کیا کشمیر کا مسئلہ عالمی مسئلہ بنتا جارہا ہے؟

اپنوں سے بیر غیروں سے پیار، کیا یہی مسئلہ کا حل ہے؟

عبدالعزیز
     ہندستانی حکومتوں کا کشمیر کے معاملے میں شروع سے آج تک یہ موقف رہا ہے کہ کشمیر ہندستان کا اٹوٹ حصہ ہے اور کشمیر کے تنازع کا حل پاکستان اور ہندستان کی باہمی گفتگو سے طے کیا جائے گا۔ آزادیِ ہند کے بعد اقوام متحدہ میں ہندستانی نمائندہ کی موجودگی میں اگرچہ ایک قرار داد استصواب رائے (ریفرنڈم) کے سلسلے میں منظور ہوئی ہے مگر اس قرار داد کی اہمیت دونوں ملکوں کے شملہ معاہدے کی وجہ سے کم ہوگئی تھی لیکن جب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی گئی اس وقت سے اس قرار داد کا چرچا بھی یواین او اور یواین او اس کے باہر ہونے لگا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان، ترکی کے صدر طیب اردگان اور ملیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتر بن محمد کی تقریروں سے کشمیر کے مسئلے پر دنیا کی توجہ کچھ زیادہ ہی مبذول ہوئی ہے اور گزشتہ ایک ہفتہ سے امریکی کانگریس کے اجلاس میں کشمیر کے تعلق سے حقوقِ انسانی کی پامالی اور خلاف ورزی پر کافی گفتگو ہورہی ہے۔ امریکہ کی ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں پارٹیوں کے ممبران نے کشمیر کے حالات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور اپنے احساسات کو ہندستانی حکومت تک پہنچانے کی کوشش کی ہے اور سوال و جواب بھی کیا ہے۔ وہاں کے بعض قانون ساز امریکیوں نے ہندستان سے دریافت کیا ہے کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ 
    گزشتہ روز یورپی یونین کے 9ممالک سے 27ممبران پارلیمنٹ ایک وفد کی شکل میں ہندستان آئے ہیں۔ وہ کشمیر کے حالات کو جاننے کیلئے وفد کے ارکان کشمیر جائیں گے اور وہاں کے لوگوں سے بات چیت کریں گے اور گھوم پھر کر حالات کا جائزہ لیں گے۔ بیرونی ممالک کے27ممبران پارلیمنٹ میں سے 23ممبران پارلیمنٹ دائیں بازو کی پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں سب کے سب مودی حکومت کے موقف کی کشمیر کے معاملے میں حمایت کرتے ہیں، محض 4ممبران ایسے ہیں جو مودی حکومت کی طرف سے کشمیر پر کارروائی کو پسند نہیں کرتے بلکہ اس کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ مودی حکومت نے شاید دو وجوہ سے یورپین ممالک کے ممبران پارلیمنٹ کے دورہئ کشمیر کی اجازت دی ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس میں 90 فیصد ایسے لوگ ہیں جو ہندستان کی موجودہ حکومت کے حامی ہیں۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے ممالک میں جو میڈیا ہے وہ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی مخالفت کر رہی ہے۔ ممکن ہے کہ وفد میں زیادہ ممبروں سے وزیر اعظم نریندر مودی کو توقع ہو کہ وہ دنیا کے سامنے ہندستانی موقف کی موافقت کریں گے۔ لیکن جو چار ممبران ہیں ان کی رپورٹ یا ان کا جائزہ شاید حکومت کے حسب توقع نہ ہو۔ دونوں رپورٹوں سے دنیا میں میڈیا کی طرف سے جو پرچار ہوگا اس سے بہت ممکن ہے کہ کشمیر کی صورت حال کی عکاسی ہوجائے گی جو ہماری حکومت کو کسی حال میں منظور نہیں ہوگی۔ وفد کے دورے اور جائزے سے بالکل یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ہماری حکومت جو کشمیر کے معاملے میں نہ ثالثی چاہتی تھی اور نہ کسی بیرونی ملک کی مداخلت۔ بیرونی ممالک کے ممبران پارلیمنٹ کا دورہئ کشمیر ایک طرح سے اب مداخلت کے مترادف ہے۔
     کانگریس کے لیڈران اور اپوزیشن کے دیگر لیڈران نے بیرونی ممالک کے ممبران پارلیمنٹ کے دورہئ کشمیر کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندستان کے ممبرانِ پارلیمنٹ کو کشمیر جانے کی اجازت حکومت کی طرف سے نہیں دی گئی، صرف وہی لوگ جاسکے جن کو سپریم کورٹ نے کشمیر جانے کا حکم صادر کیا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اپنے ملک کے لیڈروں یا ممبرانِ پارلیمنٹ کو اپنے ہی ملک کے لوگوں سے ملاقات اور بات چیت کی اجازت نہ دی جائے اور دیگر ممالک کے ممبران پارلیمنٹ کا خیر مقدم کیا جائے اور ان کو کشمیر جانے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے۔ صرف اپوزیشن کے ممبران پارلیمنٹ یا لیڈران نے ہی بیرونی ممالک کے پارلیمانی ممبران کے دورے کی مخالفت نہیں کی ہے بلکہ بی جے پی کے راجیہ سبھا ممبر سبرامنیم سوامی نے بھی ٹویٹ کیا ہے کہ ”مجھے سخت تعجب ہوا ہے کہ یورپین ممالک کے ممبران پارلیمنٹ کشمیر کا دورہ کریں گے اور وہاں کے حالات کا جائزہ لیں گے یہ ہمارے ملک کی پالیسی اور موقف کے بالکل خلاف ہے۔ میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اس دورے کو رد کردے“۔ سابق وزیر اعلیٰ جموں وکشمیر محبوبہ مفتی نے اپنے ٹویٹر پر کہا ہے کہ ”اگر دفعہ 370 کو ختم کرنے سے کشمیر اور ہندستان میں کامل انضمام ہوتا ہے تو پھر راہل گاندھی کو کشمیر جانے سے کیوں روکا گیا؟ اور ایسے لوگوں کو جو فسطائی ذہن رکھتے ہیں اور دائیں بازو کے سخت گیر لوگ ہیں اور باہری ممالک سے تعلق رکھتے ہیں ان کو کشمیر کے دورے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ کشمیر کا دورہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جو فسطائیت پر یقین رکھتے ہیں اور مسلمانوں سے سخت نفرت کرتے ہیں“۔ 
    جو ممبران پارلیمنٹ باہر سے آئے ہیں اس میں زیادہ تر ایسی سیاسی پارٹیوں یا ایسی حکومتوں سے تعلق رکھتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہندستانی حکومت نے کشمیر کے معاملے میں جو کچھ کیا ہے وہ ٹھیک ہے۔ ایسے لوگوں سے حکومت ہند کو امید ہے کہ حکومت کا مقصد پورا ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دورے کے بعد دائیں بازو کے ممبران پارلیمنٹ کا کیا بیان ہوتا ہے اور کیا رپورٹ دنیا کے سامنے آتی ہے؟ اس وفد میں چار ایسے بھی ممبران پارلیمنٹ ہیں جن کی سیاسی پارٹیوں کا موقف بالکل الگ ہے۔ اس طرح کشمیر کے تعلق سے دو قسم کی رپورٹ آنے کا امکان ہے۔ بہر حال رپورٹ جو کچھ بھی آئے لیکن باہر ملکوں کے لیڈروں کے دورے سے اپوزیشن پارٹیوں کی جو رائے ہے یا خود ان کی پارٹی کے راجیہ سبھا ممبر کی جو رائے ہے کہ موجودہ حکومت اپنے سابق موقف سے منحرف ہوگئی ہے۔ اب اگر کوئی ملک ثالثی کی پیش کش کرتا ہے یا کشمیر کے معاملے میں مداخلت کرتا ہے تو آخر موجودہ حکومت کے ذمہ دار کس طرح یہ کہہ کر اس کی پیشکش کو ٹھکرا دیں گے کہ ہمارا ملک کسی باہری ملک کو ثالثی کیلئے زحمت نہیں دے گا۔ مودی حکومت کے پاس اپوزیشن نے جو سوال کھڑا کیا ہے کہ ملک کے لیڈروں یا ممبران پارلیمنٹ کو کشمیر جانے نہیں دیا گیا اور باہر کے ممالک کے لوگوں کو کشمیر جانے دیا جارہا ہے، آخر کیا بات ہے؟ کیا کشمیر سے ہندستانی اپوزیشن پارٹیاں بیر رکھتی ہیں؟ اور جو باہر کے لوگ ہیں وہ کشمیر سے یا کشمیریوں سے پیار اور محبت کرتے ہیں؟ میرے خیال سے مودی حکومت کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اپنوں سے بیر رکھنا اور غیروں سے پیار کرنا اور ان کی آؤ بھگت کرنا یہ کیسی حب الوطنی ہے؟ اس کا جواب حکمراں پارٹی کو آج نہیں تو کل پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دینا ہوگا۔ 
    دوسری بات یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اندرون ملک کا مسئلہ ہے، قومی مسئلہ ہے، جسے قومی اتفاق سے حل کیا جانا چاہئے تھا۔ قومی اتفاق کو نظر انداز کرکے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش ایک ایسی کوشش ہے جو ملک اور قوم کے مفاد کے خلاف ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے جو سوالات کشمیر کے تعلق سے اب کئے جائیں گے اس کا جواب آر ایس ایس اور بی جے پی کی طرف سے کیا آتا ہے؟ کشمیر کے سلسلے میں اتنی بات تو اب ضرور کہی جاسکتی ہے کہ مودی حکومت نے نادانی سے کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی مسئلہ بنا دیا ہے جو بہت حد تک پاکستان کے حق میں جاتا ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

نبی اکرمؐ کی مکّی زندگی اور مصائب وآلام

انصاف کے مندر میں ایک تاریخی مسجد کا کیس کیا سچائی دیکھ پائے گااندھاقانون؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے