کاروانِ حیات ہے سوئے عدم رواں دواں۔۔۔۔

   عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

    پچھلے ایک ڈیڑھ ہفتے سے خویش و اقارب،دوست و احباب اور شناسالوگوں میں کسی نہ کسی کے ارتحال کی خبرہرروز سننے کو مل رہی ہے اور کاروانِ زندگی تیزگامی کے ساتھ اپنی اصل منزل کی طرف کوچ کرتا نظر آرہا ہے۔ان وفات پاجانے والوں میں بوڑھے بھی ہیں اور بچے بھی، مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی،توانا بھی ہیں اور بیماربھی، علماءِ وقت بھی ہیں اور عوام الناس بھی۔
     یہ حقیقت ہے کہ ہرذی نفس دارِفنا سے عالم بقا کی طرف عازم سفر ہے۔ ہر سانس زندگی سے ایک لمحے کو کم اور ہر قدم انسان کومنزل سے قریب تر کر رہا ہے۔ عقل مند مسافر اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد اپنے گھر کی طرف واپسی کی فکر کرتے ہیں، وہ نہ پردیس میں دل لگاتے ہیں اور نہ اپنے فرائض سے بے خبر شہر کی رنگینیوں اور بھول بھلیوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ ہماراحقیقی وطن آخرت ہے، ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک ذمہ داری سونپ کرمحدود وقت کے لیے دنیا میں روانہ کیا ہے۔ عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم عارضی زندگی کو دائمی تصور کرنے کے بجائے اپنے اصل ٹھکانے کی فکرکریں۔حضرت عبداللہ بن عمرؓفرماتے ہیں:میں نبی کریمﷺکے ساتھ تھا کہ ایک انصاری آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے،آپﷺکو سلام کیا اور عرض کیا:یا رسول اللہ! کون سا مومن افضل ہے؟ ارشاد فرمایا ”جس کے اخلاق عمدہ ہوں۔ انہوں نے پھر عرض کیا: سب سے زیادہ عقل مندکون ہے؟ ارشاد فرمایا”جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہو اور اس کی اچھی طرح تیاری کرتا ہو، وہی سب سے زیادہ عقل مند ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الموت والاستعداد لہ)اسی کے ہم معنی ایک اور روایت حضرت شداد بن اوس ؓسے مروی ہے، حضور اقدس ﷺنے ارشاد فرمایا:عقل مندوہ ہے جو اپنے نفس کو اپنا تابع دار بنا لے اور موت کے بعد کے لیے عمل کرے اورعاجز وہ شخص ہے جو اپنی خواہشات پر چلتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید بھی کرتا ہو۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ)
    ذرا غور فرمائیے! ہم لمحہ بہ لمحہ موت کی جانب بڑھ رہے ہیں، گردش لیل و نہار عمر عزیز کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے،صیرفیئ کائنات ہردن تازہ انقلابات برپاکررہی ہے؛مگر ہم اس احساس سے غافل ہیں کہ جو چیز ہر روز کم ہوتی رہتی ہے وہ بالآخر ختم  ہو جاتی ہے اور جو لمحہ گزر جاتا ہے،وہ کبھی واپس نہیں آتا۔
اول  وآخر   فنا، باطن  وظاہر فنا
نقشِ کُہن ہو کہ نَو،منزلِ  آخر  فنا
    اللہ رب العزت کا فرمان ہے:ہم نے موت و حیات کو اس لئے تخلیق کیا؛ تاکہ یہ دیکھیں تم میں سے کون اچھے اعمال کرتا ہے۔(ملک) انسانوں کو پرکھا جا رہا ہے اور مسلسل مہلت دی جارہی ہے؛تاکہ وہ خود  اس بات کا فیصلہ کرسکے کہ وہ اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنانا چاہتا ہے یا جہنم رسیدکرنا چاہتا ہے۔ ہادیئ برحق رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے، ہر روزسارے نفوس اپنے آپ کواللہ کے ہاتھ فروخت کر دیتے ہیں اور پھر اس سودے کے عوض کوئی اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچا لیتا ہے تو کوئی اپنے آپ کو اس کا مستحق بنا دیتا ہے۔ (مسلم شریف)گویاانسان اپنے نفس کو بیچ کر جو مہلتِ عمل حاصل کرتا وہی اس کی متاع حیات ہے۔ اس بیش بہا خزانے کی اگر وہ قدردانی کرتا ہے تو گویادارین کی فلاح پالیتاہے اور اگر اس کابے جا استعمال کرتا ہے تب اپنے آپ کو غضب کا مستحق بنا لیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر زندگی کے ایک ایک لمحے کو غنیمت جاننے اور اسے طاعت و عبادت میں صرف کرنے کی تلقین فرمائی ہے،ایک موقع پر ارشادفرمایا:پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے پہلے غنیمت سمجھو اور ان سے فائدہ اٹھاؤ!جوانی کو بڑھاپے سے پہلے،صحت کو بیماری سے پہلے،امیری کو فقیری سے پہلے،فراغت کو مصروفیت سے پہلے،زندگی کو موت سے پہلے۔حالی مرحوم نے اس کا کیا ہی خوب ترجمہ کیا ہے؎
غنیمت ہے صحت علالت سے پہلے 
فراغت مشاغل کی کثرت سے پہلے
جوانی بڑھاپے کی زحمت سے پہلے
فقیری سے پہلے غنیمت ہے دولت
جو کرنا ہے کر لو کہ تھوڑی ہے مہلت
    موت بہ ظاہر ایک معمولی سا سہ حرفی لفظ ہے؛مگر اس کے بعدلذتیں ختم ہوجاتی ہیں،امیدیں منقطع ہوجاتی ہیں، خاندان بچھڑ جاتے ہیں، جماعتیں تباہ ہوجاتی ہیں، اور پیاروں سے دوریاں پیداہو جاتی ہیں، موت و حیات کا یہ سلسلہ اسی قادرمطلق کے قبضہئ قدرت میں ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:وہی ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے، رات اور دن کا آنا جانا اسی کیاختیار میں ہے، کیا تم عقل نہیں رکھتے(المؤمنون: 80) موت کو کوئی دربان روک نہیں سکتا، کوئی پردہ اس کے درمیان حائل نہیں ہو سکتا، موت  کے سامنے مال،اولاد، دوست  احباب سب بے بس ہوتے ہیں، موت سے کوئی چھوٹا، بڑا، امیر، غریب، با رعب یا بے رعب کوئی بھی نہیں بچ سکتا، فرمانِ خداوندی ہے: تم جہاں بھی ہو گے تمہیں موت پا لے گی، چاہے تم پختہ قلعوں میں ہی کیوں نہ ہو(النساء: 78)اسی طرح اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے:آپ کہہ دیں: جس موت سے تم بھاگتے ہو، وہ تمھیں ضرور ملے گی، پھر تمھیں خفیہ اور اعلانیہ ہر چیز جاننے والے کی جانب لوٹا دیا جائے گا، پھر وہ تمھیں تمہاری کارستانیاں بتلائے گا۔(الجمعہ: 8) ایک اور مقام پر یوں فرمایا: جب کسی نفس کی موت کا وقت آگیا تو اللہ تعالی کسی کو ہر گز مہلت نہیں دے گا،اور اللہ تعالی تمہارے کاموں سے باخبر ہے۔(المنافقون: 11) یوں توزندگی کے اسٹیشن پر ایک قطار میں سب اپنی باری کے منتظر ہیں کہ کب کس کا بلاوا آ جائے؟ اور کب کسے قطار کے درمیان سے اُٹھا کر معلوم منزل کے غیرمعین سفر پر روانہ کر دیا جائے؟ ہم یہ سوچ کر مطمئن رہتے ہیں کہ ابھی قطار میں ہمارا نمبر کافی پیچھے ہے۔زندگی کے بڑھتے سالوں کی مشقت اور بھاگ دوڑ ہمیں اس سچ کے سامنے جان بوجھ کر آنکھ بند کرنے پر مجبور کر دیتی ہے؛تاآ ں کہ ہمارااپنا،کوئی جگر کا ٹکڑا یا ہمیں چاہنے والا اس کی گرفت میں آکر ہمیشہ کے لیے نظر سے اوجھل نہ ہو جائے۔اس وقت بے حقیقت زندگی کے سامنے موت کی سچائی کھل کر سامنے آتی ہے۔
استحضارِ موت کے عجیب واقعات:
    بندے کوہر آن موت کا استحضار ہونا چاہیے کہ نہ معلوم کب آجائے۔قرآن مجید کی سورۃ آلِ عمران، سورۃ انبیاء اور سورۃ عنکبوت میں ان الفاظ کو دُہرایا گیا ہے کہ ”ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے“ مگر شیطان ایسا ازلی دُشمن ہے جو انسان کو مختلف حیلوں، بہانوں اور سنہرے خوابوں کی آڑ میں موت جیسے تصوّر سے دور رکھتا ہے۔ دُنیا کے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا انسان موت کواٹل حقیقت گردانتا ہے اور جب نقارہئ موت ایک دن بجنا طے ہے اور ہمیں اس پر لبیک کہنا ہے اور پھر ایک لمحہ کی فرصت بھی نہیں ملنی ہے تو اس سے پہلے پہل اپنے دامن کوگناہوں سے جھاڑ لینا چاہیے اور وقت کو غنیمت جانتے ہوئے اعمالِ حسنہ میں صرف کر دیناچاہیے۔ 
    حضرت ابن مسعودؓ کے تلمیذخاص سیدنا ربیعؒ کے سلسلے میں منقول ہے کہ انہوں نے پوری زندگی موت کے انتظار میں گزار دی، حق تعالیٰ کی ملاقات کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے کہ آج نہیں؛ بلکہ ابھی ملک الموت بلانے کے لیے آجائے تو اس کے ساتھ جانے کے لیے ذرا بھی غور و فکر نہ کرنا پڑے اور فوراً لبیک کہہ دیں۔جب موت کاوقت قریب آیا تو ان کی بیٹی رونے لگی۔ یہ امتحان کا وقت ہوتا ہے کہ باپ جارہا ہواور ایسے سفر پر جارہا ہو جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں لوٹا اور بیٹی رو رہی ہو، یہ منظر دیکھ کر کون ہے جس کے آنسو نہ آتے ہوں؛ لیکن جس باپ نے دنیا ہی میں آخرت کے لیے محنت کرلی ہو گی اور روزانہ رات کو موت کو سوچ کر سویا ہوگا کہ ایک دن مرنا ہے، سب کو چھوڑ کر جانا ہے اور جہاں جانا ہے وہاں کی تیاری کرنی ہے، اگر وہاں اعمال لے کرگئے تو ہمیشہ ہمیشہ بیوی بچوں کے ساتھ خوشیوں میں رہنا نصیب ہوگا۔ ایسے باپ کا جوجواب ہوتا ہے وہی انہوں نے کہا اور فرمایا:”اے بیٹی کیوں روتی ہو، تمہارے والد کوتو بہت ہی بہتر چیز مل رہی ہے۔“وہ اپنے خالق و مالک سے ملنے جارہے ہیں جنت اور اس کی نعمتیں ان کا ٹھکانہ بنیں گی اور چند دنوں بعد تم بھی اپنے والد کے ساتھ جاکرملوگی۔یہ کہہ کر انہوں نے اپنی روح اس کے پیدا کرنے والے کے سپرد فرما دی اورانتقال کر گئے۔
     ایک محدث کا عجیب واقعہ ہے کہ وہ ایک اور محدث کے پاس حدیث سیکھنے کے لیے گئے، انہوں نے پوچھا کہ زبانی سناؤں یا کتاب سے سناؤں؟ کہنے لگے کہ کتا ب سے سننا چاہتا ہوں، اس پر وہ محدّث کتاب لا نے کے لئے اپنی جگہ سے اٹھے اور اندر جانے لگے تو ان صاحب نے کہا کہ حضرت!پہلے زبانی سنادیجئے، چنانچہ انہوں نے زبانی سنا دی اور پھر پوچھا:یہ کیابات ہے کہ آپ نے پہلے تو کہا کہ کتاب سے سننا چاہتا ہوں اور جب میں اٹھا تو آپ نے کہا کہ زبانی سنا دیجئے؟اس سوال پر انہوں نے عجیب بات فرمائی کہ میں سننا توچاہتا تھا کتاب ہی سے، مگر جب آپ اٹھ کر کتاب لانے اندرجانے لگے تو خیال ہوا کہ آ پ اندر جائیں گے اور کتاب نکال کر لائیں گے، اس میں کچھ وقت لگے گا اور یہ معلوم نہیں کہ موت کا وقت کب ہے، اگر اسی دوران مرگیا تو بغیر حدیث سنے مرتا؛ اس لیے میں نے گزارش کی کہ پہلے زبانی سنا دیں، پھر فرما یا: کہ اب آپ کتاب سے بھی سنادیجئے تاکہ بات پختی اور پکی ہو جا ئے۔ (افادات ابرار)
    امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ عمربن عبد العزیزؒ نے ہمارے نام ایک پیغام لکھ کر ارسال کیا، جس میں لکھا ہوا تھا“ جو کثرت سے موت کو یادکرے گا وہ دنیا کے قلیل ساز وسامان پر راضی ہوجائے گا او رجو سوچ سوچ کر گفتگو کرے گا وہ لایعنی گفتگو سے محفوظ رہے گا اور عمل زیادہ کرے گا“۔ (احیاء علوم الدین)حضرت ابراہیم تیمیؒ فرماتے ہیں: ”دو چیزوں نے مجھ کو دنیاکی ہر لذت سے بے نیاز کردیا، ایک موت نے دوسرے قیامت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونے کی فکر نے۔“ حضرت کعبؓ فرماتے ہیں: ”جو شخص موت کو پہچان لے اُس پر دنیاکی ساری مصیبتیں آسان ہیں۔
الحاصل:
    موت سے پہلے موت کی تیاری  کے سلسلے میں مولانا عبدالماجد دریابادیؒ کی تحریر سے اس چشم کشااقتباس پر اپنی بات ختم کرتے ہیں،ارقام فرماتے ہیں:ایک مرتبہ آپ خود اپنی جگہ پر دوست آشناؤں کے مجمع سے الگ، تنہائی میں بیٹھ کر، اپنی ساری عمر پر ایک نظر کرجائیے،اور ذرا سوچئے کہ عمر عزیز کا کتنا حصہ اب تک خدا کی مرضی کے موافق بسر ہوسکاہے،اپنی زندگی میں کس درجہ تک خدائی قوانین کا اہتمام کرسکے ہیں؟ خالق ومخلوق کے حقوق کس حد تک ادا ہوسکے ہیں؟ نماز کی پابندی کس حد تک قائم رہی ہے؟ روزہ، زکوٰۃ اور حج کے فرائض کہاں تک ادا ہوئے ہیں؟ اللہ کا خوف دل میں رہاہے؟ رسولؐکی محبت سے گوشہئ قلب منورہے؟ ایمان کی لذت وحلاوت سے طبیعت آشنا ہے؟ مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی وخلوص کا احساس رہا ہے؟والدین کی خدمت گزاری کی توفیق ملی ہے؟ میراث میں لڑکیوں، بہنوں، اور پھوپھیوں کوان کے شرعی حقوق دئیے ہیں؟ غیروں کی غلامی سے نکل کر خداکی غلامی میں آنے کی پوری کوشش کی ہے؟ بچوں کی تعلیم وتربیت میں ان کے حُسن عمل وخیر عاقبت کا خیال زیادہ رہاہے، یا اُن کی آمدنی وملازمت کا؟ اپنے خاندان اور اپنے گھرانے میں صدہا رسمیں جو خلافِ شریعت برپا دیکھیں، اُن کے مٹانے میں اپنی والی پوری کوشش کردیکھی؟ فضول خرچی وبدزبانی پر قابو رکھا؟کیا یہ سوالات آپ کے نزدیک، لغو، بے نتیجہ، وناقابل التفات ہیں؟۔۔۔۔اگرنہیں تو پھرمحاسبے سے پہلے محاسبہ کیجیے اور موت سے پہلے موت کی تیاری۔۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

27جون2020(ادارہ فکروخبر)
 

«
»

یادوں کے جھروکے۔(1)

ارطغرل سیرئیل پر دار العلوم دیوبند کا فتوی؛کیا تنگ نظری پر مبنی ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے