ابوالحسن علی ایس ایم ندوی
کرناٹک میں اسمبلی انتخابات کے نتائج نے سب کو حیران کردیا ہے، 3 دہائیوں کے بعد کوئی بھی جماعت اتنی بھاری اکثریت حاصل کر پائی ہے، بی جے پی کی اس ہار سے اپوزیشن جماعتوں میں جشن کا ماحول ہے،تو وہیں کانگریس بھی مثبت رویہ کے ساتھ اپوزیشن اتحاد کی جانب گامزن ہے، جنوبی ریاستوں میں کرناٹک ہی ایک واحد ریاست تھی جہاں بی جے پی برسر اقتدار تھی، لیکن کیا اس ہار سے بی جے پی کو اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں شکست دی جا سکتی ہے؟ اس کے لئے کچھ اعداد وشمار پر نظر دوڑانا ضروری ہے،543 نشستوں والی لوک سبھا میں جنوبی ریاستوں کی کل 130 سیٹیں شامل ہیں،جس میںتمل ناڈو کی 39 ، کرناٹک کی 28 ، آندھرا پردیش کی 25 ،کیرالا کی 20 ، تلنگانہ کی 17 اور پوڈوچیری کی 1 سیٹ شامل ہے ، 2014 ء کے عام انتخابات میں بی جے پی ان 130 نشستوں میں صرف 21 نشستوں پر قابض ہو سکی تھی ، تو وہیں 2019 ء کے عام انتخابات میں صرف 29 نشستوں میں کامیابی حاصل کر پائی تھی ، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کرناٹک نے عام انتخابات میں پچھلے کچھ سالوں میں ہمیشہ بی جے پی کا ہی ساتھ دیا ہے ، جیسا کہ 2004ءکے عام انتخابات میں کرناٹک کی 28 نشستوں میں سے 18 نشستیں ،2009ء کے عام انتخابات میں 19 ، 2014ء کے عام انتخابات میں 17 ، اور 2019 کے عام انتخابات میں 25 نشستیں حاصل کرنے میں بی جے پی کامیاب رہی ہے، اور غور کریں تو2009ء کے انتخابات کے علاوہ سابقہ تینوں مرتبہ بی جے پی کرناٹک میں اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی لوک سبھا کی اکثر سیٹوں پر قابض ہونے میں کامیاب رہی ہے ، جس سے یہ بات تو واضح ہے کہ اگلے سال کے عام انتخابات کے تناظر میں کرناٹک میں بی جے پی کی صفائی کا دعوی کرنا قبل از وقت ہے، لیکن اتنی بات تو واضح ہے کہ جنوبی ہندوستان کی ان 130 سیٹوں میں سے بی جےپی اگر سابقہ تاریخ کو دوہراتے ہوئے 29 سیٹیں بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے اور بقیہ 111 سیٹوں پر اپوزیشن جماعتیں کامیاب ہوتی ہیں ، تو یہ بھی بی جے پی کے لئے کسی جھٹکے سے کم نہیں ہے ، لیکن یہ کام اس وقت مشکل نظر آتا ہے جب آندھرا پردیش کے وزیر اعلی جگن موہن ریڈی بی جے پی کے ساتھ کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں ، کیونکہ آندھرا پردیش کی موجودہ 25 لوک سبھا نشستوں میں سے 22 پر تو جگن ریڈی کی جماعت YSRCP قابض ہے ، تو اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر ہم یہ کہیں کہ بچی ہوئی 85 نشستوں پر بھی اگر اپوزیشن اتحاد کامیاب ہو جاتا ہے تب بھی یہ بی جے پی کے لئے درد سر بن سکتا ہے بشرطیکہ بقیہ ریاستوں میں اپوزیشن اتحاد بی جے پی کو روکنے میں کامیاب ہو ۔
دوسری جانب کرناٹک کی اس جیت سے کانگریس اور بالخصوص راہل گاندھی کی حیثیت اپوزیشن جماعتوں میں بڑھ گئی ہے ، جس کا اظہار اس وقت ہوا جب محض ایک سال پہلے کانگریس کو پس پشت ڈالنے والی مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی بھی کانگریس کی اس جیت پر گد گد نظر آئی ، بہر کیف! تو آئیے اب اسی الیکشن کے کچھ اور پہلوؤں پر نظر کرتے ہیں ، جس سے کرناٹک کی تصویر کچھ اور واضح ہو سکے۔
(1) کرناٹک کے ان انتخابات میں کانگریس نے 135 اسمبلی نشستوں کے ساتھ اطمینان بخش کامیابی حاصل کی ، جس میں 42.9 فیصدی لوگوں نے کانگریس کے لئے ووٹ کیا ، یہ کانگریس کی تاریخی جیت اس لئے بھی ہے کہ 1989ء کے اسمبلی انتخابات کے بعد پہلی مرتبہ کانگریس اتنی زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کر پائی ہے، 1989ء میں 43.76 ٪ ووٹ شیر کے ساتھ کانگریس 178 سیٹوں میں کامیاب ہوئی تھی ، جبکہ 1978ء کے ریاستی انتخابات میں 44.25٪ ووٹ شیر کے ساتھ 149 سیٹیں حاصلی کیں تھیں ، یہ بات واضح رہے کہ 1978ء سے پہلے کرناٹک اسمبلی "میسور اسمبلی " کے نام سے جانی جاتی تھی ، جس میں کل 216 اسمبلی نشستیں ہوا کرتی تھیں۔
(2)اس الیکشن کا موازنہ اگر 2018ء کے سابقہ انتخابات سے کیا جائے تو جہاں کانگریس نےاپنی سیٹوں میں 55 نشستوں کا مزید اضافہ کیا ہے ، تو وہیں بی جے پی کو 38 نشستوں کا نقصان ہوا ہے ، تیسری جانب جے ڈی یس 37 نشستوں سے 19 پر آکر سمٹ گئی ہے ، ووٹ شیر کی اگر بات کریں تو کانگریس کے ووٹ شیر میں پچھلے الیکشن کے مقابلہ میں 4.8 فیصدی ووٹوں کا اضافہ ہوا ، تو وہیں بی جے پی نے گزشتہ مرتبہ کی طرح 36٪ ووٹ شیر کو برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل کی ، جبکہ جے ڈی ایس کے ووٹ شیر نے سب کو حیران کردیا ، اس لئے کہ اس کے ووٹوں میں گزشتہ الیکشن کے مقابلہ 5٪ ووٹوں کی کمی دیکھی گئی ، آزاد امید واروں نے 5.2٪ ووٹ حاصل کئے ، اور 2 آزاد امید واروں نے جیت بھی درج کی۔
(3)کرناٹک کانگریس کے صدر ڈی کے شیوکمار نے 1،22،392 ووٹوں کے فاصلہ کے ساتھ تاریخی جیت درج کی ، اس لئے کہ ان کے علاوہ اور کوئی بھی امیدوار ایک لاکھ کے فاصلہ کے ساتھ کامیاب نہ ہوسکا ۔
(4)اس الیکشن میں کل 10 عورتوں نے کامیابی حاصل کی ،جبکہ گزشتہ ودھان سبھا میں صرف 9 عورتیں کامیاب ہو پائیں تھیں ، ان 10 میں سے میں 4 امیدواروں کا تعلق کانگریس سے ہے ، 3 کا بی جے پی سے ، 2 کا جے ڈی ایس سے ، اور ایک آزاد امیدوار تھی ، جس نے بعد میں کانگریس کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا۔
(5)اس کے علاوہ راہل گاندھی کی بھارت جوڈو یاترا کا اثر بھی کانگریس کی اس جیت میں اہم کردار رہا ، جن 21 اسمبلی حلقوں سے راہل کی اس یاترا کا گزر ہو اان میں سے 16 نشستیں حاصل کرنے میں کانگریس کامیاب رہی ، جبکہ 2018ء کے اسمبلی انتخابات میں ان 21 نشستوں میں صرف 5 نشستوں پر کانگریس کامیاب ہو پائی تھی ، جس سے یہ بات بھی واضح ہے کہ یاترا کا گزر جن علاقوں سے ہوا ، وہاں پر کانگریس کا کیڈر متحرک ہوا ۔
(6)بی جے پی کے 22 وزرا میں سے 8 کو بڑی شرمناک ہار کا سامنا کرنا پڑا ، جس میں وزیر تعلیم "BC Nagesh"بھی ہیں، جس نے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی جیسا مختلف فیہ حکم جاری کیا تھا۔
(7) بی جے پی ایک اور قد آور لیڈر اور پارٹی کے جنری سیکریٹری "CT Ravi"کو بھی کانگریس امیدوار "HD Thammaiah"کے ہاتھوں شرمناک شکست ہوئی۔
بہر کیف! یہ اس الیکشن کی کچھ جھلکیاں تھیں ۔۔۔۔امید ہے کہ کانگریس جن وعدوں کے ساتھ میدان میں اتری تھی ، اس کو پورا کرے گی ، تو وہیں بی جے پی اور جے ڈی ایس ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی ، اور بالخصوص سابقہ تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بی جے پی خرید فروخت اور دباؤ کی سیاست سے باز آئے گی۔
جواب دیں