں دے پائیں گی، ان کی مفادہ عامہ والی اسکیمیں منتشر ہونے لگیں گی توبھی کیا وہ مرکزی حکومت کو موردالزام نہیں گردانیں گی، مانتے ہیں کہ کچھ ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں جہاں سوال نہیں اٹھایا جائے گا مگر دیگر ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومتیں نہیں ہیں وہاں سے سوال اٹھانا لازم ہوگا،کب تک وہ خاموش تماشائی بن کر دیکھتے رہیں گے، ایک نہ ایک دن تو انہیں بولناہی پڑےگا، تب مرکزی حکومت کون سا بہانہ بنائے گی، 

آتم نربھرتا(خودانحصاری) کی رٹ لگانے والو اب اس معاملے پر بھی گفت وشنید کرنے کا وقت آگیاہےدوسری طرف ہندوستان کی عوام جو بہت ہی تیزی کے ساتھ غلامیت کی زنجیروں کواپنے گردن میں ڈالنےکےلئے 

بڑھ رہی یے وہ بھی غور وفکر کرنے کا مقام ہے

ذہنی اعتبار سے دیوالئے، اور زاویہ نظر سے غلام 

یہی تو اصلی بھکتوں کےلئے صاحب کا ماسٹر اسٹروک کارڈ ہےاب ایسی معاشی حالت ہونے کے بعد مرکزی حکومت کہہ رہی ہے کہ اس کو ٹھیک کرنےکے لئے ریاستیں اپنی اپنی رائے پیش کریں۔

صرف اور صرف ڈھونگی اور جھوٹ بولنے والے ایک شخص کے نام پر، نہ جانے کیسے جیسے مختلف قسم کی قوانین ملک میں رائج کرکے سب کچھ برباد کردیاہے صاحب نے،مگرصاحب کی عیاشی میں کوئی کمی واقع ہورہی ہوتوبتاؤ، گھومنےکےلئے8500 کروڑ روپئے کا ہوائی جہاز خریدا جارہاہے، رہنے کے لئے عالیشان کروڑوں کا گھر بنوایا جارہاہے 

اور جی ایس ٹی کی ایک بہت بڑی رقم ٹیکس چھوٹ کے طور پر بڑے امیروں اور تاجروں کو معاف کردیاگیاہے لیکن غریب طبقے کو قرض پر سود تک معاف نہیں کیاگیاکیونکہ یہ سوٹ بوٹ کی سرکارہے غریبوں کی نہیں بلکہ امیروں کی حکومت ہے، 

واضح ہو کہ موریٹوریم  مدت کے دوران ٹالی گئی

(ای ایم آئی) پرسود نہ لینے کے مطالبے کا فیصلہ نہ لینے پر سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت اور آربی آئی کو پھٹکار بھی لگائی تھی، جب کہ 31 اگست کو موریٹوریم کی مدت ختم ہورہی ہے

اتنا سب کچھ ہوجانے کے باجود  آج ایک خاص قسم کے اندھ بھکت  لوگ ہیں جو اس بات کو نہیں مانیں گے، انکے دل ودماغ میں صرف ایک ہی نام ہے، جس کا انجام بہت ہی بھیانک ہونے والا ہے لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔

آخر کٹورا تھما ہی دیاصاحب نے ابھی ریاستی حکومتیں قرض مانگ رہی ہیں اور ان کو اس راستے طریقے پر چلنے کے لئے مرکزی حکومت نے مجبور کیاہے

اسکے بعد عوام بھی جینے کے لئے بھیک مانگے گی یا قرض لے کر زندگی گزارےگی، آخر کار پورا کا پورا گجرات ماڈل بناہی دیا صاحب نے، 

چلو ایک بار مان ہی لیتے ہیں کہ جی ایس ٹی کی درآمد میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن پیٹرول، ڈیزل، ایل پی جی، پر بہت زور وشور سے حکومت کی آمدنی ہورہی یے تو آخر وہ پیسہ کہاں جارہا ہے ،اربوں کروڑوں روپئے عالمی بینک سے بطور قرض لیاگیا ،تو یہ سب پیسہ کہاں گیا، اور کہاں جارہاہے۔

وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنےوالی ہے

تیرے بربادیوں کے مشورے ہیں سیاست دانوں میں

نہ سنبھلوگے تو مٹ جاؤگے  ائے ہندوستاں والو

تہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

 

مضمون نگار۔روزنامہ شان سدھارتھ، سدھارتھ نگر کے صحافی ہیں ۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

29اگست2020 ادارہ فکروخبر

«
»

سود۔۔۔ یعنی انسانوں کو ہلاک کرنے والا گناہ

مذہب اسلام کی تذلیل کاخاتمہ اتحاد ہی سے ممکن ہے!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے