کشمیر میں کالونی بنی تو حکومت ننگی ہوجائے گی

شری مودی نے ہی اپنی مہم کے دوران اشارہ دیا تھا کہ وہ وزیر اعظم بننے کے بعد کشمیری پنڈتوں کے لئے الگ کالونی بنائیں گے اور اس میں سب کو بسائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ دفعہ 370 پر لوک سبھا میں بحث کرائیں گے اور اس دفعہ کو دستور سے نکلوانے کی کوشش کریں گے۔ شری مودی نے بعض تقریروں میں اُن زخموں کو بھی کریدا تھا جو وہاں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تصادم سے لگے تھے اور بہت تلخ انداز میں وہ باتیں کہی تھیں جو سبرامنیم سوامی، اشوک سنگھل اور پروین توگڑیا جیسے نیتا کہتے رہتے ہیں لیکن یہ اس وقت کی باتیں ہیں جب وہ وزیر اعظم نہیں تھے۔ اور جب وہ وزیر اعطم بن گئے تو انہوں نے راج ناتھ سنگھ سے کہلا دیا کہ کشمیری پنڈتوں کے لئے کالونیاں بنانے کے لئے زمین کا انتخاب کیا جائے۔
ہم نے جب کبھی کسی کشمیری پنڈت کو اس مسئلہ میں بولتے ہوئے سنا ہے تو وہ قتل و غارت گری، ماردھاڑ، لوٹ مار اور آبروریزی کی ایسی درد بھری داستان سناتا ہے جیسے یہ دنیا میں ایسی واردات ہے جس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ انتخابی مہم کے دوران شری مودی نے بھی اسی ٹیپ کو بجاتے وقت یہ نہیں سوچا کہ اس سے ہزار گنا زیادہ دردبھری اور خون سے سرخ داستانیں پورے ملک میں مسلمانوں کے پاس ہیں جن کے سامنے کشمیری پنڈتوں کے ساتھ ہونے والا سلوک دھینگا مشتی، گھونسا لات اور چھیڑچھاڑ سے زیادہ نہیں ہے۔ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو تھے وہ بھی کشمیری پنڈت تھے اور انہوں نے شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ جو کیا وہ یہی جذبہ تھا کہ کشمیر ہندو راجہ کی ملکیت تھا اور وہ مسلمانوں کی نہیں کشمیری پنڈتوں کی جاگیر ہے۔ پنڈت نہرو اگر وزیر اعظم نہ بنتے تو کشمیر پاکستان کے ساتھ جاتا یا آزاد رہتا دوسرے وزیر اعظم اس کو موت اور زندگی کا مسئلہ نہ بناتے اور نہ شیخ عبداللہ انہیں اپنی حمایت دیتے۔
اب رہی بات کشمیری پنڈتوں کے لئے کالونی بنانے اور زمین کے انتخاب کی تو شری راج ناتھ سنگھ صرف بی جے پی حکومت کے وزیر داخلہ نہیں ہیں بلکہ پورے ملک کے وزیر داخلہ ہیں۔ وہ بتائیں کہ کیا 1961 ء میں جبل پور میں 1963 ء میں جمشید پور راؤڑ کیلا اور کلکتہ میں جو ہزاروں مسلمانوں کو کاٹ کر پھینک دیا گیا اُن کے لئے کالونیاں بنائی گئیں؟ 1969 ء میں جو احمد آباد میں فساد ہوا جسے مودی کا کلمہ پڑھنے والے ظفر سریش والا ملک کا سب سے بھیانک فساد بتاتے ہیں وہاں کے مسلمانوں کے لئے کالونیاں بنائیں گئیں؟ اس کے بعد 1980 ء میں مراد آباد میں اور 1987 ء میں میرٹھ میں مسلمانوں کا ایسا بھیانک قتل عام ہوا جسے اگر کشمیری پنڈت دیکھ لیتے تو ہری ہری کہتے ہوئے اور سرین پیتے ہوئے بھاگ جاتے۔ کیا اُن کے لئے کالونی بنائی گئی؟ اگر راج ناتھ سنگھ یا اُن کے سُر میں سُر ملاکر گانے والے یہ کہہ کر فرار اختیار کریں کہ یہ سب کانگریسی حکومتوں کے زمانے میں ہوا تھا تو ہمیں بتایا جائے گا کہ اٹل جی کی حکومت میں جب 2002 ء میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور ہزاروں مسلمان اپنا سب کچھ برباد ہونے کے بعد سرکار کے بنائے ہوئے شاہ عالم کیمپ میں سر چھپانے کے لئے آگئے تو کیا اُن کے لئے کالونی بنائی گئی؟
آج گجرات میں ہزاروں مسلمان شہر کے باہر جھگی جھونپڑی بناکر زندگی گذار رہے ہیں یہ وہ گجراتی مسلمان ہیں جن کے گھر احمد آباد میں موجود ہیں لیکن ان کے پڑوسی ہندوؤں نے کہہ دیا ہے کہ ہمارے محلہ میں ہندو بن کر رہنا ہو تو آجاؤ مسلمان بن کر نہیں رہ سکتے۔ اور اس کے بعد دس برس تک وہ مودی وزیر اعلیٰ رہے جو آج کشمیری پنڈتوں کے لئے کالونیاں بنانے کی بات کررہے ہیں جبکہ ہر کشمیری مسلمان کہہ رہا ہے کہ وہ ہمارے بھائی ہیں ہمارے ساتھ جیسے رہتے تھے ویسے ہی رہیں دن رات پوجا پاٹ کریں اپنے مندروں میں گھنٹے بجائیں کوئی مسلمان گجراتی ہندوؤں کی طرح ان سے نہیں کہے گا کہ اگر مسلمان بن کر رہنا ہے تو آؤ ورنہ جموں میں ہی رہو۔
حیرت کی بات ہے کہ وہ نریندر مودی جو اپنے گھر کا قصہ کوئلہ کی کالک کی کہانی فرانس میں سنانا ضروری سمجھتے ہیں صرف اس لئے کہ میں بہت پاک باز ہوں وہ ہزاروں مسلمانوں کے قتل ہوجانے کا معاوضہ تو کیا دیتے۔ مسلمانوں کو ان کے اپنے گھروں میں واپس لانے کے لئے بھی ہندوؤں کے سامنے بے بس ہوگئے۔ وہ کشمیر میں کشمیری پنڈتوں کے لئے الگ کالونی بنانے کا وزیر داخلہ کو حکم دیتے ہیں؟ اور انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ میں گجرات کے اور پورے ملک کے مسلمانوں کو کیا جواب دوں گا جن کے کان یہ کہتے کہتے پھاڑے ڈال رہا ہوں کہ۔ سب کا ساتھ۔ سب کا وکاس؟ ہمیں خوشی ہے کہ یاسین ملک اور میرواعظ جن پر علیٰحدگی پسند ہونے کا الزام ہے وہ اپنا دل ہتھیلی پر کھ کر اپنے کشمیری پنڈتوں کو بھائی کہہ کر بلا رہے ہیں اور اپنے درمیان میں انہیں بسانا چاہتے ہیں۔
جو کشمیری پنڈت جموں، پنجاب اور دہلی میں وہ رہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ وہ اس لئے کشمیر میں نہیں رہنا چاہتے کیونکہ وہاں موسم کی وجہ سے چار مہینے سردیوں میں کوئی کام نہیں ہوپاتا۔ اب پہلے کانگریسی حکومتوں نے انہیں دامادوں کی طرح رکھا ہے عالیشان مکانات لاکھوں روپئے ہر طرح کے پرمٹ اور لائسنس انہیں دیئے ہیں اور وہ سب سے زیادہ عیش و آرام سے ہیں ان کے لئے اگر کالونیاں بنیں تو ایسا نہیں ہے کہ حکومتوں نے جو عالیشان مکانات بناکر دیئے ہیں وہ ان سے واپس لے لئے جائیں گے بلکہ وہ اپنے نئے کالونی والے مکانات کو ہوٹل کی طرح کرایہ پر اُٹھائیں گے اور ایک حصہ اپنے بچوں کی تفریح کے لئے رکھیں گے کہ جب ملک میں آگ برس رہی ہو تو سیاحوں کی طرح اپنے عشرت کدوں میں دو مہینے کے لئے آجایا کریں۔ پنڈت نہرو سے لے کر نریندر مودی تک ہر وزیر اعظم نے کشمیری پنڈتوں کو دامادوں کی طرح رکھا ہے ان کی ہر خواہش پوری کی ہے انہوں نے جو مانگا ہے وہ دیا ہے اسی لئے کہ انہیں یہ برداشت نہیں کہ ملک کے چھوٹے سے حصے پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو۔ کل ایک ٹی وی مذاکرہ میں ایک کشمیری پنڈت آخری درجہ کی بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ جنہوں نے ہمیں مارا، لوٹا اور ہماری لڑکیوں کی آبروریزی کی وہ آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ یہ کہتے وقت اسے یہ غیرت نہیں آئی کہ اس ملک میں ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کرنے والے قاتل آزاد ہی نہیں گھوم رہے ہیں بلکہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے ممبر بھی ہیں وزیر بھی ہیں اور اپنی اپنی پارٹی کے لیڈر بھی۔
ہم وزیر داخلہ سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ پہلے یہ اعلان کریں کہ ملک ہندوؤں کا ہے، حکومت ہندوؤں کی ہے وہ دستور جس کی ہم نے قسم کھائی ہے وہ ردّی کی کتاب ہے اور قسم جھوٹی ہے اس ملک میں مسلمان کا کچھ نہیں ہے اور ہندو کا سب کچھ ہے۔ وزیر اعظم جو کہتے ہیں وہ جھوٹ ہوتا ہے اور وہ اور ہم جو کرتے ہیں وہ سچ ہوتا ہے۔ اور اعلان کریں کہ کشمیر میں مسلمانوں کا غلبہ ختم کرنے کے ہم پابند ہیں اس کے لئے کالونیاں بھی بنیں گی دوسرا اسرائیل بھی بنے گا وہاں آر ایس ایس کے کیمپ بنیں گے اور وہ سب کچھ ہوگا جس سے کشمیری پنڈت کشمیر میں حکومت کرسکیں۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ ہر حکومت نے دیکھا کہ ہر شہر میں مسلمان مارے گئے اور لوٹے گئے حد یہ کہ پولیس نے بھی ان ہی کو لوٹا اور آج وہ سب اسی شہر اسی محلہ اور اسی گاؤں میں ہیں سوائے گجرات کے کہ وہاں ہندوؤں نے انہیں قبول نہیں کیا اور مظفر نگر کے کہ جاٹ انہیں ساتھ رکھنے پر تیار نہیں۔ جب لاکھوں مسلمانوں کے لئے کالونی نہیں بنیں تو کشمیری پنڈتوں کے لئے ہم کیسے برداشت کریں گے؟

«
»

ارکان پارلیمنٹ کیلئے مشاہرات اور غیر معمولی سہولتیں کیوں

یمن ، عراق اور شام کے حالات مزید خطرناک موڑ اختیار کرتے جارہے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے