کرنے کے کام

حماس کی یہ فتح بڑی ہی عجیب و غریب ہے مگر دنیا کے لئے۔ ہمارے لئے تو یہ عام بات ہے۔جب جب بھی مسلمانوں نے ایسے ایمان کا مظاہرہ کیا ہے ایسی ہی عجیب و غریب فتح انھوں نے ہمیشہ حاصل کی ہے۔چند سالوں پہلے حزب اللہ نے بھی اسرائیل کو شکست دی تھی مگر حزب اللہ کو اس وقت ایران تن من دھن سے مدد کر رہا تھا۔خود
غزہ پر اس سے پہلے حماس ہی کے دور حکومت میں اسرائیل دو بار حملہ کر چکا ہے مگر پہلے دونوں بار حماس کو نام ہی کے لئے سہی ایران کی مدد حاصل تھی ۔یہ پہلی بار ہوا ہے کہ حماس نے تن تنہاصرف صرف اللہ کے بھروسے مقابلہ کیا اور اس ڈیڑھ ماہی جنگ میں کسی بھی لمحے انھوں نے کسی بھی طرح کی کمزوری یا لچک کا مظاہرہ نہ کیا ۔یہ بھی پہلی ہی بار ہوا ہے کہ اکا دکا اپنوں کو چھوڑ کر غیروں اور وہ بھی کمزوروں نے ان کے لئے اس بہادری کا مظاہرہ کیا جو کسی اپنے سے نہ ہوسکا۔اپنوں میں عالم عرب کا حال تو یہ تھا 
کہ وہ منہ سے تو غزہ کے لئے ہمدردی کے بول بول رہے تھے مگر ظاہر یہ ہو رہا تھا کہوہ دل ہی دل میں اہل غزہ کے نیست و نا بود ہوجانے کی دعائیں کر رہے تھے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔پھر خود اپنی ہی عوام سے یہ کہا جا سکے کہ دیکھو امریکہ اور اسرائیل سے ٹکرانے کا انجام۔ورنہ کیا ہم نے یونہی چوڑیاں پہن رکھی ہیں۔اور اس لئے انھوں نے اس جنگ کو اسرائیل فلسطین جنگ نہیں بلکہ حماس فلسطین جنگ بنا کر رکھ دیا ہے۔اور اسی لئے جارح اسرائیل کو نہیں اہل غزہ کو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
یہ جنگ اس لحاظ سے بھی عجیب و غریب تھی کے دنیا کے تمام وسائل حاصل ہونے کے باوجودحماس کے ساتھ اب تک کی سب سے لمبی جنگ لڑنے کے باوجود،تمام مسلمہ حدود کو پامال کرنے کے باوجوداسرائیل کو دنیا کی سب سے کمزور قوم کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔کیوں؟وجہ صرف یہ ہے کہ دونوں قومیں دو انتہائی قسم کے طرز حیات اپنائے ہوئے ہیں۔یہودی جس قسم کی زندگی جی رہے ہیں اس نے ان کے اعصاب کو انتہائی کمزور بنا دیا ہے وہ اپنے سائے سے بھی بھڑکنے لگے ہیں۔ایسے میں امریکہ کیا ساری دنیا مل کر بھی انھیں کوئی فائدہ نہیں پہونچا سکتی۔دوسری طرف خود اسرائیل کی پابندیوں اور اہل غزہ کے اپنے طرز حیات نے ان کے اعصاب کو فولاد میں تبدیل کر دیا ہے۔اور ان کے یہ فولادی اعصاب آئرن ڈوم سے بڑھ کر انسان کے عزم و ارادے کی حفاظت کرتے ہیں۔بہر حال اہل غزہ نے اپنا کام تو بحسن و خوبی انجام دے دیا ہے اب باری ہے ان مہربانوں کی جو غزہ کے غم میںآٹھ آٹھ آنسو رو رہے تھے۔اب غزہ کے لئے دست تعاون بڑھانے سے نہ یورپ روک سکتا ہے نہ امریکہ۔
اور اگر روکے تب بھی مہربانوں کواپنے ارادے پر اہل غزہ کی طرح اٹل رہنا چاہئے۔
آج ۲۸۔اگست کے اخبارات کے مطابق حماس اوراسرائیل کے درمیان جن شرائط پر معاہدہ ہوا ہے اس کی موٹی موٹی شقیں درج ذیل ہیں
۱]اسرائیل غزہ کا محاصرہ کرنے والی ۵ چوکیاں کھولے گا۔پرانے معاہدے میں یہ تعداد صرف دو تھی۔
۲]رفح کراسنگ کو کھولنے کے تعلق سے مصری اور فلسطینی اہل کار طے کریں گے۔۳]غزہ کے ساحل پر ۹ ناٹیکل میل تک ماہی گیری ہو سکے گی جسے سال کےآخر تک ۱۲
ناٹیکل میل تک وسعت دی جائے گی ۴]غزہ میں رقوم کی منتقلی پر عائداسرائیلی امریکی و یورپی یونین کی پابندیا ں ہٹالی جائیں گی۵] غزہ کی تعمیر نو پر جلد ہی عالمی کانفرنس ہوگی۔۶]غزہ میں ائر پورٹ اور بندرگاہ بنانے پر جلد ہی بحث کا آغاز ہوگا۔
ان شرائط کی خبر کے ساتھ ساتھ آج کے اخبار میں ایک بڑی دلچسپ خبر یہ بھی موجودہے کہ قطر کو دشمن ریاست کا درجہ دینے کے لئے اسرائیلی پارلیمنٹ میں ایک نیا مسودہء قانون پیش کیا جارہا ہے ۔واللہ!کیا بات ہے۔قطر کی کل آبادی ۲۱ لاکھ ہے اور رقبہ۱۱۵۰۰ کلو میٹر۔اور اللہ پر ذرا سے ایمان نے اسے کتنا اہم ملک بنا دیا ہے۔ہمارے نزدیک یہ قطر کے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ صیہونی اسے دشمن سمجھتے ہیں۔عالم عرب کی دیگر ریاستوں کے لئے معلوم نہیںیہ یہودی محبت ’’شرم‘‘
(اس لفظ کی معنویت ہی ختم ہو گئی ہے)کی بات ہے یا نہیں۔خصوصاً لاطینی امریکہ کے چھوٹے چھوٹے ممالک کے تناظر میں۔خیر ہم امیر قطر کو اس دشمنی کے لئے مبارکباد دیتے ہیں۔
درج بالا شرائط پر گفتگو کرنے سے پہلے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ قرآن کے مطابق یہودی قوم راندہء درگاہ ہی اسی لئے ہوئی کہ وہ وعدہ خلافی یا عہد شکنی میں لت پت ہے
اپنے ہی کئے ہوئے وعدوں کو ٹھوکر مارنا اس کے خمیر میں شامل ہے۔اور اب یہ وہ زمانہ ہے جب اس کے اخلاق و عادات قرآن سے نکل کر دنیا کی دوسری انصاف پسند قوموں کے اذہان پر بھی قبضہ جما رہے ہیں۔اسلئے کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی بجائے سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ یہ جنگبندی اور اس کی شرائط کتنے دن چلیں گی؟
اور اس سے پہلے کہ اسرائیل پھر جارحیت کا ارتکاب کرے غزہ کی تعمیر نو کا کام مکمل ہو جانا چاہئے اور غزہ کی تعمیر نو کا بوجھقطر اور دیگر اقوام عرب کو اٹھانا چاہئے۔عالم عرب اگر غزہ کے لئے آنسو بہانے میں سچا ہے تواسے پہلی فرصت میں رفح کراسنگ کھلوانا چاہئے۔اور اس ذریعے کی جانے والی مدد کا انٹخاب مصری عدوام پر چھوڑ دینا چاہئے کہ وہ جس طرح چاہیں مدد کریں۔
غزہ کی فوجی مدد بھی اسی طرح کی جائے جس طرح امریکہ اسرائیل کی مدد کرتا رہا ہے۔اگر وہ درست ہے تو غزہ کی مدد کیوں درست نہیں ہو سکتی؟پھر امریکہ و اسرائیل اور یورپ کے دیگر ممالک جسے چاہیں اپنے ہتھیار بیچ سکتے ہیں توایران(اگر مسلکی مفادات سے اوپر اٹھ جائے تو)ترکی پاکستان غزہ کو ہتھیار کیوں نہیں بیچ سکتے یا فوجی امداد کیوں نہیں دے سکتے؟عالم عرب اور دیگر مسلم ممالک کو مجبور کیا جائے کہ زیادہ نہیں تو کم سے کماسرائیل کیے خلاف وہ اقدامات تو کریں جو لاطینی امریکہ کے نا قابل ذکر ممالک نے کیا ہے۔
اسرائیل غزہ کے لئے چوکیاں برابر کھلی رکھ رہا ہے یا نہیں؟غزہ کے ساحل پر مجوزہ حدود تک ماہی گیری ہو پا رہی ہے یا نہیں؟اس پر نگرانی کے لئے ایک بین الاقوامی فوج بنائی جائے جس میں ایران ترکی سوڈان کی افواج کے ساتھ ساتھ بولیویا،وینزولا ،ایکواڈور اور ایل سلواڈورجیسے ممالک کی افواج بھی شامل ہوں اور ان کی کمان ترکی کے ہاتھوں میں ہو۔کیونکہ غزہ اور اسرائیل کے معاملے میں اقوام متحدہ پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ہم سے پہلے کی نسل کے لوگ کہتے ہیں کہ لیگ آف نیشنز اور اقوام متحدہ تو بنائی ہی یہودیوں کی خدمت کے لئے گئیں تھیں۔
آخری اور بنیادی بات یہ ہے کہ مسلم ممالک بشمول ایران اور ترکی پر واجب ہے کہ گفتار سے بڑھ کر کردار کا مظاہرہ کریں۔اب جبکہ اہل غزہ نے عملاً یہ ثابت کر دیا ہے کہ اللہ پر ایمان ہی سب سے بڑی طاقت ہے۔ 

«
»

’ایروم شرمیلا،انسانیت کے لئے ایک بہترین مثال

سعودیہ کے سرکاری مفتی اعظم کا سرکاری فتویٰ اور اسلامی مزاحمتی تحریکیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے