کشمیر کے بعد لکشدیپ

 

  مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

 

کشمیر میں دفعہ370 / اور ۳۵اے کے ختم کرنے، وہاں کی زمین کی خریداری عام ہندوستانیوں کے لئے عام کرنے اور دوسری ریاستوں کے لوگوں کو وہاں بسنے کی سہولت دینے کے بعد اب مرکزی حکومت کی نگاہ لکشدیپ پرہے، جہاں پنچانوے فی صد سے زیادہ مسلمان بستے ہیں اور جہاں جرائم کا گراف صفر ہے،یہاں پیار ومحبت کے ساتھ زندگی گذارنے کا معمول رہا ہے،    مرکزی حکومت اب وہاں کے نظام کو درہم برہم کرنا چاہتی ہے، اسی لیے پر فل کمارکو یہاں کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا ہے اور انہوں نے آتے ہی شراب کی دوکانیں کھولنے، گوشت پر پابندی لگانے،کسی بھی شخص کو گرفتار کرکے پوشیدہ رکھنے اور کسی کی بھی زمین سرکار کے ذریعہ لے لینے سے متعلق ایک مسودہ مرکزی حکومت کو بھیجا ہے، اگر یہ قانون بن جاتا ہے تو وہاں کی مخصوص قسم کی تہذیب وثقافت کو خطرہ لاحق ہوگا، جس کی وجہ سے لوگوں میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔ 

لکشدیپ بحیرہ عرب میں واقع کیرالاکے مالا بار سے کوئی دو سے تین سو کلو میٹر دوری پر واقع جزیروں کا سلسلہ ہے، کہا جا تا ہے کہ ان کی تعداد چھتیس ہے، بتیس(۳۲) مربع کلو میٹر پر واقع مرکزی حکومت کے زیر انتظام لکشدیپ میں صرف ایک ضلع اور دس سب ڈویزن ہیں، یہ کیرالا ہائی کورٹ کے تحت ہےاور یہاں کوئی اسمبلی نہیں ہے ، یکم نومبر 1956ء میں اسے کیرالہ کے مالا بار ضلع سے الگ کرکے مرکزی حکومت کے زیرانتظام لایا گیا تھا، یہاں کے صرف دس جزیروں پر آبادی ہے باقی اب بھی غیر آباد ہیں، 1787ء میں ان جزیروں پر ٹیپو سلطان کی حکومت تھی۔

 مرکز کے زیر انتظام آنے کے بعد صدر جمہوریہ کی طرف سے یہاں کا ایک ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا جا تا رہا ہے، جو آئی اے ایس ہوا کرتا تھا، 1957ء اور 1962ء میں صدر جمہوریہ کی طرف سے یہاں کے لئے  ممبر پارلیامنٹ نامزد کیے گئے تھے، 1967ء سے 2004ء تک پی ام سعید یہاں سے باضابطہ منتخب ہو کر پارلیامنٹ جاتے رہے، 2014ء اور 2019ء میں محمد فیضل پی پی یہاں سے ممبر پارلیامنٹ چنے گئے۔

پرفل کھوڑاپٹیل یہاں کے پینتیسویں (۳۵)ایڈمنسٹریٹر ہیں، امیت شاہ کو سہراب الدین قتل کیس میں جب نریندر مودی کے دور حکومت میں عدالت نے در بدری کی سزادی تھی تو ان کی جگہ نریندر مودی وزیر اعلیٰ گجرات نے پرفل پٹیل کووزیر داخلہ بنایا تھا، ان دونوں سے جو ان کی وفاداری رہی ہے اس کے نتیجہ میں یہ آئی اے ایس نہ ہونے کے باوجود ایڈمنسٹریٹر کی کرسی تک پہونچ گئے ہیں،اور مرکزی وزیر داخلہ کے منصوبوں کو زمین پر اتارنے کے لیے تیزی سے کام شروع کر دیا ہے۔ بڑے کے گوشت پر پابندی، شراب کی خرید وفروخت کی اجازت کے ساتھ انہوں نے پنچایتی انتخابات میں انہیں کے لیے کھڑے ہونے کی بات کہی ہے، جن کے دو بچے ہیں، یہ ایک غیردانشمندانہ سوچ ہے، خصوصاًجب کہ شرح پیدائش یہاں ہندوستان کے تمام صوبوں سے کم ہے، آج بھی اس جزیرہ کی پوری آبادی صرف پینسٹھ (65000)ہزار لوگوں پر مشتمل ہے، آبادی میں اضافہ کی شرح یہاں ۳۲ء ۶/ فی صد ہے، جب کہ ہندوستان میں 17'7/فی صد کا اضافہ درج ہوتا رہا ہے۔

 مرکز کے زیر انتظام اس علاقہ کے لیے پرفل پٹیل نے چار قانونی مسودات مرکز کو ارسال کیے ہیں ایک”لکشدیپ پنچایت راج ریگولیشن 2021ء“ ہے، جس کے تحت دو بچوں سے زیادہ بچے پیدا کرنے والے والدین کو انتخاب سے دور رکھنے کی بات کہی گئی ہے، دوسرا مسودہ”اینیمل پریوپنشن ریگولیشن 2021ء“ ہے جس میں بڑے جانوروں کے ذبیحہ پر پابندی کی بات کہی گئی ہے، تیسرا ”انٹی سوشل ریگولیشن 2021ء“ ہے جس کے ذریعہ کسی شخص کو بھی غیر وارنٹ گرفتاری اور اس گرفتاری کو عرصہ دراز تک خفیہ رکھنے کااختیار انتظامیہ کو مل جائے گا، چوتھا”لکشدیپ ڈولپمنٹ اتھارٹی ریگولیشن 2021ء“ ہے، جس کے مطابق ترقیاتی مقاصد کے لیے کسی کی بھی زمین کو حکومت اپنی حسب منشا تحویل میں لے سکتی ہے، یہ تجاویز ابھی مسودات کی شکل میں ہیں، انہیں قانون بنانے کے مراحل کا آغاز کر دیا گیاہے۔

وہاں کے مقامی آبادی کا احساس ہے کہ ان قوانین کے بن جانے کے بعد لکشدیپ کے لوگوں کا سکون وچین چھن جائے گا، اس لیے وہاں کے ایم پی اور دیگر لوگوں نے سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پرفل کھور پٹیل کو واپس بلالے اور ان مسودات پر کارروائی نہ کرے، لیکن ہندوستان کی حکومت کا مزاج کسی کی بات سننے کا نہیں ہے، صرف ”من کی بات“ کہنے کا ہے، جس میں کام کی بات کم ہوا کرتی ہے، ایسے میں یہ سمجھنا کہ حکومت اپنے نمائندہ کوو اپس بلالے گی، بڑی بھول ہوگی؛ اس کے لیے متحدہ اور مشترکہ کوشش ہونی چاہیے اور کیرالہ حکومت کو اس میں آگے آنا چاہیے کیوں کہ لکشدیپ اصلا اسی کا حصہ ہے اوروہاں کی بیشتر آبادی کیرالہ سے نقل مکانی کرکے ہی وہاں آباد ہوئی ہے،کیرالہ حکومت نے اس کا آغازکر دیا ہے،یہ ایک اچھی علامت ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

«
»

جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے