اگر کہیں پولس مڈبھیڑ ہوتی ہے تو اس میں بھی مسلمان ہی مارے جاتے ہیں اور بغیر قصور کے گرفتاریاں بھی انھیں کی ہوتی ہیں، مگر کوئی اس بات کی خبر لینے والا نہیں اور نہ ہی کوئی انصاف کے لئے یہاں کے عدالتی نظام کی مشکلات کو جھیلنا چاہتا ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ اس اہم سوال کو اب مہاراشٹر ہائی کورٹ نے وہاں کی حکومت سے پوچھا ہے کہ پولس حراست میں مرنے والوں میں سب سے زیادہ مسلمان ہی کیوں ہیں؟ حالانکہ ایک دوسرا سوال بھی اس سے پوچھا جانا چاہئے کہ جیلوں میں سب سے زیادہ مسلمان ہی کیوں قید ہیں؟ کیا جرائم پیشہ صرف مسلمان ہوتے ہیں؟ گناہ صرف مسلمان کرتے ہیں؟اس سلسلے میں سب سے زیادہ چونکانے والی سچائی یہ ہے کہ جن ریاستوں میں نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی حکومتیں ہیں وہاں مسلمانوں کا عرصۂ حیات زیادہ تنگ ہے۔ سب سے زیادہ مسلمان مہاراشٹر اور اترپردیش کی جیلوں میں قید ہیں اور سب سے زیادہ پولس کی حراست میں موتیں بھی انھیں ریاستوں میں ہوئی ہیں۔اس کے مقابلے بی جے پی کی حکومت والی گجرات اور مدھیہ پردیش جیسی ریاستوں میں کم مسلمان جیلوں میں ہیں۔ آخر اس کا کیا مطلب نکالا جائے؟ کیا اسی کا نام ہے مسلمانوں کی چاپلوسی اور خوشامد جس کا طعنہ اکثر بی جے پی اور سنگھ پریوار کی طرف سے مسلمانوں کو دیا جاتا ہے؟ کیا یہی وہ مہربانیاں ہیں جو مسلمانوں پر ہوتی ہیں؟
کورٹ کا سوال
ممبئی ہائی کورٹ نے ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے مہاراشٹر پولس سے سوال کیا ہے کہ ریاست میں جو بھی موتیں پولس حراست میں ہوئی ہیں ان میں سب سے زیادہ تعداد میں اقلیتی طبقہ کے ہی لوگ کیوں ہیں؟ یہ سوال اپنے آپ میں ہی بہت سے سوال لئے ہوئے ہے جسے سننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے؟گجرات میں ماضی میں کئی فرضی انکاؤنٹر ہوئے جن میں پولس افسران کے ملوث ہونے کی خبر تھی اور اب ان معاملات کی انکوائری کی بھی چل رہی ہے۔ اس سلسلے میں کئی اعلیٰ افسران جیل میں ہیں اور بی جے پی کے صدر امت شاہ بھی دو مہینے جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پر باہر نکلے ہوئے ہیں۔ یہاں صرف سترہ فرضی انکاؤنٹر نے عدالت اور میڈیا سب کو اس جانب متوجہ کردیا تھا مگر مہاراشٹر میں تو مسلمانوں کے خلاف ایک مہم چل رہی ہے اور انھیں لگاتار جھوٹے مقدمات میں پھنساکر پکڑا جارہا ہے مگر کوئی بھی اس پر آواز اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔ کیا اس لئے گجرات کی وارداتوں کی انکوائری ہورہی ہے کہ وہاں ایک ایسی پارٹی کی حکومت ہے جو خود کو ہندتو وادی کہتی ہے اور مہاراشٹر کے معاملات کی انکوائری نہیں ہورہی ہے کہ یہاں ایک نام نہاد سیکولر پارٹی اقتدار میں ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ مسلمان کا خونِ ناحق بہانے کا حق صرف سیکولر پارٹیوں کو ہے اور بی جے پی جیسی فرقہ پرست پارٹی اگر یہ کام کرتی ہے تو اسے اس کا بالکل حق نہیں؟ کیا مسلمانوں کی گردن پر چلنے والاخنجر اگر سیکولر ہوتو یہ خون حلال ہوجاتا ہے؟ اور بات صرف مہاراشٹر کی ہی نہیں ہے اترپردیش بھی اسی صف میں کھڑا ہے۔
ممبئی ہائی کورٹ کا سوال بجا ہے جس نے اس جانب توجہ دی ہے جس طرف خود مسلمانوں کو توجہ دینا چاہئے تھا۔ کورٹ نے ایک ایسی مسلمان عورت کی عرضی پر یہ سوال پوچھا ہے جس کا بیٹا تاج محمدایک پولس اسٹیشن میں پولس کسٹڈی میں مارا گیا تھا۔ اس کا بیٹا موبائل کی دکان کرتا تھا اور ریپیرینگ کاکام کرتا تھا۔ ایک دن اچانک پولس نے اسے موبائل چوری کے الزام میں گرفتار کرلیا اور پولس اسٹیشن لے گئی جہاں اس کی موت ہوگئی۔ اس کے گھر والوں کا الزام تھا کہ پولس نے اسے مارڈالا ہے اور اس پر جسمانی و دماغی زیادتی کی گئی ہے مگر پولس خود اس الزام کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ویسے یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ مہاراشٹر میں اس قسم کے واقعات عام ہیں اور بیشتر معاملات میں مرنے والا مسلمان ہی تھا۔ یونہی جیلوں میں قید افراد میں بھی یہاں سب سے زیادہ تناسب مسلمانوں کا ہی ہے اور جیلوں میں ہونے والی موتوں کے معاملے میں بھی مسلمان سب سے زیادہ ہیں۔ قومی جرائم رکارڈ بیورو کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۳ء میں مہاراشٹر میں ۳۴ حراستی اموات ہوئی ہیں ،جب کہ ۲۰۱۲ء میں یہ تعداد ۲۲ تھی۔ ممبئی ہائی کورٹ میں داخل عرضی کے مطابق یہاں جن لوگوں کی بھی موتیں ہوئی ہیں ان میں بیشتر مسلمان ہیں اور بعض دلت ہیں۔ اس سلسلے میں ایک چونکادینے والی سچائی یہ ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۹۹۹ء سے ۲۰۱۳ء کے بیچ پورے ملک میں کل ۱۴۱۸ موتیں پولس حراست میں ہوئی ہیں اور ان میں سے ۲۳ فیصد مہاراشٹر میں ہوئی ہیں۔ حالانکہ یہاں کے ہائی کورٹ میں جو سوال اٹھے ہیں ان کے مطابق ان میں مرنے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔
مہاراشٹر کے مسلمانوں کی سیاسی مجبوری
مہاراشٹر وہ صوبہ ہے جہاں مسلمانوں کا خون سب سے زیادہ ارزاں ہے۔ یہاں ایک زمانے تک مسلمانوں کے قتل عام کے لئے فسادات کرائے جاتے رہے جن کی سرپرستی خود کانگریس کی سرکاریں کیا کرتی تھیں۔ یہاں کانگریس کو لگتا تھا کہ مسلمانوں کو شیو سینا سے خوفزدہ رکھو تو وہ کانگریس کو ووٹ دیتے رہیں گے۔ بدقسمتی سے یہاں کوئی تیسرا سیاسی متبادل بھی نہیں ابھرا جو مسلمانوں کے لئے قابل قبول ہو۔ مسلمان بار بار ان فسادات کی نذر ہوتے رہے اور پھر بھی کانگریس کو ووٹ دیتے رہے۔۱۹۹۳ء کے سیریل بم دھماکوں کے بعد یہاں فسادات تو بند ہوگئے مسلمانوں کو ستانے کا ایک نیا طریقہ نکالا گیا اور وہ تھا انھیں دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں پھنسانا۔ ہزاروں مسلمانوں کو اب تک جھوٹے مقدمات میں پھنساکر جیلوں میں ڈالا جاچکا ہے اور ان میں سے بعض تو پولس اور حکومت کی سازشوں کے جال توڑ کر اب با عزت بری بھی ہوچکے ہیں۔ انھیں کورٹ کی طرف سے بری کیا جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بے گناہ تھے اور کانگریس کی سرکار نے انھیں جھوٹے مقدموں میں پھنسایا تھا۔ شاید اب کانگریس سرکار کا یومِ حساب آچکا ہے اسی لئے جہاں ایک طرف وہ ابھی سے اسمبلی الیکشن ہارتی ہوئی دکھ رہی ہے وہیں دوسری طرف کورٹ بھی اس کے سامنے ایسے سوال کھڑے کر رہا ہے جس کا جواب اس کے پاس نہیں ہے۔یہاں مسلمانوں کی آبادی ۱۲ فیصد کے آس پاس بتائی جاتی ہے مگر تھانہ، پولس، جیل اور حراستی اموات میں وہ سب سے زیادہ کیوں ہیں؟ یہ سوال کسی بھی طرح قابل توجہ ہے۔
یہ ہیں ہمارے ہمدردر
اترپردیش بھی ان ریاستوں میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ بے قصورمسلمانوں کو جیلوں میں بند رکھا گیا ہے اور حراستی اموات یہاں بھی سب سے زیادہ ہوتی ہیں، جن میں مرنے والے بیشتر مسلمان ہوتے ہیں۔ سماجوادی پارٹی نے گزشتہ اسمبلی الیکشن کے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ اگر اس کی سرکار بنی تو وہ ان بے قصور مسلمانوں کو جیلوں سے آزادکرائیگی ،جنھیں جھوٹے مقدمات میں پھنساکر قید رکھا گیا ہے مگر اس نے تو انھیں زندگی سے ہی آزاد کرنا شروع کردیا۔ مولانا خالد مجاہد جنھیں دہشت گردی کے جھوٹے مقدمے میں گرفتار کیاگیا تھا وہ اسی حکومت کی گرفت میں موت سے ہمکنار ہوئے۔ گویا سماج وادی پارٹی بھی مسلمانوں کے لئے کانگریس جیسی ہی ہمدرد ثابت ہوئی۔ لیکن ایسا نہیں کہ یہ حالت صرف یوپی تک ہی محدود ہے بلکہ یہی صورتحال بہار میں بھی ہے۔ قارئین کی یاد داشت کو ہم تازہ کردیں کہ بہار کے فاربس گنج میں پولس فائرنگ میں نتیش کمار کی پولس نے ایک طرفہ طور پر مسلمانوں کو قتل کیا تھا جس کا قصور صرف یہ تھا کہ انھوں نے بی جے پی کے ایک لیڈر کو اپنی زمین دینے سے انکار کیا تھا۔یہ واقعہ لگ بھگ دوسال قبل کا ہے اور نتیش کمار کو آج تک اس کا کوئی پچھتاوا نہیں ہے ۔ وہ یہاں کے مظلوم مسلمانوں کی خبر لینے آج تک نہیں گئے اور ان پولس والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جنھوں نے بے گناہوں کے سینوں پر گولیاں برسائی تھیں۔
قومی سطح پر جانچ کیوں نہیں؟
اس ملک میں سب سے زیادہ گھنی مسلم آبادی والا صوبہ جموں و کشمیر ہے ۔یہاں ۶۵ فیصد مسلم آبادی کا تناسب بتایا جاتا ہے مگر جیلوں میں جو لوگ قید ہوتے ہیں اور جنھیں پولس یا فوج کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے ان میں غیر مسلم ایک آدھ ہی ہوتے ہیں جو بعض اوقات غلطی سے ان کے نشانے پر آجاتے ہیں۔ یونہی آسام میں مسلم آبادی ۳۱ فیصد سے زیادہ بتائی جاتی ہے مگر پولس اور قانون کی زد میں آنے والوں میں اس سے بہت زیادہ مسلمان ہوتے ہیں۔ ملک کا کوئی صوبہ ایسا نہیں جہاں جیلوں میں بند ہونے والے، پولس حراست میں مرنے والے اور فرضی انکاؤنٹر میں مرنے والوں میں سب سے زیادہ مسلمان نہ ہوں۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کیا اس کے پیچھے کوئی سازش ہے؟ اس بات کی انکوائری ہونی چاہئے اور سچائی سامنے آنی چاہئے۔ ظاہر ہے کہ جو حکومتیں اس جرم کے لئے ذمہ دار ہیں وہ کبھی نہیں چاہیں گی کہ ان کی پول کھلے مگر مسلمان اگر اس معاملے کو مضبوط دلائل اور اعداد و شمار کی روشنی میں کورٹ کے سامنے لے جائیں تو ہوسکتا ہے بہت سی سچائیاں سامنے آئیں اور ان کے بہت سے نام نہاد ہمدردوں کے کرتوت بھی دنیا کی نظر میں آئے۔ کیا ہی بہتر ہوکہ ملک کی کوئی بڑی حقوقِ انسانی کی تنظیم یا قانون کے جانکار اس معاملے کو کورٹ کے سامنے لائیں۔ اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ جس طرح ممبئی ہائی کورٹ نے اس معاملے اہمیت دی ہے ویسے ہی اسے قومی سطح پر دیکھا جائے۔ عام مسلمان خود اپنے حقوق کے تعلق سے بہت بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں مگر انھیں عشرت جہاں کی ماں، احسان جعفری کی بیوہ اور اب تاج محمد کی ماں عالیہ بیگم سے سبق لینا چاہئے جو انصاف کی ڈگر پر انتہائی حوصلے کے ساتھ چل رہی ہیں۔
جواب دیں