کثرت سے درود شریف پڑھنا درجات کی بلندی اور گناہوں کی معافی کا سبب ہے

    ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
کثرت سے درود شریف پڑھنا درجات کی بلندی اور گناہوں کی معافی کا سبب ہے
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اللہ تعالیٰ نبی پر رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اور فرشتے نبی کے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی نبی پر درود وسلام بھیجا کرو۔ (سورۃ الاحزاب۔آیت ۵۶) اس آیت میں نبی اکرم ﷺ کے اس مقام کا بیان ہے جو آسمانوں میں آپ ﷺ کو حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں میں آپﷺ کا ذکرفرماتا ہے اور آپ ﷺ پر رحمتیںبھیجتا ہے۔ اور فرشتے بھی آپ ﷺ کی بلندی درجات کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کو حکم دیا کہ وہ بھی آپ ﷺ پر درود وسلام بھیجا کریں۔حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی توصحابۂ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ! سلام کا طریقہ تو ہم جانتے ہیں( یعنی نماز میں اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ۔۔۔ پڑھنا) ہم درود کس طرح پڑھیں؟ اس پر آپ ﷺ نے درود ابراہیم بیان فرمایا، جو نماز میںالتحیات پڑھنے کے بعد پڑھا جاتا ہے۔ (صحیح بخاری)  وضاحت: اللہ تعالیٰ کا نبی پر درود بھیجنے کا مطلب آپ ﷺ پر رحمتیں نازل کرنا اور فرشتوں میں ان کا ذکرفرمانا ہے۔ فرشتوں یا مسلمانوں کا آپ ﷺ پر درود بھیجنے کا مطلب آپ پر رحمت نازل کرنے اور بلندی درجات کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ہے۔
حضور اکرم ﷺ کی زبانی درود شریف پڑھنے کے فضائل: جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا، اللہ تعالیٰ اس پر ۱۰ مرتبہ رحمتیں نازل فرمائے گا۔ (مسلم) جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا، اللہ تعالیٰ اس پر ۱۰ مرتبہ رحمتیں نازل فرمائے گا، اس کے ۱۰ گناہ معاف فرمائے گا اور اس کے ۱۰ درجے بلند فرمائے گا۔ (نسائی) درود شریف پڑھنے والے کے خلوص وتقوی کی وجہ سے درود شریف پڑھنے کا ثواب احادیث میں مختلف ذکر کیا گیا ہے۔۔۔ جو شخص مجھ پر بکثرت درود بھیجتا ہے، قیامت کے روز سب سے زیادہ میرے قریب ہوگا۔ (ترمذی)  کثرت سے درود بھیجنا (صغائر) گناہوں کی معافی کا سبب بنے گا۔ (ترمذی) جب تک مجھ پر درود نہ بھیجا جائے، دعا قبولیت سے روک دی جاتی ہے۔  (طبرانی) رسوا ہو وہ شخص جس کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ درود نہ پڑھے ۔ (ترمذی)رسول اللہ ﷺ کا اسم مبارک سن کر درود نہ پڑھنے والے کے لئے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بدعا فرمائی۔ ہلاکت ہو اس شخص کے لئے جس کے سامنے آپ ﷺ کا نام لیا جائے اور وہ درود نہ بھیجے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس پر آمین کہا۔ (حاکم) جس کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ درود نہ پڑھے وہ بخیل ہے۔ (ترمذی)
درود شریف کے الفاظ: درودشریف کے مختلف الفاظ احادیث میں وارد ہوئے ہیں، البتہ مذکورہ الفاظ (درودابراہیم ) سب سے افضل ہے: اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَّعَلَی آلِ مُحَمَّدٍکَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلَی آلِ اِبْرَاہِیْمَ۔ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّّجِیْدٌ اے اللہ! محمد اور آل محمد پر اسی طرح رحمتیں نازل فرما جس طرح تونے ابراہیم اور آل ابراہیم پر نازل فرمائیں۔ آل محمد سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلہ میں علماء کے چند اقوال ہیں۔البتہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ آل محمد سے نبی اکرم ﷺ کی اولاد، ازواج مطہرات، صحابۂ کرام اور دین اسلام کے متبعین مراد ہیں۔ 
درود پڑھنے کے بعض اہم مواقع:۱)  نبی اکرم ﷺ کا اسم مبارک سنتے، پڑھتے یا لکھتے وقت درود شریف پڑھنا چاہئے جیسا کہ احادیث میں بیان کیا گیا ہے۔ صرف fik_صلی اللہ علیہ وسلم بھی کہا جا سکتا ہے۔ ۲) آخری تشہد میں التحیات پڑھنے کے بعد: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب کوئی نماز پڑھے تو اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا سے آغاز کرے۔۔۔ پھر تشہد میں اللہ تعالیٰ کے نبی پر درود بھیجے، اور اس کے بعد دعا مانگے۔ (ترمذی)  نماز کے آخری تشہد میں التحیات پڑھنے کے بعد درود شریف پڑھنا واجب ہے یا سنت مؤکدہ ۔ اس سلسلہ میں علماء کی رائے مختلف ہیں۔البتہ ہمیں ہر نماز کے آخری تشہد میں خواہ نماز فرض ہو یا نفل درود شریف پڑھنے کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔ ۳) اذان سننے کے بعددعا مانگنے سے پہلے: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب مؤذن کی اذان سنو تو وہی کلمات دہراؤ جو مؤذن کہتا ہے۔ پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ مجھ پر درود پڑھنے والے پر اللہ تعالیٰ دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ ۔۔ پھر اذان کے بعد کی دعا (اللّٰہُمَّ رَبَّ ہذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ۔۔۔) پڑھو۔ (مسلم) ۴) جمعہ کے دن کثرت سے درود شریف پڑھیں: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے روز مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، جو آدمی جمعہ کے روز مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ (حاکم وبیہقی) ۵) کوئی بھی دعا مانگنے سے قبل اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد درود شریف پڑھیں: ایک شخص (مسجد میں ) آیا، نماز پڑھی اور نماز سے فراغت کے بعد دعا کرنے لگا۔ یا اللہ مجھے معاف فرما، مجھ پر رحم فرما۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے شخص ! تونے دعا مانگنے میں جلدی کی۔ جب نماز پڑھو اور دعا کے لئے بیٹھو تو پہلے حمد وثنا پڑھو، پھر مجھ پر درود بھیجو، پھر اپنے لئے دعا کرو ۔  (ترمذی) ۶) جب بھی موقع ملے درود شریف پڑھیں: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری قبر کو میلہ نہ بناؤ اور نہ ہی اپنے گھر کو قبرستان بناؤ۔ تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود بھیجتے رہو۔ تمہارا درود مجھے پہنچا دیا جاتا ہے۔ (مسند احمد)      
بلند آواز کے ساتھ اجتماعی سلام پڑھنے کا حکم: شریعت اسلامیہ میں حضور اکرم ﷺ پر درود وسلام پڑھنے کی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے۔ درودو سلام پڑھنا ایک ذکر ہے، ذکر اگرچہ بلند آواز سے بھی چند شرائط کے ساتھ کیا جاسکتا ہے، لیکن قرآن وحدیث کی روشنی میں اصل ذکر وہ ہے جو آہستہ آواز میں کیا جائے۔ دنیا کے کونے کونے سے ہمیں حضور اکرمﷺ پر زیادہ سے زیادہ درود پڑھنا چاہئے۔ آپﷺ کی قبر اطہر پر جاکر آپ ﷺکو سلام پیش کرنا چاہئے، جس کی خاص فضیلتیں احادیث میں وارد ہوئی ہیں۔ کسی دوسری جگہ سے بھی ہم آپ ﷺ کو سلام بھیج سکتے ہیں، جیساکہ ہم نماز کے ہر قاعدہ میں آپ ﷺ کو سلام بھیجتے ہیں، لیکن نماز کے قاعدہ میں السلام علیک ایہا النبی کہنے کے وقت یہ عقیدہ نہیں رکھا جاتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ ہمارے سامنے ہیں اور ہم حضور اکرم ﷺ کو حاضر وناظر جانتے ہوئے درود وسلام پڑھ رہے ہیں۔ بلکہ حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں درود وسلام کے یہ کلمات پڑھے جاتے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ کے قول وفعل یا صحابۂ کرام کے قول وعمل سے یہ بات ثابت نہیں ہے کہ نماز میں درود وسلام پڑھنے کے وقت یہ عقیدہ رکھا جائے کہ حضور اکرم ﷺ ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اس نوعیت کا عقیدہ رکھنا قرآن وحدیث کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ مذکورہ بالا عقیدہ کے بغیر درود وسلام کے یہ کلمات نماز کے علاوہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ وقت کو مخصوص کرکے درود وسلام پڑھنا یا اجتماعی طور پر درود وسلام پڑھنا نہ حضور اکرمﷺ کے عہد مبارک میں تھا اورنہ خلفاء راشدین اور صحابۂ کرام کے دور میں تھا اور نہ خیر القرون میں کوئی شخص اس عمل سے واقف تھا اور نہ چاروں ائمہ میں سے کسی ایک امام نے یہ عمل کیابلکہ سات سو نوے ہجری تک کسی بھی مقام پر یہ بدعت رائج نہیں تھی۔اس کی ابتداء ۷۹۱ ہجری میں مصر میں ہوئی۔ نبی اکرمﷺ کو ہر جگہ حاضر وناظر مان کر السلام علیک یا رسول اللہ کہنا جائز نہیں ہے، البتہ اس عقیدہ کے بغیر ان الفاظ کے کہنے کی گنجائش ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میںہمارے بعض بھائی، جو بلند آواز کے ساتھ سلام پڑھنے یا اجتماعی طور پر کھڑے ہوکر سلام پڑھنے کے عمل کو بہت اہتمام سے کرتے ہیں، اپنے عمل کو قرآن وحدیث میں تلاش کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں،لیکن صحیح بات یہی ہے کہ قرآن وحدیث سے اس کا کوئی ثبوت پیش کرنا صرف اپنی ذات کو مطمئن کرنے کے مترادف ہے۔ اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے دور میں بلند آواز سے اجتماعی طور پر سلام پڑھنے کا ایک واقعہ بھی کتابوں میں مذکور نہیں ہے۔ اور اس عقیدہ کے ساتھ سلام پڑھنا کہ حضور اکرم ﷺ اس مجلس میں بنفس نفیس تشریف فرما ہیں، قرآن وحدیث کی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے۔ 

 

«
»

ہندوتوا‘کی سیاست کا سماجی مساوات کے نعرے کے ذریعہ مقابلہ

جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے