کرناٹک میں جدید نظم کی صورت حال

مگر وقفہ وقفہ سے آزاد نظمیں بھی سامنے آرہی تھیں اور کسی حد تک توجہ بھی حاصل کر رہی تھیں۔آزاد نظم اور نثری نظم کو اس وقت بہت مقبولیت اور اعتبار حاصل ہوا۔جب میراجی اور ن۔م راشد نے اپنی انفرادیت کا لوہا منوایا۔یہی وہ زمانہ تھا جب جدیدیت کے زیر اثرکرناٹک میں بھی نئی نظم پر توجہ دی گئی اور کرناٹک کے کئی شعرا نے نظم نگاری کے میدان میں اپنی انفرادیت کا احساس دلایا۔اس سلسلہ میں سلیمان خطیب، محمود ایاز ،حمید الماس ،حمید سہروردی ،خلیل مامون ،ساجد حمید اور اکرام کاوش وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔یہ وہ شعرا ہیں جو صرف کرناٹک کی حد تک ہی نہیں بلکہ پوری اردو دنیا میں اپنی تخلیقی توانائی اور نظم نگاری کی جدت اور ندرت کے حوالے سے یاد کئے جاتے ہیں۔
سلیمان خطیب کو نظم نگاری کی بدولت جو مقام اور مرتبہ اردو میں حاصل ہے وہ بہت کم شعرا کو نصیب ہوا دراصل ان کی یہ شہرت دکنی شاعری کے مانوس لہجہ کی بدولت ہے۔یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ کرناٹک میں اردو نظم کی تاریخ سلیمان خطیب کے بغیر نامکمل ہے۔ جن کی شاعری کا افادی پہلو نہ صرف طنز و مزاح ہے بلکہ اس میں معاشرے کی خامیاں ، بے اعتدالیاں اور ناہمواریاں پائی جاتی ہیں۔مزاحیہ نظمیں سنجیدہ موڑ لیتی ہیں تو ان کا طنز زہر ناکی کی حدوں میں داخل ہو جاتا ہے۔
محمود ایاز کو کئی اعتبار سے اردو ادب میں اہمیت حاصل ہے۔وہ ایک اعلیٰ پایہ کے مدیر اور ایک اچھے مبصر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عمدہ شاعر بھی تھے۔انہیں نظموں اورغزلوں دونوں سے دلچسپی تھی ۔مگر وہ نظم میں زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں اور اختر الایمان سے قلبی محبت رکھنے سے اختر الایمان کے رنگ میں اچھی نظمیں کہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کا رنگ نہیں چھلکتا ہے۔
محمود ایاز کی بیشتر نظمیں رومانی مزاج کی حامل ہوتی ہیں ۔جو کبھی کبھی ان کے تجربہ کی سچائی اور مشاہدہ کی گہرائی کی وجہ سے حقیقت کی عکاس بن جاتی ہیں ۔انہوں نے اپنی ایک نظم ’نیا سفر‘میں داخلی اور خارجی دونوں کیفیات کو باہم آمیز کرکے نیا ذائقہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جوقاری کی نظری اور فکری دونوں سطح کو متاثر کرتاہے۔
خلوص و مہر و عداوت کی ساری زنجیریں /پلک جھپکنے کی مہلت میں جل کے راکھ ہوئیں /نہ کٹنے والے کٹھن دن خیال و خوب ہوئے/نہ آنے والے جو دن تھے وہ آ کے بیت گئے
نظم کے اس ٹکڑے میں گذرے ہوئے ایام کی کسک اور کسی چیز کے گم ہوجانے کی کسک کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔وہ آگے مزید کہتے ہیں کہ 
وہ ایک یاد کے مہر و وفا کی ضامن ہے/مجھے کشاکش ہستی سے کھینچ لائی ہے/ہر ایک قرب کی راحت ہر ایک ساعت دید /خیال و خواب کی وادی سے لوٹ آئی ہے
اختر الایمان کی طرح ان کی شاعری میں بھی حسرت و یاس کا رنگ گھلا ہوا ہے اور حرماں نصیبی کی یہی کیفیت شاعری میں تاثیر پیداکرتی ہے جس میں ایک طرح کا طنز بھی ہوتا ہے۔ان کی نظمیں ’’انتظار، باز گشت ،اے جوئے آب،نوحہ اور ہسپتال کا کمرہ وغیرہ پر تاثیر نظمیں ہیں۔ نظم انتظار کا ایک ٹکڑا ملاحظہ ہو۔
یہ دل جو زندگئ نو کے خواب دیکھتا ہے/یہ غم جو روح کی تنہائیوں میں جاگتا ہے /تری نگاہ سے چھٹ کر سکون جاں نہ ملا/نفس نفس میں امیدوں نے زہر گھولا ہے 
خاموشی رینگتی ہے راہوں پر /ایک افسوں خواب لئے /رات رک رک کے سانس لیتی ہے/اپنی ظلمت کا بوجھ اٹھائے ہوئے ( باز گشت )
تمام شب کی دکھن بے کلی سبک خوابی/نمود صبح کو درماں سمجھ کے کاٹی ہے/رگوں میں دوڑتے پھرتے لہو کی ہر آہٹ/اجل گرفتہ خیالوں کو آس دیتی ہے/مگر وہ آنکھ جو سب کچھ دیکھتی ہے/ہنستی ہے (ہسپتال کا کمرہ ) 
آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ نظموں کے ان تمام ٹکڑوں میں حزن اور ملال کی ایک کیفیت ہے جو نظم کی فضا پر چھائی ہوئی ہے۔یہی حزنیہ لہجہ محمود ایاز کی شاعری کی اساس اور ان کی شناخت ہے۔
جہاں تک نثری نظموں کا معاملہ ہے تو اس سلسلہ میں حمید الماس اور حمید سہروردی کو خاص امتیاز حاصل ہے۔حمید الماس ساری اردو دنیا میں شہرت یافتہ شاعر ہیں۔ ان کے یہاں رومان بھی ہے اور زندگی کی تلخیاں بھی موجود ہیں۔ان کا لہجہ اور اسلوب ان کا اپنا ہے ۔جسے انفرادیت حاصل ہے۔حمید الماس نظم کے شاعر ہیں۔عام طور پروہ اپنی مختصر نظموں میں اپنا احتجاج درج کرانے کی کوشش کرتے ہیں اور بہت حد تک کامیاب بھی رہتے ہیں۔ان کی ایک بلاعنوان مختصر نظم دیکھئے۔
میں نے کل تک /پتھروں سے جو تراشے تھے صنم/آج وہ محو دعا ہیں کہ /انہیں سانس کی دولت ملے
اس نظم میں بغیر کسی تمہید کے جبر و قدر کے خلاف ایک طرح کا احتجاج ہے جو بہت واضح ہے۔دراصل یہی احتجاج ،توانائی اور فنکارانہ ہنر مندی حمید الماس کی پہچان ہے۔ایک دو ٹکڑے اور ملاحظہ کیجئے۔
ریگ ساحل پر/گر سنہ بچے/کھینچتے ہیں پھلوں کی تصویریں/یا/شہریوں سے پوچھتے ہیں /گاؤں گاؤں کے کسان /کن کے کپڑوں میں جڑی ہے /ان کے کھیتوں کی کپاس 
ظاہر ہے کہ ان تمام نظموں میں استحصال غریبی اور ظلم کے خلاف ایک طرح کا احتجاج پایا جاتا ہے مگر اس طرح کہ فن مجروح نہیں ہوتا ہے۔
اس سبیل میں ایک اور اہم نام حمید سہروردی کا ہے ۔جن کے یہاں جدیدیت کا نہ صرف ایک وقار پایا جاتا ہے بلکہ اس میں اضافہ کا متقاضی بھی ہے۔ حمید سہر وردی کی نظمیں عام طور پر علامتی ہوتی ہیں ۔حالانکہ ان کے افسانے مبہم اور پیچیدہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ کوئی بھی بات سیدھے سادے انداز میں نہیں کہتے ہیں۔مگر ان کی نظموں میں یہ ابہام تھوڑا کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ اس کے باوجود زندگی کے الجھے ہوئے مسائل سے متعلق قاری کو سوچنے پر ضرور مجبور کر دیتے ہیں۔ان کی ایک نظم ہے۔کیوں ہم ایسا سوچتے ہیں،اس نظم کے چند مصرعے ملاحظہ فرمائیے۔
لال سنگھاسن پر بیٹھے /سرخ سے طوطہ کی آنکھوں میں/کالا دھبہ بن کے علامت ہنستا ہے
اب یہ قاری کی صوابدید پر ہے کہ وہ لال سنگھاسن سے کیا مراد لیتا ہے اب سرخ طوطہ کی تمثیل کو کس طرح سمجھتا ہے اور یہ کہ کالے دھبہ کو دور کرنے کے لئے کیا کچھ کرتا یا کر سکتا ہے۔کسی بھی شاعر کی یہ بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے کہ وہ کچھ نہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ دے اور قاری کو سوچنے پر مجبور کردے۔اسی طرح کی ایک نظم ’’ اکائی ‘‘ بھی بہت ہی مشہور ہے۔جس میں صفر ہی صفر ہیں ۔یہاں وہ اپنا منشا و مدعا قاری پر چھوڑ دیتے ہیں۔
خلیل مامون بھی گہری معنویت کی حامل نظمیں کہتے ہیں۔مگر ان کی نظموں میں محض علامت و استعارہ کی مدد سے نہیں بلکہ زندگی کے گہرے فلسفہ کی وجہ سے جاذبیت اور گہرائی پیدا ہوتی ہے۔جوایک خا ص طرح کی بصیرت عطاکرتی ہے۔میری بات کی تصدیق کے لئے ان کی نظمیں بن باس کا جھوٹ،آفاق کی طرف ،سر برہنہ شہر کا پچھتاوا،سانحہ، اندر اور باہر کا منظر اور ید بیضا وغیرہ دیکھی جاسکتی ہیں۔فی الوقت جلاوطن شہزاد گان کا ایک ٹکڑا دیکھئے۔
قبر کی مٹی چرا کر بھاگنے والوں میں ہم افضل نہیں/ہم کوئی قاتل نہیں /بسمل نہیں /منجمد خونی چٹانوں پر دو زانو بیٹھ کر/گھومتی سوئی کے رستے کی صلیبوں سے ٹپکتے/ قطرہ قطرہ سرخ رو سیال کو انگلیوں پر گن رہے ہیں/چن رہے ہیں۔
ظاہر ہے کہ نظم میں جہاں بیانیہ کا تنوع ہے وہیں زندگی اور تاریخ اور انسانی علوم و افکار کی گہری بصیرت کا احساس بھی پایا جاتا ہے۔اس طرح ہم انہیں زندگی کا رمز شناس شاعر بھی کہہ سکتے ہیں۔
ساجد حمید آج کے فعال،تازہ کار اور متحرک شاعر ہیں۔وہ عام طور پر بڑے غور و فکر کے بعد ہی شعر کہتے اور نظمیں لکھتے ہیں ۔ان کی نظمیں بنت اور بیانیہ کے اعتبار سے الجھی ہوئی اور پیچیدہ نہیں ہوتی ہیں اس کے باوجود گہری بصیرت کی حامل اور معنویت سے بھرپور ہوتی ہیں۔وہ نظم اور غزل دونوں پر یکساں قدرت رکھتے ہیں ان کے بارے میں فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ نظم کے اچھے شاعر ہیں یا غزل کے۔سچ تو یہ ہے کہ دونوں ہی اصناف میں انہیں انفرادیت اور امتیاز حاصل ہے۔وہ بظاہر چھوٹی اور صاف ستھری نظمیں کہتے ہیں۔مگر اپنے خیال کی ندرت سے قاری کو چونکا دیتے ہیں۔اس بات کی تصدیق کے لئے ان کی نظمیں مکانات، بھید ،سمجھوتہ،تریاق،کینواس اور زندگانی وغیرہ دیکھی جاسکتی ہیں وہ رجائیت پسند شاعر ہیں۔اس لئے ان کے یہاں زندگی کا شدید احساس پایا جاتا ہے۔ان کی نظم ’’ہر نفس برسر پیکار ہے‘‘ کا ایک ٹکڑا دیکھئے۔
ہر نفس بر سر پیکار ہمہ وقت ہے/ششت جہتوں سے /زندگی/موت سے بہتر نہ سہی /موت سے بدتر بھی نہیں
اکرام کاوش کی نظمیں شاعری میں توانائی کے احساس سے مملو جرات مندانہ شاعری کی عمدہ مثال پیش کرتی ہیں۔ان کے یہاں علامت ، استعارے اور تشبیہات کا استعمال نہایت خود شناسی کے احساس کے ساتھ ہوتا ہے۔ان کی نظمیں پڑھنے سے صاف واضح ہوتا ہے کہ شاعر پوری خود آگاہی کے ساتھ نظموں کو برت رہا ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ کیا کہہ رہا ہے اور کس کے لئے کہہ رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی نظمیں قاری کو حیرت ناک مسرت سے ہمکنار کرتی ہیں اور ایک نئے جذبے سے زندگی کے رن میں شامل ہوجانے کا جذبہ بخشتی ہیں۔ان کی نظمیں نظارہ،نفس امارہ اور نیا رشتہ وغیرہ کا مطالعہ میری باتوں کی دلیل کے لئے کافی ہے۔یہاں پر ان کی بس ایک مختصر نظم ’’ کہاں تک چلو گے ‘‘پیش کررہا ہوں جس سے ان کے اسلوب اور انداز بیان کے سلیقے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔نظم دیکھئے۔
کہاں تک/تم میرے ساتھ چلو گے/میں ہوں اک صحرا نورد/میرے قدموں تلے /سارا عالم سانس لے رہا ہے۔
اس نظم میں خودی کاایک بلند آہنگ ہے جس میں شاعر خود اعتمادی سے سارے عالم کو اپنے قدموں کی دھول بتا تاہے۔دراصل یہی اعتماد اور خود شناسی اکرام کاوش کی شناخت ہے۔
ضیا میر کی کئی حیثیتیں تھیں ۔وہ شاعر تھے ،افسانہ نگار تھے اورناقد و مبصر بھی تھے۔مگر وہ عام طور پر شاعر کی حیثیت سے یاد کئے جاتے ہیں۔ان کے یہاں موضوعاتی نظموں کی جو کثرت ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سچے جذبات کے مخلص شاعر تھے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جہاں ن م راشد کی یاد میں جیسی نظم لکھی وہیں بیجاپور کے کھنڈرات میں ایک شام، نوائے روح شہید ،شہید جنت کے دروازہ پر ، میرا جی کی یاد میں ، مرحوم محمود ایاز سے خطاب ،ساجد حمید کے لئے ایک نظم اور نقاد کے روپ میں ایک شاعر جیسی نظمیں لکھیں ۔کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے کہ راشد اور میراجی کے لئے مکمل نظموں میں ان سے محبت اور ان کے شاعرانہ کمالات کے اعتراف کی خوب صورت کوشش کی گئی ہے تو بیجاپور کی تاریخ پر بھی ماضی کے جھروکے سے روشنی ڈالی ہے اور محمود ایاز سے رفیق دیرینہ کی طرح مکالمہ کیا ہے تو ساجد حمید کی شاعری کے روشن امکانات کا بھی اعتراف کیا ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ کل وقتی شاعر نہیں تھے مگر جب بھی کسی موضوع پر نظم کہتے تھے تو اپنی انفرادیت کا نقش قائم کردیتے تھے۔چند مثالیں دیکھئے۔
نگری نگری پھرا ہے شاعر/زخموں کی بارات لئے /اس کے بدن پر گھاؤ تھے کتنے /ان زخموں کی گنتی کرنا / اس کے بس کا روگ نہیں۔
اس نظم میں ضیاؔ میر نے میراجی کی زندگی کے دکھ درد اور ان کی شاعری کے علائم وغیرہ کو خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے اور میراجی کے کردار کو پیش کرتے ہوئے اس کے فن کارانہ امتیازات کو بھی واضح کر دیا ہے۔وہ بھی اس طرح کہ خود ان کا فنکارانہ کمال بھی واضح ہو گیا ہے۔
راز امتیاز شاعر، صحافی ،ادیب اور نقاد تھے ،ترقی پسند رجحان رکھتے تھے انہوں نے زیادہ تر جدیدیت کو قبول کیا۔ان کی نظموں میں ایک خوشگوار آہنگ پایا جاتا ہے۔حالانکہ ان کے موضوعات ہلکے پھلکے ہوتے ہیں مگر وہ زندگی سے ربط رکھتے ہیں اور یہ ربط کمزور نہیں پڑتا۔ان کے اندر انسان دوستی کا جذبہ کارفرما تھا اور وہ کسی کو ناراض کرنا یا اپنے آپ پر فخر کرنا نہیں جانتے تھے۔ان کی نظموں میں ان کا مزاج پایا جاتا ہے۔کہتے ہیں
کبھی عشرت دنیا پہ اکڑے نہیں ہم کبھی رنج پایا تو سکڑے نہیں ہم
اسی طرح ایک اور نظم میں یہ اعتراف کرتے ہیں کہ 
ہمیں اپنے چھوٹوں سے نفرت نہیں ہے / بڑائی بھی کچھ وجہ بہجت نہیں ہے / یہاں کوئی اپنا پرایا نہیں ہے 
مدنا منظر بھی مشہور و معروف شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔جنہوں نے اپنی نظموں میں قومی، معاشرتی، سیاسی اور صوفیانہ موضوعات کو اختیار کیااور زندگی کے مہذب اور شائستہ اقدار کو اپنایا۔انسان دوستی اور اخوت و بھائی چارگی کو شعری پیرہن عطا کیا۔نعتیں اور منقبتیں لکھیں۔ پیشہ سے طبیب تھے لیکن عاجزی اور انکساری کے ساتھ سچائی بھی ان کے یہاں کارفرما ہے۔بارگاہِ یزدی میں ان کاخلوص دیکھئے۔
مسیحائی میرا منصب نہیں / وہ کار یزداں ہے/ خدا نے مجھ کو اس منصب پر فائز کرکے / اپنے دست پنہاں سے/ شفا بخشی مریضوں کو / یہ سب احسان ہے اس کا
تنہا تماپوری کے فن میں روایت اور جدیدیت کا امتزاج ملتا ہے۔مگر ان کے یہاں تخیل کم حقیقت کی کارفرمائی زیادہ ہے۔ان کے یہاں زندگی کے کئی روپ اور اس کی کئی جہتیں ملتی ہیں۔وہ اپنی نظموں میں علامتوں کا استعمال بکثرت کرتے ہیں جو بسا اوقات قاری کے ذہن کو بوجھل بھی بنا دیتی ہیں اور اس کی قوت فہم کو چیلینج بھی کرتی ہیں۔’’ چھلنی چھلنی سائباں‘‘ کی بیشتر نظمیں اس بات کا ثبوت ہیں۔اسی نظم کا ایک ٹکڑا دیکھئے۔
تمازت سے محروم افکار کے زرد سورج اگل کر/سبھی اپنے اسلاف کی کھوپڑیوں کی مالائیں پہنے / اجمنے ہوئے اپنے بچوں کی شکلوں کو / بارود کی ڈھیر پر رکھ رہے ہیں۔
حسنیٰ سرور کا مقام نظم نگار کی حیثیت سے بھی ہے۔زمانے نے ان کو جو درد و غم دیا اسے انہوں نے شاعری کے روپ میں لوٹا دیا ہے ۔ان کی نثری نظمیں متوجہ کن اور وقیع اور گراں مایہ ہیں۔ان کی نظموں کا ڈھنگ گیتوں جیسا ہے۔اسون جیوتی،دیکھو سجن تم روٹھ نہ جانا، برہن روتی ہے،سونا چاندی ہیرا موتی وغیرہ نظمیں گیتوں کے قریب ہیں۔ ان میں ہندی لفظیات کی بہتات ہے۔جن میں چونکا دینے یا استعجاب میں ڈال دینے والا کوئی پہلو نہیں ہوتاہے۔
سونا چاندی ہیرا موتی / پل دو پل تن کا سنگھار / پاپی میلی اس کی آتما / کیسے کروں گی میں سنگھار (سونا چاندی ہیرا موتی)
جلیل تنویر کو بھی نظم کا نمائندہ شاعر قرا دیا جا سکتا ہے جن کی نظموں میں داخلیت اور خارجیت کارفرما ہے ۔ان کی ہر نظم میں لفظیات سادہ ترین اور چست ترین ہیں۔وہ آسان لفظوں میں اپنے جذبات کو اس طرح پیش کرتے ہیں جس سے بے ساختہ پن آجاتا ہے اور وہ کسی بھی بات کو طوالت نہیں دیتے بلکہ سادگی سے پیش کر دیتے ہیں۔ان کی نظم ’’ حصار‘‘ کا یہ حصہ دیکھئے۔
کوئی آہٹ نہیں / کوئی قدم اٹھتا نہیں / اب صرف میں ہوں / اور تنہائی کا لمبا حصار۔۔۔۔پھر نہ جانے کیوں / کسی آشنا کی گونج / ہر دم میرے حلقہ بگوش رہتی ہے
انور داغ ایک فطری شاعر ہیں۔جن کی شاعری کا باطنی اضطراب قاری کو مملکت ملکوتی نہیں اسفل ترین مقامات کی سیر کراتا ہے ۔وہ ایسے شاعر ہیں جن کی نظموں میں افسانوی اور ڈرامائی انداز پایا جاتا ہے۔نظم شروع تو ہوتی ہے مگر آگے بڑھتی ہوئی ڈرامائی موڑ لیتی ہے اور انجام چونکا دینے والا ہوجاتا ہے۔وہ الفاط میں اس طرح جان ڈال دیتے ہیں کہ ان میں نئے معنی اورمفہوم پیدا ہوجاتے ہیں اور اس کے بین السطور بہت سا مفہوم پوشیدہ رہ جاتا ہے ان کی نظموں می جذبہ اور آگہی کا امتزاج ملتا ہے۔
کیا یہ دروازے امین بن کر کھڑے ہیں /کیا یہ رشتے دل کی دنیا نے گھڑے ہیں /میں زمیں کا آدمی ہوں آسمانوں کو نہ مانوں / گندی نالی میں پڑا ہوں پاک مریم میں کیا جانوں/ میں مگر تھا سر بہ زانو سوچ میں ڈوبا ہوا / سوچتا تھا روشنی سے رنگ الگ ہوجائے گا / سوچتا تھا خوں سفید احساس کا ہوجائے گا / میں کہ پھر بھی سر بہ زانو بوجھ سے گھبرا گیا / میں سرابوں میں حسیں دھوکوں میں واپس آگیا ۔
خمار قریشی کوبھی نظم کا شاعر قرار دیا جا سکتا ہے جن کے یہاں نظموں میں بحروں کی ترمیمات کا شعوری عمل پایا جاتا ہے ۔ان کی ساری نظمیں صوتی آہنگ سے ہم کنار ہیں اور وہ جدید اظہار ، لفظیات اور موضوعات اختراع کرنے کے قائل ہیں۔ان کی نظموں کے بعض ٹکڑے قاری کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں اور قاری ان سے پوری طرح لطف اندوز ہوتا ہے۔ 
پہلے پہلے ! / رت جگے کتنے گراں تھے /اب مگر / ان کی ارزانی کا کیا ماتم کریں ( رت جگے )
حامد اکمل کی نظموں کا ایک خاص رنگ ہے۔ ان کی نظموں میں لفظیات کے ساتھ ساتھ گہری سوچ اور فکرہوتی ہے اور اظہار کا طریقہ بھی نرالا ہوتا ہے۔وہ بھی معمولی بات کو گھما پھرا کر پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ان کی مختصر نظمیں نہایت معنی خیز ہوتی ہیں۔بسم اللہ ، جب تب، میں تمہارے لئے کوئی گیت نہیں لکھوں گا، دعا ،رات کے نام ، آدم زاد کا ایک غم ہی نہیں وغیرہ مختصر نظموں میں حامد اکمل کا ایک خاص رنگ چھلکتا ہے۔حامد اکمل طویل نظموں میں لفظیات کا استعما ل بکثرت کرتے ہیں جس سے وہ موضوع سے بہکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اگر اس سے گریز کریں تو انہیں نظموں کے شاعروں کے زمرہ میں رکھا جا سکتا ہے۔’’جب تب‘‘ ان کی بہترین نظم ہے جس میں وہ اپنے اظہار میں کامیاب ہیں ۔اس نظم میں ماضی سے حال کی طرف اورحال سے مستقبل کی طرف نظر بڑی عمدگی سے ہوئی ہے۔ 
جب سر پر چاندنی پھیلنے لگے گی تو / ان چاہتوں پر روئیں گے / جن پر ہنسا کرتے ہیں / جیسے بچپن کی غمگیں یادوں پر / جوانی میں ہنستے تھے / جوانی کی المناکی بڑھاپے میں ہنسائے گی نہیں۔رلائے گی / پھر اس کے بعد ان آنسوؤں کی بے مائیگی پر / ہنسنے کا موقع / شاید کبھی نہیں مل سکے گا!
شائستہ یوسف کا نام بھی کافی اہمیت رکھتا ہے جنہوں نے اپنے انفرادی لہجہ ، شعری رویہ اوراسلوب کی وجہ سے ادبی مقام حاصل کیا ہے۔ ان کے یہاں نسائی تحریک کے خد وخال ملتے ہیں۔انہوں نے استعاروں، اشاروں اور کنایوں سے کام لیتے ہوئے عورتوں کے جذبات ، احساسات اور ان کے معاشرتی مسائل کو اجاگر کرنے کی کامیاب سعی کی ہے۔ان کی نظموں میں فکر اور حسّیت کا احساس پایا جاتا ہے۔ ان کے یہاں علامتی انداز بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ان کی مشہور نظم ’’ بند مٹھیوں میں پھر کچھ نئی لکیریں ہیں ‘‘ ہے جس میں ان کی سوچ اور فکر کی پرواز بہت بلند ہے۔جس کا ایک حصّہ ملاحظہ فرمائیں۔
آ ہنی دریچے بھی/ آگ سے پریشاں تھے/ ادھ جلی چوکھٹ / خوف سے لرزتی تھی / لمحہ لمحہ روتی تھی 
اس حصہ میں آہنی دریچے اورادھ جلی چوکھٹ، ایک طرح کا پیکر تراشتے ہیں جس سے دونوں کی پریشانی ولرزانی واضح ہوتی ہے۔
نظموں کے اس سفر میں ایک نام ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی کا ہے جنہوں نے نظم گوئی کے میدان میں اپنی ایک شناخت بنالی ہے۔جن کی نظموں میں تلمیحات کی بھرمار ہوتی ہے ۔ وہ روایات کا جائزہ بھی لیتے ہیں مگر جدیدلہجہ اور انداز میں کیونکہ وہ جدیدیت سے واقف ہیں اور جدت پسند بھی ہیں۔وہ اپنی نظموں میں موضوع کی بھرپور وضاحت کرتے ہیں مگر تفصیل میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ان کی نظمیں واقعات پر مشتمل ہوتی ہیں۔ان کی فکر اور اختراع سے نئے نئے موضوعات اجاگر ہوتے ہیں جن میں معصومیت پائی جاتی ہے ۔
نیزہ پر ٹنگا سر/ اور اس دار کی بھیڑیں / جس کا چرواہا کہیں کھو گیا/ ہم سے کیا کہہ رہی ہیں۔۔۔شکم ماہی سے پیمبر کا تولد/ یا خود حفاظتی کے لئے / تاریک گپھاؤں پاشعاری
یہاں نیزہ پر ٹنگا سر سے کربلا،شکم ماہی سے پیمبر کا تولد سے حضرت یونس ؑ اور تاریک گپھاؤں کی پاشعاری سے مراد اصحابِ کہف یا غار ثور میں حضور اکرمﷺ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کے قیام کی طرف اشارے ملتے ہیں۔
جبار جمیل کی نظموں کا ایک خاص وصف اختتام پر چونکا دینے والا ہوتا ہے۔ان کی نظمیں مختصر ہوتی ہیں جس میں وہ ایک تاثر اور اچھوتا پن پیدا کر دیتے ہیں ان کی زبان اور انداز بیان سادہ ہوتا ہے۔ان کے خیالات اور موضوعات میں کوئی نیاپن نہیں دکھائی دیتا ہے۔مگر ان کا اظہار ان کی نظموں کو جاندار بنا دیتا ہے۔وداع، وقت ، آمنت باللہ ،مشغلہ ان کی مشہور مختصر نظمیں ہیں۔نظم ’’آمنت باللہ ‘‘کا اختصار قابل توجہ ہے اور اظہار اس سے زیادہ قابل توجہ ہے۔
حادثوں کی زبانی / جو اس کے قاصد ہیں / وقت نے ایک چھوٹا سا پیغام بھیجا ہے / میری بعیت کو تسلیم کرلو
ماہر منصور کی نظموں میں جدید خیالات پائے جاتے ہیں یعنی وہ نظموں میں دور حاضرہ کی میکانکی و سائنسی اختراعات اور ایجادات کو سموکر اپنے احساسات برقرا رکھتے ہیں ۔یہ چیزیں بطور تمثیل اس طرح لے آتے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اہم ربط اور تعلق نہیں رہتا۔ان کے یہاں تیز روی اور سیمابیت کا عنصر پایا جاتا ہے۔ان کی اکثر نظموں میں ان کا اپناپرتودکھائی دیتا ہے۔ان کی نظموں کے الفاظ ان کے لئے آئینہ ہیں جس میں ان کا اپنا عکس موجود ہوتا ہے۔انہوں نے ان نظموں میں کوئی نیا تجربہ تو نہیں کیا البتہ ان میں بے ساختگی پائی جاتی ہے اور اس میں علامتی اور تمثیلی انداز بھی ملتا ہے۔مری نظمیں، ناگفتگی ، زخم نادیدہ،درسِ روز ازل وغیرہ ان کی اچھی نظمیں ہیں۔’ مری نظمیں‘کا یہ حصّہ دیکھئے۔
کبھی لفظوں کے آئینوں کو / تم جو غور سے دیکھو / تو شاید اپنا پرتو ہی نظر آئے / بشرطیکہ / تمہاری آنکھ روشن ہو
رزاق اثر کی نظمیں جدیدیت اور روایت کی پاسدار ہیں جن کے موضوعات ذاتی تجربات اور مشاہدات پر مشتمل ہیں۔علاوہ ازیں سیاسی ، سماجی اور تہذیبی زندگی کو اس طرح نظموں میں پیش کرتے ہیں جو ذہنوں کو متاثر کرتے ہیںآدمی، شب خون اور زوال ان کی مشہور نظمیں ہیں۔جن میں وہ لفظیات کو اس طرح برتتے ہیں جس سے موضوع بہ آسانی قاری کے ذہنوں میں اتر جاتا ہے۔’آدمی ‘نظم میں آج کا آدمی کس طرح مختلف خانوں میں بٹاہے اسے تاش کے باون پتوں میں پیش کرتے ہیں۔جس کا ایک ٹکڑا ملاحظہ ہو۔
تاش کے باون پتوں کی طرح / آدمی تقسیم ہے / مختلف رنگوں کے نمبروں میں / چار مختلف سمتوں میں / ہر ایک رنگ میں چار مختلف نمبر / غلام ، بیگم بادشاہ / مختلف رنگوں کے نمبروں میں تقسیم ہیں عوام/ صفرجوکر ہے۔
ساغر کرناٹکی نے کامیاب نظمیں لکھی ہیں ۔انہیں نئے زمانے کے انسان کے درد کا احساس ہے۔انہیں اس بات کا علم ہے کہ دور حاضر میں کوئی بھی رشتہ اپنائیت کی کسوٹی پر کھرا نہیں اترتا ،ہر چیز اپنی قدر و قیمت کھوتی جا رہی ہے ، محبت مفاد بن گئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ محبوب بھی جذبات کی مارکیٹنگ کرتا ہے ۔تغزل اور تقدس کو پامال کرتا ہے۔ساغر کرناٹکی نئی زندگی کے علائم وغیرہ کو نہایت سادگی اورعمدگی کے ساتھ اپنی نظموں میں سموتے ہیں۔ان کی نظموں کا ایک خاص وصف ان کا اختصار ہے۔ان کی مکمل تین نظمیں دیکھئے۔
مجھے اب اپنے قد کی / فکر کرنی ضروری ہے / میرا بیٹا / میرے قد کے برابر آگیا ہے
عجب محبوب ہے / میرے جذبات و احساسات کو / غزل کی شکل دیتا ہے / تغزل چھین لیتا ہے 
دورِ ماضی ہو گیا /کب کا شہید / دور حاضر کی / لبوں پر جان ہے / دور مستقبل ابھی سے / خود کشی کی مشق میں مصروف ہے
ڈاکٹر یس یم عقیل کوریاست کرناٹک میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ ’’ ردائے رحمت‘‘ آزاد نعتوں پر مشتمل واحد نعتیہ مجموعہ ہے۔جس میں ترسٹھ آزاد نعتیں ہیں جن میں حضور اکرم ﷺ کی سیرت کے نادر پہلو ؤں کو پیش کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کافی نظمیں لکھی ہیں جو ان کے مشاہدات ، احساسات اور تجربات کی غماز ہیں ان کی نظموں میں متحرک زندگی اور زمانے کے سلگتے اور سنگین مسائل کو دیکھا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی زمانے کی بے ثباتی اور گم ہوتے ہوئے اقدار کو بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ان کے یہاں بھی ایجاز و اختصار نظم کا بنیادی وصف ہے۔نظم ’’ وائے مجبوری‘‘ملاحظہ فرمائیں۔جس میں ان کے گہرے مشاہدہ کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
ہوس آلود نظروں سے / بچا پاؤ گی تم کیسے / بدن اپنا / یہ نظریں ہر جگہ ہیں/ میں سب کچھ دیکھتا ہوں /پھر بھی تم سے کہہ نہیں سکتا /کہ تم اب /ترک کر دو نوکری اپنی / مجھے غیرت نہیں آتی /مجھے معلوم ہے / غیرت محض انساں کا حصّہ ہے / میں انساں ہی کہاں ہوں / میں تو مفلس ہوں۔
اسی طرح ایک اور بلا عنوان نظم میں رشتوں کے کٹ جانے سے پیدا ہونے والے درد و کرب اور احساس کا انداز دیکھئے۔
سفر میں زندگی کے / ساتھ تیرا اس طرح چھوٹا / کہ تری یاد کے سارے دریچے / ہوگئے ویراں / تصور بھی ترا باقی نہیں ہے / تیری تقریر کا جادو / بڑا ہی بے اثر نکلا/ کوئی رشتہ نہیں باقی ۔۔۔۔کسی گمنام افسانہ کے / ایک انجان صفحہ پر / میں تیرا نام پڑھتا ہوں / تو پلکوں کے کنارے بھیگ جاتے ہیں / نہ جانے کیوں ؟
سلیمان خمار کی نظموں میں گہرائی اور گیرائی پائی جاتی ہے اور ان میں زندگی کی بے رحمیوں ، سفاکیوں، ستم ظریفیوں اور دست درازیوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔انہوں نے زندگی کے حقائق کو عمدگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ان کی نظم ’’ جدید نسل کا المیہ‘‘ کا یہ حصّہ دیکھئے۔
تم مجھے چاہتے ہو ، غلط / میں تمہیں پیار کرتا ہوں / سب جھوٹ ہے / سچ تو یہ ہے /کہ ہم اپنی اپنی ضرورت کے پیچھے پڑے ہیں۔
خالد سعید کی نظموں میں ایک تیکھا پن پایا جاتا ہے جسے ہم زمانے کی سرد مہری اور زندگی کی بے توجہی کا رد عمل کہہ سکتے ہیں۔خالد سعید جدید رجحانات اختیا رکرتے ہیں لیکن شعر و ادب کی صحت مند قدروں کا لحاظ رکھتے ہیں۔زبان و بیان پر انہیں قدرت حاصل ہے۔پیاس آشفتہ، گھل جانے کے بعد، درندہ پچھلی ساعت کا ،خستگی اور ہم کہ اکھڑے ہوئے پیڑ سمجھے گئے ان کی مشہور نظمیں ہیں۔نظم ’درندہ پچھلی ساعت کا‘ کا آخری ٹکڑا دیکھئے۔
میری سانسوں کے شاخوں پہ بیٹھے ہوئے تشنگی کے پرندے اڑے/ اپنی منقار بھر پیاس کے واسطے / مگر۔۔۔۔آسمانوں میں بھی کوئی قطرہ نہیں اور سمندر سراب / ایک بے بوند دل ہے کہ ٹلتا نہیں / دن سرکتا نہیں۔ 
رزاق افسر کی نظموں میں زندگی کی حقیقتیں، اس کا ادراک اور تجزیہ پایا جاتا ہے۔جس میں انسان دوستی، درد مندی اور ہمدردی کا عنصر ہوتا ہے جس سے نظموں میں دلکشی پیدا ہوجاتی ہے۔وہ نظموں میں اپنے جذبات کا اظہار ہی نہیں کرتے بلکہ فکر بھی تپاتے ہیں۔ان کی نظم ’’ فرق‘‘ کا یہ ٹکڑا اس بات کا ثبوت ہے۔
تختیاں ، جنگل کی سر حد پر لگی ہیں: جن میں سرخی سے لکھا ہے،انتباہ! / ہر درندہ، ہر چرندہ ،کل پرندے / جو بھی اس جنگل میں ہیں آباد وہ / سب کے سب ہیں ملکیت اب سرکار کی/ جرم ہے ان میں کسی کا بھی شکار/ اور حفاظت لازمی/ ان سب کی خاص و عام پر / معاملہ بر عکس اس کے/ شہر و بستی میں کہیں بھی /ٹوکنے والی کوئی تختی نہیں/ صبح زہرابِ فنا /شام ہے رقصِ اجل/ ٹھیک ہے / جنگل و بستی میں کچھ تو فرق ہونا چاہیئے۔ 
مظہر محی الدین نے بھی خوبصورت،معنی خیز اورکامیاب نظمیں لکھی ہیں۔ ان کی نظموں میں اخلاقی قدروں کا زوال ،فرد کے کھوکھلے پن کارنگ اور زندگی کی بے معنویت پائی جاتی ہے مگر اس میں انتہا پسندی نہیں ہے۔دراصل ان میں زندگی کی تصویر اور تفسیر موجودہے ۔استقامت، تیسرا زینہ ، متاعدانش،کیا کیا اب تک ،کبھی سوچا بھی ہے تم نے ،سوچ، فریاد ان کی اچھی نظمیں ہیں۔نظم ’’سوچ‘‘ کاحال دیکھئے۔
سوچ جب بگڑتی ہے /گہری نیند سوتی ہے/یہ اٹل حقیقت ہے/زیست اپنی منزل سے /دور ہوتی جاتی ہے/سمت بھول جاتی ہے/ذلّتوں کی وادی میں/در بدر بھٹکتی ہے !!
کرناٹک کے جدید نظم گو شعرا کے اس سرسری مطالعہ سے یہ احساس بہر حال ہوجاتا ہے کہ کرناٹک میں جدید نظم کا سفر قابل ستائش ہے اور یہ کہ اسے اردو دنیا کے کسی بھی علاقہ کے اہم ترین شعرا اور کسی بھی رجحان کے تحت لکھی جانے والی نظموں کے عمدہ انتخاب کے مقابلے میں اعتماد کے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں علیم صبا نویدی نے’’ کرناٹک میں جدید اردونظم ‘‘کے نام سے جو کتاب لکھی ہے اس میں محمود ایاز سے لے کر آفاق عالم صدیقی تک انیس شاعروں کا انتخاب کیا ہے۔جس سے واضح ہوتا ہے کہ کرناٹک میں جدید اردونظم کی صورت حال کافی تشفی بخش ہے ۔ کرناٹک کے نظم گو شعرا میں بہت سے نام کافی اہمیت کے حامل ہیں۔جن میں شکیل مظہری ،شیدا رومانی ،ریاض احمد خمار، الف احمد برق،ڈاکٹر بی محمد داؤد محسن،ذاکرہ شبنم ، مہ جبین نجم ، ڈاکٹر فرزانہ فرح وغیرہ کا فی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس مختصر سے مضمون میں سب کے کلام کا جائزہ لینا ممکن نہیں ہے لیکن میں نے نمائندہ شعرا اور ان کی نظموں پر بحث ضرور کی ہے مگر ایک دوسرے سے موازنہ کرتے ہوئے کسی کوکسی پر فوقیت دینے اور مقام متعین کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔البتہ نظموں کے مطالعے سے جو امیج بنتا ہے اس کو پیش کیا ہے۔ جس سے ریاست کرناٹک میں نظم کی صورت حال سامنے آسکے ۔یہ صورتحال بھی تعجب خیز لفظ ہے جس کی تعریف کرنا یا اسے Define کرنا مشکل ہے کیونکہ ’’صورتحال ‘‘تو ہمیشہ ’’ صورتحال ‘‘ ہی رہے گی۔

«
»

دورِ جدیدکااستعمارمیدان میں

مودی کی قصیدہ خواں مدھو کشور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے