کاٹھیاواڑ کے ساحل پر 2

سفرنامۂ گجرات: مشاہدات وتاثرات (۲)

محمد سمعان خلیفہ ندوی۔ استاد جامعہ اسلامیہ، بھٹکل

دمن کے بارے میں سن رکھا تھا کہ سیروسیاحت کے لیے اچھا مقام ہے، مگر جانے کے بعد اندازہ بالکل غلط نکلا، معلوم ہوا کہ لوگ شراب وکباب کے لیے خصوصا یہاں حاضر ہوتے ہیں۔ یوں بھی ہم جیسے ساحل سمندر پر آباد لوگوں کے لیے قدرتی مناظر کے اعتبار سے یہاں دل چسپی کا سامان کم ہے، پہلے سے اندازہ ہوتا تو شاید پروگرام ہی نہ بنتا، مگر کیا کیا جائے کہ وہاں جاکر دوپہر کا کھانا مقدر تھا، اس لیے دو گھنٹے کا سفر کرکے دمن پہنچے اور کھانے سے فارغ ہوکر اس کے ساحل کا رخ کیا تو بوریت کا احساس ہوا اور وہاں سے فوراً نکلنا طے پایا، کوئی قلعہ بھی وہاں موجود ہے مگر اتفاق سے اس دن وہاں کا راستہ بھی بند پایا گیا۔ پھر کسی پارک میں جاکر بچوں کے لیے بوٹنگ کا نظم کیا گیا تو کسی قدر بچوں کے لیے یہ کار آمد رہا۔ 
واپی کے لیے ہمارے کرم فرما مولانا اکرام صاحب قاسمی کا اصرار تھا، مگر وقت کی تنگ دامانی اور دمن سے ہونے والی کوفت کی وجہ سے پھر پیچھے کی طرف پلٹنے کے لیے طبیعت مائل نہیں ہوئی اور فوراً سورت کی راہ لی گئی۔ سورت پہنچ کر مولانا جنید کپاڈیا سے ملاقات وغیرہ کرکے پھر ایک بار مولوی داؤد وانیس کی ضیافت سے لطف اندوز ہوئے اور “ساحل” پر لنگر انداز ہوئے۔
اب صبح یہاں سے احمد آباد کا سفر درپیش تھا، ٹرین سے صبح نو بجے احمد آباد کے لیے نکلے اور ڈھائی گھنٹے میں احمد آباد پہنچ گئے، یہاں ہماری کوئی خاص مشغولیت نہیں تھی، بس بچوں کے لیے کچھ تفریح اور گھر کے لیے کچھ سامان خریدنا تھا، سو ڈیڑھ دن میں یہ سب کام انجام پائے، البتہ رات کے وقت اٹل برج کا منظر ایک یادگار منظر تھا، رنگ برنگی روشنی میں نہا رہے اٹل برج کا نظارہ بڑا دل فریب تھا، جو عین دبی یا بلو واٹر کی یاد دلا رہا تھا۔ احمد آباد میں قیام اسٹیشن سے قریب موتی محل ہوٹل میں رہا، چوں کہ اگلے دن ہندوپاک کا کرکٹ میچ تھا اس لیے تقریباً تمام ہوٹل بک تھے، پھر بھی چوں کہ ہمیں ایک روز ہی رکنا تھا اس لیے زیادہ دشواری نہیں ہوئی، البتہ احمد آباد کے بازاروں کی بھیڑ ضرور پریشان کرتی رہی۔ اور ہاں، جامع مسجد اور سدی مسجد کو دیکھنے کی خواہش میں اولا کیب کے ذریعے راستہ بھٹک کر سلطان مظفر حلیم کے مقبرے پر بھی تھوڑی دیر کے لیے سہی پہنچ گئے، شاید یہاں قسمت بچوں کو گھڑ سواری کے لیے لے آئی۔ 
ویراول کے احباب کی خواہش تھی کہ احمد آباد سے ویراول کا رخ کیا جائے، بچوں کی صحت کے پیش نظر شاید اگلا سفر دشوار تھا اور اہل خانہ کی طرف سے بھی واپسی کے لیے اصرار، مگر کاٹھیاواڑ کی ان دیکھی دنیا اور وہاں کے احباب کی طرف سے منعقد کیے جانے والے پروگرام مرحلۂ شوق کو ابھی طے نہ کرنے پر آمادہ کررہے تھے۔ مولوی طلحہ پیرانی اور مولانا احمد سورٹھیا دونوں سے قربت تھی، اس سے قبل دونوں بھٹکل تشریف لاچکے تھے اور ادب اطفال کے حوالے سے بڑے فکرمند بھی، اس لیے ایک طرف ان کی محبت بھی تھی تو دوسری طرف کہکشاں کے ساتھیوں کی کشش جس نے مشقت کے باوجود آمادۂ سفر کیا اور اس طرح ہم بھی کاٹھیاواڑ پہنچ گئے۔ 
خوش قسمتی سے مولوی داؤد بھی سفر کے رفیق رہے اور ویراول پہنچنے کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ مولوی داؤد کا وطن اصلی ویراول ہی ہے مگر دس پندرہ برس قبل انھوں نے سورت کی اقامت اختیار کی ہے۔
مولوی زفیف کشمیر کے سفر کو مختصر کرکے اپنے کام سے ممبئی پہنچ چکے تھے اور ادھر عتبان میاں اگلے روز  امتحان میں شرکت کے لیے ندوے روانہ ہوچکے تھے اس لیے طلحہ بھائی کے اصرار پر زفیف میاں اس قافلے میں شامل ہونے کے ارادے سے ممبئی سے آ گئے۔ 
ویراول کا نام یوں تو ٹرین کے حوالے سے سنا تھا، جو ہفتے میں ایک آدھ بار ٹری ویندرم یا کوچو ویلی سے نکل کر بھٹکل واطراف سے گزرتے ہوئے ویراول کا رخ کرتی ہے، پھر ان احباب کی آمد پر اس کا نام ذہن میں محفوظ ہوگیا، ادارہ ادب اطفال کے وفد کے گزشتہ سفر نے بھی اس کے حوالے سے کئی ایک خوش گوار یادیں لوح دل پر نقش کی تھیں مگر علم الیقین کو ابھی عین الیقین کے مرحلے سے آشنا ہونا تھا اس لیے شاید قسمت نے یاوری کی اور ہم اس دیار میں پہنچ گئے۔
ہمارے میزبانوں نے بتایا کہ اس دیار میں پہلے کیسی دینی بہار تھی اور تقسیم ہند کے نتیجے میں یہاں کے ممتاز طبقے کی ہجرت کے بعد یہ بہار کس طرح خزاں میں تبدیل ہوئی اور جو علاقہ کسی وقت علماء کا مسکن تھا زمانے کی آنکھوں نے وہ انقلاب بھی دیکھا کہ آزادی کے بعد اسی سرزمین پر ۲۰۰۸ تک ایک عالم نہیں بچا۔ اللہ سلامت رکھے جواں سال اور جواں عزم مولانا احمد سورٹھیا اور ان کے رفقاء کو، جو ڈابھیل کا فیض پاکر ۲۰۰۸ میں یہاں فروکش ہوئے اور اس وقت سے دین متین کی شمعوں کو فروزاں کرنے میں کوشاں ہیں اور الحمد للہ ان کے مدرسے “جامعہ تقویت الاسلام” میں طلبہ کی تعداد اس وقت پانچ سو تک پہنچ گئی ہے۔
(جاری)
(۱۳ اکتوبر)

 کاٹھیاواڑ کے ساحل پر1

«
»

موت کے بعد آنسو

تاریخِ مسجدِ اقصی ٰ اور اہل فلسطین پر یہود کا ظلم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے