اور وقار رضوی صاحب کو غلط فہمی نہ پھیلانے کا جو مشورہ دے رہے ہیں اسے بھی کچھ دنوں کے لئے ملتوی کردیں اور اپنی ساری صلاحیتیں اس پر صرف کردیں کہ مولانا کلب جواد نقوی صاحب مولانا عبدالولی فاروقی صاحب اور سید وقار رضوی صاحبان اپنی تمام مصروفیات کو فی الحال چھوڑکر اپنی صلاحیتوں کو ان 12 لاکھ کشمیری بھائیوں کے لئے وقف کردیں جن کی آہ و زاری جن کی دربدری جن کی چیخ جن کی پکار اور قدرت کے ہاتھوں کسمپرسی ناقابل بیان ہوگئی ہے؟
ہمیں یہ اعتراف کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہورہی کہ ہر کشمیری ہندوستان اور اس کی فوج سے نفرت کرتا ہے۔ ہمارے حقیقی بھتیجے کئی برس سے وہاں پی آئی بی چیف کے عہدہ پر کام کررہے ہیں شکل و صورت سے بھی اور فطرت سے بھی دیندار ہیں ہر نماز میں مسجد میں بھی کشمیریوں سے باتیں ہوتی ہیں اور یوں بھی منکسرالمزاج، متواضع اور ملنسار ہیں ان سے اتنا معلوم ہوچکا ہے جس کے بعد اعتماد سے بات کہی جاسکتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہر گھر پر انگلش، اردو اور کاشمیری میں لکھا ہے ’’گو انڈیا گوبیک‘‘ انہوں نے ہی بتایا کہ جہاں دس پانچ نوجوان یکجا ہوجاتے ہیں وہ پاگلوں کی طرح آزادی آزادی آزادی کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔ لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہندوستان اور اس کی وہی فوج خدا کے بعد ان کا سہارا ہے ۔ فوج کے 20 ہزار جوان رات دن کشمیریوں کی جان بچانے میں لگے ہیں 6 ہیلی کاپٹر اور چھوٹے 20 ہوائی جہاز ایسے ایسے مقامات سے انسانوں کو نکال کر لارہے ہیں کہ اگر ایک دو دن ان کی خبر نہ لی جاتی تو ان کی لاشیں نکالنا پڑتیں۔ آج ٹی وی کی حیثیت یہ ہے کہ وہ گاؤں گاؤں میں نظر آتا ہے، بجلی نہ ہو تو لوگ بیٹری سے چلاتے ہیں اس لئے کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہاں کے حالات کیا ہیں؟ ہر آدمی کا سب کچھ تباہ ہوچکا ہے اور شاید کمر سیدھی ہونے میں کئی برس لگیں گے لیکن اصل مسئلہ اس وقت جان بچانے کا ہے کیونکہ بارہ لاکھ کے شہر میں تمام اسپتال ڈوب چکے ہیں صرف ایک اسپتال باقی ہے اور دوائیں سب بھیگ کر برباد ہوچکی ہیں۔
ہم نہیں جانتے کہ جناب سید تسنیم مہدی کی عمر کیا ہے؟ اگر انہوں نے لکھنؤ میں آیا ہوا 1960 ء کا سیلاب دیکھا ہو تو انہیں یاد ہوگا کہ شہر ڈوبتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ اور پل، جس پر سیکڑوں بڑے چھوٹے کھڑے ہوں اس کے دونوں کنارے بہہ جائیں تو کیسی چیخ پکار سننے کو ملتی ہے؟ اور سننے والوں کا کلیجہ پھٹتا ہے۔ انہوں نے اگر نہ دیکھا ہو تو ان سے معلوم کرلیں جنہوں نے دیکھا تھا۔ اس وقت لکھنؤ کے ہر گلی کوچوں میں کڑھاؤ چڑھے تھے اور پوری آلو کے پیکیٹ لاکھوں کی تعداد میں بانٹے گئے تھے۔ آج اس سے بہت زیادہ سنگین مسئلہ ہے جی چاہتا ہے کہ میرے بھائی مولوی عبدالولی فاروقی خود جاکر مولانا کلب جواد صاحب سے ملیں وقار رضوی صاحب کو بھی بلالیں اور پورے شہر سے کم از کم پچاس ٹرک سامان کشمیر بھیجنے کا نشانہ بنائیں جس میں کمبل خیمے پلاسٹک شیٹ گدے پانی کی بوتلیں شکر چائے خشک دودھ اور مردانہ، زنانہ اور بچوں کے وہ کپڑے جو اس وقت تن پوشی کے کام آئیں اور سردی میں ان کی جان بچائیں اس لئے کہ وہاں کسی کے پاس کچھ نہیں بچا ہے اور سب سے زیادہ فکر کی بات یہ ہے سیب جس کی فصل تیار تھی وہ 75 فیصدی برباد ہوگئی ہے۔
لکھنؤ نے صرف لکھنؤ والوں کی مدد ہی نہیں کی ہے بلکہ جمشید پور راوڑ کیلا اور کلکتہ تک سامان اور نقد روپئے پہونچائے ہیں بلکہ ہر جگہ مدد کی ہے ہمارے لئے کشمیر اس لئے زیادہ اہم ہے کہ وہ چکی کے دو پاٹوں میں پس رہا ہے۔ اور جس فوج کو وہ ہر وقت گوبیک کہتا تھا آج اسے فرشتہ کہہ رہا ہے اس لئے کہ جس طرح وہ مردوں اور عورتوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعہ موت کے منھ سے نکال کر لارہے ہیں یہ ان کی ہی مہارت اور تربیت ہے۔ 20 ہزار فوجی ہی نہیں کمانڈر انچیف بھی خود آکر دیکھ گئے اور ہدایات دے گئے ہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہئے۔
شہر میں بینر لگوانا ہوں تو یہ خدمت اپنے پریس سے ہم انجام دیں گے پورے شہر میں بینر لگواکر گھر گھر یہ پیغام پہونچا دیا جائے کہ
تم زمین پر رہنے والوں پر رحم کرو
آسمان پر رہنے والا تمہارے اوپر رحم کرے گا
لکھنؤ جیسے شہر میں 50 ٹرک سامان جمع ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اعلان کردیا جائے کہ کھانے کا پکا ہوا سامان ڈبل روٹی اور بند کو چھوڑکر کچا راشن اور ضرورت کی چیزیں۔ اگر حسین آباد ٹرسٹ اجازت دے تو آصفی امامباڑے میں جمع کرکے وہاں سے ٹرک روانہ کئے جائیں۔ فی الحال ٹرکوں کی آمد و رفت بند ہے لیکن جس طرح دھیرے دھیرے پانی اتر رہا ہے اس سے اُمید ہے کہ جب تک سامان جمع ہوگا راستے انشاء اللہ کھل جائیں گے۔ اور ہوسکتا ہے کہ جب آپ پڑھ رہے ہوں تو کھل چکا ہو۔
ڈاکٹروں سے یہ مشورہ کرلیا جائے کہ وبائی امراض میں کام آنے والی دوائیں کون کون سی ہوتی ہیں اس کا جتنا زیادہ اسٹاک جمع کیا جاسکے جمع کرلیا جائے اس لئے کہ جس دن پانی اترے گا اسی دن وبائی امراض کمزور اور بھوکے پیاسے شہریوں پر حملہ آور ہوجائیں گے۔
ہم اور آپ اس وقت سب اس لئے بے بس ہیں کہ موبائل کام نہیں کررہے۔ فوج کی کوشش ہے کہ بجلی پانی اور خبررسانی کا ذریعہ موبائل بحال ہوجائے تاکہ کشمیر ہندوستان سے جڑجائے اس وقت تو حالت یہ ہے کہ ہمارا گھر سب کے لئے دعا میں مصروف ہے۔ ہمارے جو بھتیجے عبید میاں سری نگر میں تھے ان کے متعلق ان کے جموں آفس سے بس ایک خبر آئی تھی کہ ان کا پورا آفس کسی محفوظ جگہ پہونچا دیا گیا ہے۔ خود ہماری نہ ان سے بات ہوسکی اور نہ میرے بیٹے کے دوست ڈاکٹر قیصر جو خود بھی کالج میں پڑھاتے ہیں اور ان کی بیوی بھی ان کے موبائل بھی موت کی نیند سو رہے ہیں اس لئے ابھی تو بس وہی معلوم ہے جو ٹی وی میں دکھایا جارہا ہے اور سنایا جارہا ہے۔ حالات کچھ بہتر ہوں تو صحیح صورت حال معلوم ہوگی۔ اس وقت تو دماغ پر بس ایک تقاضہ سوار ہے کہ کیسے ان کی مدد کی جائے جو مدد کے لئے آواز دے رہے ہیں۔
جواب دیں