’’ آپ کا نام پروفیسر ثاقب ہے ؟‘‘
’’جی ہاں ! ‘‘
’’آپ کو ہمارے ساتھ پولیس اسٹیشن چلنا ہو گا ۔ ہمیں آپ کے گھر کی تلاشی لینی ہو گی ۔ ‘‘
’’وجہ ؟‘‘
’’وجہ ایسی ہے جو ہم اس وقت بتا نہیں سکتے ۔ پولیس اسٹیشن چلئے آپ کو تفصیل سے بتائیں گے ۔ ‘‘ ’’دیکھیے میں ایک شریف آدمی ہوں ۔ شہر کے ایک نامی گرامی کالج کا پروفیسر ہوں ۔ بلا وجہ میں آپ کو اپنے گھر کی تلاشی لینا تو دور اپنے گھر میں قدم رکھنے بھی نہیں دوں گا ۔ ‘‘
’’ہمیں پتہ تھا پروفیسر صاحب ! آپ کے گھر میں ہمیں یہی جواب ملے گا اس لیے ہم پوری تیاری سے آئے ہیں ۔ ہمارے پاس ضلع کے مجسٹریٹ کا جاری کردہ نہ صرف آپ کے گھر کی تلاشی لینے کا حکم نامہ ہے بلکہ آپ کو گرفتار کرنے کا وارنٹ بھی ہے ۔‘‘ انسپکٹر نے اس کی بات سن کر مسکرا کر کہا اور اس کی طرف دو کاغذات بڑھا دئیے ۔ اس نے کاغذات ہاتھ میں لے کر غور سے پڑھا ۔ سچ مچ مجسٹریٹ کا جاری کردی اس کے گھر کی تلاشی کا حکم نامہ اور اسے گرفتار کرنے کا وارنٹ تھا ۔
’’میں قانون جانتا ہوں اور قانون کا احترام بھی کرتا ہوں ۔‘‘ وہ ان کاغذات کو دیکھتا انسپکٹر سے بولا ،’’اب آپ میرے گھر کی تلاشی لینے اور مجھے گرفتار کرنے کا حکم نامہ حاصل کر ہی لیا ہے تو میں قانون کا احترام کرتے ہوئے نہ تو آپ کو اپنے گھر ی تلاشی لینے سے روکوں گا اور نہ آپ کے ساتھ پولیس اسٹیشن جانے میں کوئی بہانہ کروں گا ۔ آپ شوق سے اپنا کام کیجیے ۔ ‘‘
اس کی اجازت کی دیر تھی ۔ پولیس کے ساتھ آئے تمام افراد کسی توڑو دستے کی طرح گھر میں گھس آئے اور گھر کی ہر چیز کو تہس نہس کرنے میں لگ گئے ۔
’’ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ اور کیا کر رہے ہیں ؟ ‘‘آوازیں سن کر بیو ی گھر کے باہر آئی اور زور زور سے چیخنے لگی ۔
’’ثمینہ ! تم خاموش رہو ، یہ پولیس والے ہیں اور ہمارے گھر کی تلاشی لینے آئے ہیں ،انھیں اپنا کام کرنے دو ۔‘‘ اس نے بیوی سے کہا ۔
’’لیکن یہ کس لیے ہمارے گھر کی تلاشی لے رہے ہیں؟ ہم نے کیا گناہ کیا ہے ؟ ہمارا جرم کیا ہے ؟ اور یہ گھر کی تلاشی لے رہے ہیں یا گھر کی چیزوں کو تہس نہس کر رہے ہیں ،‘‘….. ثمینہ چیخی ۔
’’ثمینہ تم اپنے آپ کو سنبھالو … ٹینشن مت لو ۔ پولیس کا طریقہ کار یہی ہے ۔ ‘‘
ایک گھنٹے میں برسوں کی محنت اور سلیقہ سے سجا ہوا گھر تہس نہس ہو کر کسی ڈمپنگ گراؤنڈ کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا تھا ۔ تلاشی لینے والوں کے چہروں پر مایوسی کے تاثرات تھے ۔ ان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں لگا تھا ۔ کوئی بھی ایسی چیز نہیں جس کی بنیاد پر اپنی تلاشی کو جائز درست قرار دیا جا سکے ۔
’’ ٹھیک ہے پروفیسر صاحب ….آپ کو ہمارے ساتھ پولیس اسٹیشن چلنا ہوگا ‘‘انسپکٹر نے کہا ۔
’’چلئے … جب گھر کی تلاشی لے لی ہے تو پولیس اسٹیشن چلنے میں کیا حرج ہے ؟ ‘‘
جب وہ بلڈنگ کی سیڑھیاں اتر کر پولیس کی جیپ کی طرف جانے لگا تو اس نے دیکھا اس کی بلڈنگ کے گرد پوری کالونی جمع ہو گئی تھی ۔ ہر کوئی حیرت سے کبھی اسے کبھی پولیس کو دیکھ رہا تھا ۔مگر کسی میں بھی اتنی ہمت نہیں تھی کہ آکر اس سے پوچھتا ۔
’’پروفیسر صاحب ! کیا بات ہے ؟ پولیس کیوں آئی ہے ؟ یہ آپ کو کہاں لے جا رہے ہیں ؟ یا پولیس سے پوچھتا .. آپ پروفیسر ثاقب کو کہاں لے جا رہے ہیں ؟ یہ کوئی عادی مجرم نہیں ایک عزت دار آدمی ہیں ۔ آپ ان کے ساتھ عادی مجرموں کی طرح برتاؤ کر رہے ہیں؟‘‘ وہ جانتا تھا پولیس کی ایک ایسی قوت ہے جس کا سامنا کرنے سے ہر نیک شریف انسان کتراتا ہے ۔
اسے پولیس اسٹیشن لایا گیا ۔
’’ہاں انسپکٹر صاحب ! اب بتائیے معاملہ کیا ہے ؟‘‘ اس نے پوچھا ۔
’’ پروفیسر صاحب وزیر اعلیٰ کو ایک گم نام خط ملا ہے جس میں لکھا ہے کہ آپ کا تعلق دہشت پسندوں سے ہے ۔ آپ کا تعلق القاعدہ سے ہے ۔ آپ ریاست کے القاعدہ یونٹ کے کمانڈر ہیں ۔ آپ کے انڈر ورلڈ سے تعلقات ہیں ۔ آپ کو فوراً گرفتار کر لیا جائے ورنہ آپ شہر میں ۱۱/۹ کی طرز پر دھماکے کر کے اہم عمارتوں کو نشانہ بنانے والے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ نے وہ خط ہمیں بھیج کر فوراً جانچ کر کے کاروائی کرنے اور رپورٹ کرنے کا حکم دیا ہے ۔ ‘‘
’’میرا تعلق دہشت گردوں سے ؟ میں ریاست میں القاعدہ یونٹ کا کمانڈر ؟ میں شہر میں ۱۱/ ۹ کی طرز پر دھماکے کرنے والا ہوں ؟‘‘….. وہ انسپکٹر کی آنکھوں میں دیکھتا بولا ۔
’’ہاں خط میں یہی لکھا ہے ۔ ‘‘
’’کس نے بھیجا ہے خط ؟‘‘
’’خط میں کسی کا نام نہیں لکھا ہے ! گمنام خط ہے ۔ ‘‘
’’میں اگر وزیر داخلہ کو گمنام خط لکھوں کہ وزیر اعلیٰ کا تعلق دہشت گردوں سے ہے ۔ وہ القاعدہ کے ایجنٹ ہیں تو کیا وزیر اعلیٰ کے خلاف بھی وہی کاروائی ہو گی جو میرے خلاف کی گئی ہے ؟‘‘…. اس نے کہا اور سختی سے اپنے ہونٹ بھینچ لیے ۔
’’پروفیسر صاحب ! ہم اس بارے میں کچھ نہیں جانتے ۔ ہمیں جانچ کرنے اور کاروائی کرنے کا حکم دیا گیا تھا ،ہم نے وہی کیا ہے ۔‘‘
’’ آپ نے جانچ کر لی ہے اب کاروائی کیجیے ۔ بلائیے پریس کانفرنس اور میرے سر پر کالا کپڑا لپیٹ کر پریس والوں کے سامنے کھڑا کر دیجئے اور اعلان کیجیے کہ ایک نامی گرامی کالج کا پروفیسر القاعدہ کا ریاستی یونٹ کا کمانڈر نکلا ۔ وہ ۱۱/۹ کی طرز پر شہر میں دھماکے کرنے والا تھا ۔ ‘‘
’’پروفیسر !‘‘ انسپکٹر کا چہرہ بھی تن گیا ….’’ اگر ہمارے ہاتھ ایک معمولی بھی ثبوت لگ جاتا نا تو وہی ہوتا جیسا تم سوچ رہے ہو ۔ ‘‘
’’اب بھی کیا بگڑا ہے ۔آپ لوگ تو بنا ثبوت کے بھی یہ سب کر سکتے ہو ، ‘‘وہ بولا ۔ ’’آپ صرف الزام لگا کر میرا ۱۰ ، ۲۰ دن کا ریمانڈ آسانی سے لے سکتے ہیں اور ان باتوں کی تشہیر کر کے اپنے آپ کو میڈیا کا ہیرو بنا سکتے ہیں ۔ دو چار سال تک کیس چلے گا تب جا کر یہ ثابت ہوگا ایسی کوئی بات نہیں تھی ۔ پروفیسر صاحب بے گناہ ہیں ۔ اس پر لگائے گئے سارے الزامات غلط ہیں ۔ اس لیے عدالت پروفیسر کو با عزت بری کرتی ہے ۔ تب تک تو پروفیسر ثاقب کی دنیا لٹ گئی ہو گی ۔ سارا زمانہ اسے القاعدہ کا ایجنٹ سمجھ رہا ہوگا ۔ ‘‘
’’یہ بات آپ وزیر اعلیٰ سے کہیے جس نے ہمیں یہ کاروائی کرنے کا آرڈر دیا ہے ،‘‘ انسپکٹر بولا ۔
’’ٹھیک ہے ، اب بتائیے آپ کیا کرنے والے ہیں ؟ ‘‘
’’بس آپ کا بیان لینا ہے ۔ ‘‘
’’کس طرح کا بیان ؟‘‘
’’اس معاملے میں آپ کا کیا بیان ہے ؟ خط میں آپ پر جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ درست ہیں یا غلط ؟‘‘
’’میری جگہ اگر آپ ایک دہشت گرد کو گرفتار کر کے لاتے اور اس سے بیان لیتے تو وہ بھی وہی بیان دیتا جو میں دینے والا ہوں ۔ میں بے قصور ہوں ، مجھے پر جھوٹے ، من گھڑت الزامات لگائے گئے ہیں ۔ یہ مجھ کو پھنسانے کی سازش ہے ۔ ‘‘
’’پروفیسر صاحب ! ‘‘انسپکٹر نرمی سے بولا ، ’’آپ کو جو بیان دینا ہے دے دیجئے ۔ آپ کے گھر کی تلاشی کی رپورٹ اور آپ کا بیان وزیر داخلہ کر روانہ کر دیا جائے گا اور بتا دیا جائے گا کہ ہم نے کیا کاروائی کی ہے ۔ ہم اگر یہ بھی کاروائی نہ کریں تو ہم پر الزام لگے گا کہ ہم نکمے ہیں ۔ ہم نے پیسہ کھایا ہے ۔ پیسہ کھا کر کاروائی نہیں ۔ اس بات کو ہم بھی سمجھتے ہیں ایک گمنام خط کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے ۔ آپ کے کسی دشمن نے جل کر یہ کاروائی کی ہوگی یا آپ کے کسی شاگرد نے شرارت میں یہ خط لکھا ہوگا۔لیکن ہم وزیر داخلہ کے حکم کے آگے مجبور ہیں ۔ وہ ہمارے مائی باپ ہیں ۔ ہم ان کی حکم عدولی کیسے کر سکتے ہیں ۔ ہمیں تو مجبوراً یہ کاروائی کرنی ہی تھی ۔ ‘‘
’’آپ وزیر داخلہ کو جو جانچ رپورٹ روانہ کریں گے اس میں برائے کرم یہ بھی لکھ دیجئے کہ ………………‘‘. وہ انسپکٹر کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا ’’گرفتار ملز م جس پر القاعدہ کے کمانڈر ہونے کا الزام ہے اپنے مضمون کا یونیورسٹی کا ٹاپر اور گولڈمیڈلسٹ ہے ۔ اسے یہ گولڈ میڈل اس وقت کے صدر جمہوریہ نے اپنے ہاتھوں سے عطا کیا تھا ۔ ‘‘
’’ہمیں علم ہے پروفیسر صاحب … آپ اس ملک کے بہت قابل ٹیچر ہیں ۔‘‘ انسپکٹر بولا،’’ لیکن ہم مجبور ہیں ۔ ‘‘
’’تو اب مجھے کیا کرنا ہے بتائیے ؟ یا آپ کیا کرنے والے ہیں یہ بتائیں ؟ ‘‘
’’دیکھیے آپ اپنا بیان دے دیجیے ۔ بڑے صاحب تھوڑی دیر بعد آئیں گے ۔ وہی فیصلہ کریں گے کہ آپ کا کیا کرنا ہے ۔ جایئے حولدار کے پاس اس سلسلے میں اپنا بیان لکھوا ئیے ، ‘‘انسپکٹر بولا ۔
’’میں اپنا بیان خود لکھ کر دینا چاہتا ہوں ‘‘……اس نے کہا ۔
’’ ٹھیک ہے ،آپ اپنا بیان لکھ کر بھی دے سکتے ہیں مگر بیان میں یہ مت لکھیے کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا اور اس سے آپ کی پوزیشن ،ساکھ کو کیا نقصان پہنچا ہے ۔ صرف آپ پر جو الزامات لگائے گئے ہیں ان کی صفائی پیش کیجئے ۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے ۔ ‘‘
حولدار نے انسپکٹر کے کہنے پر اسے کچھ کاغذات لا کر دئیے اور اس نے اپنی صفائی میں بیان لکھنا شروع کر دیا ۔ وہ لکھنا تو بہت کچھ چاہتا تھا لیکن اس نے اپنے بیان میں جو کچھ الزامات اس پر لگائے گئے تھے ان کی صفائی ہی پیش کی ۔ ایک گھنٹہ میں اس نے اپنا بیان تیار کیاجو چار پانچ صفحات پر مبنی تھا ۔
ٹھیک ہے پروفیسر صاحب آپ بیٹھئے ۔ڈی وائے ایس پی صاحب آتے ہوں گے وہی فیصلہ کریں گے کہ آپ کے ساتھ آگے کیا کیا جائے ۔
ڈی وائے ایس پی صاحب رات میں ۱۱؍ بجے آیا ۔ اس دوران وہ عادی مجرموں کی طرح پولیس اسٹیشن میں بیٹھا رہا ۔ اس دوران گھر سے کئی بار فون آئے اور دو شناسا بھی اس سے ملنے کے لیے پولیس اسٹیشن تک آئے ۔ اس نے انھیں سمجھا دیا معاملہ کوئی خاص نہیں ہے ۔ وہ ایک آدھ گھنٹے میں آجائے گا ۔
انسپکٹر نے پہلے ڈی وائے ایس پی کو اپنی ساری روداد سنائی اور اس کا بیان بھی سامنے رکھا ۔تھوڑی دیر دونوں کی گفتگو ہوتی رہی پھر ڈی وائے ایس پی نے اسے اندر بلایا ۔
’’ دیکھئے … ٓاپ ایک شریف آدمی ہیں ۔اس لیے ہم بلا وجہ آپ کو رات بھر یہاں بیٹھا کر تو نہیں رکھ سکتے ۔ ‘‘
’’شاید آپ سے کوئی غلطی ہو رہی ہے صاحب‘‘ ، وہ جل کر بولا ۔’’ اگر میں شریف ہوتا تو نہ آپ اس طرح میرے گھر آکر نہ میرے گھر کی تلاشی لیتے اور یہاں بلاتے ۔ ‘‘
’’ہمیں اپنا کام کرنا تھا ۔ اب آپ گھر جا سکتے ہیں لیکن یاد رکھیے معاملہ ختم نہیں ہوا ہے ۔ ہم ابھی اور تحقیقات کر رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں بار بار آپ کی ضرورت پڑے گی ۔ جب بھی آپ کو بلایا جائے ہمیں تعاون دیتے ہوئے آجایا کیجئے ۔ ورنہ ہمیں گاڑی بھیج کر آپ کو بلانا پڑے گا ۔‘‘
وہ ان لوگوں سے اور زیادہ الجھنا نہیں چاہتا تھا اس لیے چپ چاپ گھر کی طرف چل دیا ۔
کالونی میں جیسے میلہ لگا تھا ۔ جگہ جگہ لوگ اسی کے آنے کا شاید انتظار کر رہے تھے ۔ اس کے واپس جاتے ہی انھوں نے اسے گھیر لیا ………………..
’’ کیا بات ہے پروفیسر صاحب ؟ پولیس آپ کے گھر کیوں آئی تھی ؟ آپ کو وہ اپنے ساتھ کیوں لے گئی تھی ؟ ‘‘
قیاسوں کی بنیاد پر و ہر کسی نے اس کے بارے میں ایک مکمل کہانی تیار کر لی تھی لیکن وہ اس سے اس کی تصدیق کرانا چاہتے تھے ۔
’’کسی نے میرے خلاف ایک گمنام خط وزیر داخلہ کو روانہ کیا ہے کہ میرا دہشت گردوں سے تعلق ہے ۔ پولیس اسی بات کی تحقیق کرنے آئی تھی ۔ ‘‘
اس نے مختصر ان کا جواب دیا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔
’’اس شہر میں تو اب جینا بھی مشکل ہوگیا ہے ۔ ہم شریف لوگوں کی اس کالونی میں دہشت گرد آکر رہنے لگے ہیں ۔‘‘ کسی نے دانستہ فقرہ کسا۔ جسے سن کر اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی لیکن اس نے خود پر قابو رکھا ۔ وہ معاملے کو زیادہ بڑھانا نہیں چاہتا تھا ۔ گھر میں گھر والے اور کئی رشتے دار اس کے منتظر تھے اور وہ گھر کی حالت درست کرنے میں لگے تھے ۔
’’کیا بات ہے ثاقب ؟ کیا معاملہ ہے ؟ ‘‘اس کے گھر میں داخل ہوتے ہی انھوں نے چاروں طرف سے اسے گھیر لیا ۔ اس نے تفصیل سے انھیں ساری بات بتائی۔ جسے سن کر ہر کسی نے ٹھنڈی سانس لی ۔ ’’اس ملک میں اب شریفوں کا جینا بھی مشکل ہوگیا ہے ۔ کسی پر بھی دہشت گردی کے شک میں ظالمانہ کاروائی کر کے اس کی عزت کو سر عام اچھالا جا سکتا ہے ۔‘‘
سویرے جب وہ کالج گیا تو کالج کا منظر دیکھ کر دنگ رہ گیا ۔
کالج دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا ۔ ایک طرف کالج کے طلباء نے بورڈ اٹھا رکھے تھے ۔ ’’پروفیسر ثاقب کے خلاف پولیس کی ظالمانہ کاروائی … ہائے ہائے ! ‘ شریف انسانوں پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر ان کی کردار کشی بند کریں ۔ اپنی ظالمانہ کاروائی پر پولیس اور وزیر داخلہ معافی مانگیں ۔ ‘‘
دوسری طرف دوسرے گروپ نے دوسرے قسم کے بینر ،بورڈ اپنے ہاتھوں میں اٹھا رکھے تھے ۔ ’’کالج کیمپس کو دہشت گردوں سے پاک کرو ، دہشت گرد پروفیسر ثاقب کو کالج سے نکال دو ،علم کے مندر میں دہشت گردوں کے قدم ،کالج کو بدنام کرنے والا پروفیسر مردہ باد ۔‘‘
ٍ کالج کا اسٹاف بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا ۔ جواس کے قریب تھے انھوں نے اسے گھیر لیا تھا جو دشمن تھے وہ دور دور ہی تھے اور کترا رہے تھے ۔ پوچھنے پر اس نے ساری باتیں بتائی ۔ اس بات کی بھنک میڈیا والوں کو بھی لگ گئی تھی ۔ دو تین ٹیمیں کالج پہنچ گئیں اور انھوں نے اس واقعہ کو اپنی نیوز اسٹوری بنا دی ۔
اس خلاف پولیس کاروائی ؟ اس کا کردار ! کاروائی درست ہے یا غلط ؟ اس سلسلے میں اسکول کے طلباء اور اسٹاف کے وہ بیانات ریکارڈکر کے اپنے نیوز چینل کے لیے خبریں تیار کرتے ۔ بہت کچھ اس کے حق میں ہوتا تھا تو کچھ اس کے مخالفت میں بھی ہوتا تھا ۔ اس کے خلاف احتجاج کرنے والے طلباء اور ان کے بیانات خبر کو سنسنی خیز بنانے میں معاون ثابت ہو رہے تھے ۔
اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ معاملہ اس حد تک بڑھ جائے گا یا بڑھ گیا ہو گا ۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ چوراہے پر ننگا ہو گیا ہے اور ہر کسی کی نگاہ اس کے برہنہ جسم پر پڑ رہی ہے ۔ ہر کوئی اسے شک کی نظروں سے دیکھ رہا ہے ۔ اس کی طرف اشارے کر کے لوگ آپس میں پتہ نہیں کیا کیا سرگوشیاں کر رہے ہیں ۔
اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھارہا تھا ۔ کل تک اسے دیکھ کر جو ہاتھ سلام کے لیے اٹھتے تھے ۔ اب ان کی آنکھوں میں اس کے لیے شک کے ڈورے تیر رہے ہیں اور وہ اپنے آپ کو ایک عجیب سے دلدل میں دھنستا ہوا محسوس کر رہا ہے ۔
اس کے خلاف جو کاروائی کی گئی تھی وہ کہاں تک درست تھی وہ اس کے بارے میں وضاحت کیا کرتا ۔ اس کاروائی سے اس کی زندگی میں جو طوفان آیا اورا س طوفان نے جو تباہی مچائی ہے اس نقصان کی تلافی اب وہ زندگی میں کس طرح کر پائے گا ؟ اس کے سامنے ایک ہی سوال کھڑا ہوا تھا ؟
جواب دیں