دہکتے، جھلستے کشمیر کو بچائیے!!!

 

محمدصابرحسین ندوی
کشمیر کی خوبصورتی پر قصیدے کہے گئے، غزل خوانی کی گئی، اسے جنت کا ٹکڑا کہا گیا، اس کی برفانی ندیوں، جھڑتے آبشاروں اور موسم کی اٹکھیلیوں کو ہرنی چال سے تعبیر کیا گیا،سر سبزو شاداب وادیوں کی تصویر کشی کی گئی، اسے دنیا کی رعنائی کا تاج کہا گیا، رنگینیوں اور شوخیوں کی آماجگاہ اور دنیا کی بے نظیری کا تمغہ دیا گیا، اور وہ سب کچھ کہا گیا جس کا تصور جنت سے قائم ہے، وہاں کی نعمتوں سے متعلق ہے؛بلکہ مبالغہ کی حد تک کہا گیا:
اگر فردوس بر روئے زمین است
ہمیں است و ہمیں است وہمیں است
 لیکن اس جنت کو لوٹا جارہا ہے، نو چا جا رہا ہے، اس کی محفوظ سرزمین کو جنگل راج میں بدلا جارہا ہے، وہاں سے دفعہ ۳۷۰ ہٹائی گئی،گویا اس کے سر کا تاج چھینا گیا،اس کے پیشانی کا سندور مٹایا گیا، اسے بیوا کرنے کی کوشش کی گئی؛ لیکن سب خموش رہے، اس کے ساتھ وعدہ فراموشی کی گئی،آئین ہند کی خلاف ورزی بلکہ اس کے ساتھ سیاست کی گئی، کسی نے کچھ نہ کیا، راجہ ہری سنگھ کے معاہدے کو توڑا گیا، مگر زبانوں پر تالے لگے رہے۔
پھر اس کے بعد ظلم کا دور شروع ہوا، کرفیو کا تسلسل ہے،اگست کے مہینے کا اکثر گزرنےکو ہے، لیکن پابندیوں کا طوق پڑا ہوا ہے، کھانے پینے سے لوگوں کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے، خبریں باہر نہیں آپارہی ہیں، وہاں گئے سماجی کارکنوں کو رپورٹس ظاہر کرنے سے روک دیا گیا،اپوزیشن کو دھکے مار کر اور میڈیا کو پیٹ پیٹ کر بھگادیا گیا، دنیا میں ہی وہ جہنم کا مزہ پا رہے ہیں، قیدیوں کی زندگی جی رہے ہیں، ایک نیا فلسطین بننے کو تیار ہے، بچے اور عورتیں ہی کیا انسان کی ہر صنف تڑپ رہی ہے، بلک رہی ہے، مسلم اکثریت ہونے کا رونا رہی ہے، وہ اسلام کے نام پر جینے اور مرنے کی سزا کاٹ رہی ہے، کوئی پوچھتا نہیں، کوئی سنتا نہیں، کہتے ہیں مسلمان ایک جسم ہوتا ہے اگر بدن کے کسی حصے کو زخم پہونچے، تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے؛ لیکن ایسا کتابوں کے سوا کہیں نظر نہیں آتا، سکھ بھائیوں میں انسانیت جاگی اور وہ کشمیری بہنوں کیلئے مرنے مارنے پر اتر آئے، لیکن مسلمانوں کا جھنڈ اپنے غول میں موج کر رہا ہے۔
پورے ہندوستان سے شاذ و نادر بیان بازی کے علاوہ کچھ نہیں کیا گیا، اعلی قیادت کی زبان سل دی گئی ہے، نوجوانوں کے خون سرد پڑ گئے ہیں، حکومت اپنی ڈھٹائی اور زور زبردستی سے میڈیا کے ذریعے دنیا کو گمراہ کرنے کوشش کر رہی ہے، وہاں پر سب کچھ کنٹرول ہے کا نعرہ لگا کر اپنی معصومیت کا مظاہرہ کر رہی ہے، ڈیولپمنٹ کا وعدہ دے کر اور نوکری کا جھانسہ دے کر ہر معاملے کو دبانے کی ضد پر ہے، چوری اور سینہ زوری کا کھلا مظاہرہ ہو رہا ہے؛  لیکن جستہ جستہ نکلتی خبروں نے رونگٹے کھڑے کردئے ہیں، پورا عالمی منظر نامہ سکتہ میں ہے، بیلیٹ گن کے استعمال کی خبریں موصول ہوئی ہیں، جن کے ذریعے بچوں اور نوجوانوں کو نابینا  بنانے کی کوشش جاری ہے،چھروں سے آنکھیں پھوڑی جارہی ہیں، گھروں سے نوجوانوں کو اور ایکٹیویسٹوں کو اٹھا لیا گیا ہے، ہر گرم خون پر شب خون مارا جارہا ہے، عصمتیں محفوظ نہیں، جانیں ضائع ہورہی ہیں، مگر بلند پروازی کا سلوگن گایا جارہا ہے، امن وامان کی قسمیں کھائی جارہی ہیں۔
غلام نبی آزاد کانگریس کے قد آور نیتا ہیں، ان کے بیان کے مطابق: ہر روز نوجوانوں کو گرفتار کر کے ان کو ٹارچر کیا جاتا ہے، ہر گھر کے سامنے فوج کھڑی ہے، دنیا کی جگہوں میں سب سے زیادہ فوج فلسطین ریاست میں استعمال کی جاتی ہے، اس کے بعد کشمیر ہی وہ جگہ ہے جہاں باشندوں کی تعداد میں فوجی ایسے شیر و شکر ہوگئے ہیں؛ کہ آبادی کا پتہ ہی نہیں چلتا،پوری آبادی ایک جیل خانہ بن کر رہ گیا ہے، اپنے ہی ملک میں قید کی سانسیں لینا کس کو کہتے ہیں؟ ان سے پوچھئے! آزادی اور جمہوریت میں خون کے آنسو رونے کا کیا مطلب ہے؟ انہیں سے دریافت کیجئے! ترقی یافتہ دور میں جہاں مسافتیں ختم ہوگئیں اور مواصلات کا انتظام حد سے زیادہ مضبوط ہوگیا ہے، اس کے باوجود اپنوں سے بات نہ کر پانے کی تڑپ کیا ہوتی ہے؟ ایک دوسرے کی شکلوں کو نہ دیکھ پانے کی سسک کیا ہوتی ہے؟ بنیادی ضرورتوں سے محرومی کا درد کیا ہوتا ہے؟  تہوار میں غمی کا عالم کیسا ہوتا ہے؟ انہیںسے معلوم کر لیجئے! وہ کہہ رہے ہوں گے:
کھڑے ہیں ناخنوں کو تیز کر کے ہر طرف کانٹے
گلستاں میں ہمارے پیرہن کی آزمائش ہے
حقیقت یہ ہے کہ جموکشمیر ہر لمحہ ٹوٹتی امیدوں اور بلکتی انسانیت کی زندہ تصویر بن چکا ہے، ان ناداروں کے آنسوؤں کو پوچھنے والا کوئی نہیں، ان کے زخموں پر مرہم رکھنے والا کوئی نہیں، وہ تڑپ رہے ہیں لیکن کوئی سنتا نہیں، وہ چیخ رہے ہیں لیکن کوئی کان نہیں دھرتا، وہ اپنے خون دکھاتے ہیں، اپنا چاک گریبان بتلاتے ہیں، اڑتے دوپٹے کی تصویر اور بے کسی کی داستان بیان کرتے ہیں لیکن کسی کا دل نہیں پسیجتا؛ بلکہ حال تو یہ ہے کہ عالم عرب جو دنیا میں اپنی مقبولیت اور مضبوط معیشت کیلئے جانا جاتا ہے، جو قرآن کے متبعین کی حیثیت رکھتے ہیں، کعبے کے متولی اور خدائی نصرت و حمایت کا دم بھرتے ہیں، وہ مسلمانوں کے چھلکتے آنسوؤں کی پرواہ کئے بغیر ان سب کے ذمہ دار اور رواں حکومت کا آدم اولیں کو ہی سب سے بڑا اعزاز دے رہی ہے،عرب امارات اور سعودی عرب اسی کے سامنے گھٹنے ٹیک رہی ہے، اسے سب اعلی سویلین کی سند سے نواز رہی ہے۔
اف!!! یہ ظالم حکمراں! نہ جانے کس مٹی کے بنے ہیں؟ آنکھوں کی حیا ختم ہوگئی ہے، نگاہوں کا پانی مر گیا ہے، ایسا کہا جارہا ہے؛ کہ صدی کی سب سے بڑی نسل کشی کا دور شروع ہونے جارہا ہے، کشمیر کو انہیں کی گھاٹیوں میں قید کر کے ذبح کرنے کی تیاری ہو رہی ہے، پوری وادی کو ایک مذبح خانہ میں بدلنے کی ابتدا ہو نے والی ہے،جس کے اثرات ظاہر ہیں، ہوائیں رخ بدل چکی ہیں، فضا میں خشکی نظر آنے لگی ہے؛ لیکن افسوس!!! اسی کے قائد اعظم، سرغنہ کو تمغہ سے نوازا جارہا ہے، عزت افزائی کی جارہی ہے، حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ ذرا سوچئے! کون انہیں مسلمان کہتا ہے؟ اگر خدارا صرف کلمہ کی بنیاد نہ ہو تو ایسوں کو اسلام سے خارج سمجھنے میں بھی کوئی دقت نہ تھی، انہیں انسان دشمنی کی فہرست میں کھڑا کیا جا سکتا تھا، وہ فرعون کی اولاد کہے جاسکتے تھے، ہامان کے پیرو اور ابولہب کے محب مانے جا سکتے تھے، ابوجہل کے جاں نشین اور عتبہ و شیبہ کے یار ، عبداللہ بن ابی کے حقیقی خلف اور عبداللہ بن سبا کی نسل میں شمار کئے جا سکتے تھے، انہیں دجال کا ایجنٹ اور ان کا ساتھی کہا جا سکتا تھا، انہیں یہود و نصاری کا معاون مان کر ان کی گردن اڑائی جا سکتی تھی، لیکن کیا کیجئے! بس کچھ ہے جو روکے دیتی ہے!!!!*
مری بربادیوں کا ڈال کر الزام اوروں پر
وہ کافر اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کے مسکرا دے ہے
کیا ہم نہیں جانتے کہ شاہ سلمان نے سب سے بڑی انویسٹ مینٹ ہندوستان میں کی ہے، سعودی عرب اور بحرین کا پٹرول ہندوستان پیتا ہے اور غراتا ہے، تجارتی فوائد بحرین سے جڑے ہوئے ہیں،لیکن ان مراعات کو پہونچا کر وہ خوش ہیں، انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا؛ کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ اور بالخصوص کشمیر میں انسانی خون کا کیسا کھیل کھیلا جارہا ہے، لیکن ’’ تیرے ہاتھوں کی سرخی خود ثبوت اس بات کا دے ہے‘‘ ۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب مد ظلہ کی ایمانی غیرت دیکھئے! کہ انہوں نے اپنے ٹویٹ کے ذریعے لکھا:’’ ہائے افسوس! وہ شخص جو ہزارہا مسلمانوں کا قاتل ہے، وہ شخص جس نے ہزارہا مسلمانوں کی زمینوں پر غاصبانہ قبضہ کیا، جس نے کشمیر کو اہلیان کشمیر کیلئے قید خانہ بنا دیا، جس کی وجہ سے عنقریب کشمیر میں قتل ہونے کو ہے، ایسے شخص کو ایک عرب مسلم ملک (متحدہ عرب امارات) کی جانب سے سب سے بڑے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے، ہائے کتنا بڑا المیہ ہے۔ہائے شرمندگی! ہائے ندامت!!!
  ایک دوسری ٹویٹ میں لکھتے ہیں: ’’کشمیریوں کا آئین اور اخلاقی موقف بہت مضبوط ہے، اور اس کی روشنی میں عالمی برادری کی ذہن سازی مفید ہے، لیکن ہٹ دھرمی اور تکبر کے سامنے وعظ و نصیحت کام نہیں دیتی۔ متنبی کہتا ہے کہ بہت سی قوموں کیلئے موثر ترین وعظ تلوار کا ہوتا ہے۔ کیا ہم اس کیلئے تیار ہیں؟ ‘‘۔ تو وہیں ہندوستان میں بہت سے موثر اور صاحب دل لوگوں نے قلق کا اظہار کیا یہاں تک کہ ایک آئی ایس افسر نے استعفی دیدیا اور کہہ دیا کہ :’’جب یہ پوچھا جائے گا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت نے ایک مکمل صوبے پر پابندیاں عائد کردیں، لوگوں کے بنیادی حقوق کو چھین لیا، تب آپ کیا کر رہے تھے؟ میں کہہ سکوں گا کہ میں نے احتجاج میں نوکری سے استعفی دیدیا تھا‘‘۔ کشمیر کی مقدس روحیں اللہ سے انصاف طلب ہیں، انتظار میں ہیں اس دن کے جب وہ سروں سے گرد، آنکھوں سے آنسو، سینوں سے لہو پونچھتے ہوئے آئیں گے:
دل کو تھامے ہوئے فریاد بلب ہے کوئی
دا ور  حشر سے انصاف طلب ہے کوئی

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے

28اگست2019(فکروخبر)

«
»

عاشورہ کا روزہ پچھلے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام !!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے