یہ بات عام ہے کہ غصہ اصلی ہو یا بناوٹی اس حالت میں آدمی اپنا ذہنی توازن کھودیتاہے۔ مودی جی کوبرہمن ووٹ نہیں مل رہا ہے اس لئے وہ ان کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے جو کچھ بھی نہ کہیں کم ہے لیکن انہیں شرم آئی ہو یا نہ آئی ہو اتنے بڑے جھوٹ پر ہم تواس لئے پانی پانی ہوگئے کہ اگر وہ کل کو وزیراعظم بن گئے تو اتنے چھوٹے وزیراعظم کی کس بات پر یقین کریں گے اور کس پر نہیں؟۔
اسی قضیہ میں عمر عبداللہ وزیراعلیٰ کشمیر میں کودپڑے اورانہوں نے کہہ دیا کہ مودی جی سیکولرازم کا سبق ہمیں نہ پڑھائیں بلکہ ہم سے سیکھیں۔ ان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اتنی بلند ی پر رہتے ہیں جہاں تک ہرآواز نہیں جاپاتی۔ جہاں تک سیکولر ازم کا تعلق ہے اس کا مودی جی سے کوئی تعلق نہیں ان کے آقا موہن بھاگوت جی ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ وہ سیکولرازم کو نہیں مانتے اور مودی جی ان کو اتنا مانتے ہیں جتنا وہ کسی کو بھی نہیں مانتے اس لئے جب بات سیکولر ازم یا جمہوریت کی ہوتو مودی جی کو درمیان سے نکال دینا چاہئے۔
جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے تو شاید مودی جی نے اس کے معاملات کوکبھی پڑھا نہیں یا ضرورت نہیں سمجھی۔ ملک جب تقسیم ہوا تو ریاستوں کو یہ حق دیا گیا تھا کہ ان کی سرحد یں جس ملک سے ملتی ہوں اور ریاست کے رہنے والے جس ملک کے ساتھ رہنا پسند کریں اس کے ساتھ الحاق کرلیں۔ کشمیر ی سرحدیں پاکستان سے ملتی تھیں اور اس کی آبادی پاکستان کے ساتھ رہناچاہتی تھی لیکن ان کے لیڈر شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ انہیں ہرچیز سے اس لئے زیادہ عزیز تھے کہ وہ ان کی خاطر ہروقت مہاراجہ سے برسرپیکاررہتے تھے۔ شہر میں ہی ایک لیڈرمسلم لیگی تھی وہ بھی شیخ کے ساتھ تھے لیکن اس میں اختلاف تھا کہ کشمیر ہندوستان کے ساتھ رہے یا پاکستان کے؟شیخ عبداللہ اورپنڈت نہرو گہرے دوست بھی تھے اور پاکستان کے مخالف بھی انہوں نے راجہ کے ساتھ جاکر نہروجی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کا حاصل یہ تھا کہ ہندوستان فوجی طاقت کے ذریعہ پاکستانی فوج سے علاقہ خالی کرائے اور بعد میں عام رائے شماری کے ذریعہ یہ فیصلہ کرلیا جائے گا کہ کشمیر ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتاہے یا پاکستان کے یا خود مختارملک بن کر ۔
ہندوستان نے معاہدہ کے بعد کشمیر میں فوجیں اتاردیں اور پاکستانی فوجوں سے جنگ چھڑگئی ۔ اقوام متحدہ کی اپیل پر جنگ بند ہوئی تو اصل کشمیر ہندوستان کے پاس تھا اور کچھ حلقہ مظفرآباد اوربالا کوٹ جیسے چھوٹے شہر پاکستان کے پاس۔ہندوستان نے شیخ کو مشورہ دیا کہ ایک آئین ساز کونسل بنا کر کشمیر کا دستور بنالیا جائے۔ شیخ عبداللہ نے اعلان کردیا اور جب الیکشن ہوا تو کل75سیٹیں تھیں جوبلامقابلہ شیخ عبداللہ کی پارٹی کو مل گئیں۔نہروکو اتنی مقبولیت کا اندازہ نہیں تھااس لئے وہ چپ ہو کر بیٹھ گئے پاکستان اس فیصلہ میں برابربین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی شکایت کرتارہا اسی زمانہ میں 27؍اکتوبر 1947ء کو پنڈت نہرونے پاکستان کے وزیراعظم کولکھا کہ ۔بھارت کے ساتھ ریاست کا یہ الحاق محض عارضی وقتی اور ہنگامی ہے۔ الحاق کا حتمی فیصلہ ریاست جموں کشمیر کے باشندوں کی آزادانہ منصفانہ اور غیر جانب دارانہ رائے شماری سے ہوگا ۔ جو اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہوگی ۔
پنڈت نہرو نے اسی بات کو یا اس سے ملتی جلتی باتوں کو نہ جانے کتنی بارہرفورم سے کہا لیکن ان کی نیت شروع سے خراب تھی اور وہ کسی قیمت پر شہر چھوڑنا نہیں چاہتے تھے اس دوران کشمیر کو ایک لاگ ملک قراردیا گیا شیخ عبداللہ وزیراعظم بنائے گئے اور راجہ کرن سنگھ صدرریاست۔لیکن کشمیر پر بھارتی فوج مسلط رہی اس کے لئے شیخ نے دباؤڈالا کہ فوج ہٹاؤ اور رائے شماری کرائی جائے۔ جیسے جیسے نہروپہلوتہی کرتے رہے شیخ عبداللہ شیر کشمیر بنے رہے اور نتیجہ یہ ہوا کہ نہرونے انہیں اپنے خطرہ سمجھنا شروع کردیا اور 9؍اگست 1953کو انہیں کرن سنگھ سے معزول کرا کے جیل میں ڈال دیا کشمیر کو پوری طرح اپنی مٹھی میں لے لیا۔
مودی جی فاروق عبداللہ کو یا عمر عبداللہ کو جوچاہیں کہیں لیکن عبداللہ خاندان کہنے کی غلطی نہ کریں اس لئے کہ اگرشیخ عبداللہ نہ چاہے تو کشمیر پوراپاکستان میں ہوتا اس لئے کہ پوری آبادی مسلمان تھی ۔ شیخ نے سیکولرازم کا مظاہرہ کیا وطن سے محبت کا مظاہرہ کیا اور ایک کشمیری پنڈت نہرو پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کیا جس نے دوستی کی پیٹھ میں چھرا مارا اور اپنے اس دولت کو جس نے کشمیر دیا تھا 12برس جیل میں رکھا۔ شیخ عبداللہ وہ تھے کہ گاندھی جی نے ان کے سیکولرازم کی تعریف کی تھی اور یقین ہے کہ وہ اگر زندہ رہتے تو نہرو کو ااتنی بڑی بے ایمانی نہ کرنے دیتے ۔
جہاں تک کشمیری پنڈتوں کی بات ہے وہ کہانی پھر کبھی لیکن مودی جی جودنیا کاسب سے بڑاجھوٹ بول رہے ہیں اس پر انہیں شرم آنی چاہئے۔ ان پنڈتوں کے لئے جوکیمپ بنے تھے ان پر بنگلوں کو شرم آئی تھی اور آج سب عالیشان مکانوں میں رہ رہے ہیں جو حکومت نے بناکردئے ہیں اور حکومت نے جتنی ان کی مدد کی ہے ان کی چارنسلیں بھی کشمیر میں رہتے ہوئے اتنا نہیں کماسکتی تھیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر حکومت نے انہیں آواز دی کہ وہ واپس آجائیں اپنے مکانوں میں رہیں اس لئے کہ ان کے مکانوں اور دوکانوں کو مسلمانوں نے اس طرح نہیں لوٹاتھا جیسے گجرات میں مارنے اور جلا کر ختم کرنے کے بعد لو ٹ بھی لیا تھاور نہ وہ مودی کی حکومت میں مارے ہوئے بھوکے جانوروں کی طرح رہ رہے ہیں ۔
جواب دیں