اور یکم جون سے اب تک من موہن سنگھ کی طرح چپ رہنے کے بعد پھٹی ہوئی آواز میں شری مودی بھی بے ایمانوں کی حمایت میں اس طرح جھوٹ بولیں گے جیسے 2014کے پورے الیکشن میں بولے پھر اس کے بعد پہلی تقریر میں بولے اور اس کے بعد ہر ملک میں جا کر بولے اور بولتے چلے جا رہے ہیں۔ اورہم انتظار کر رہے ہیں کہ کب داغی ممبر پارلیمنٹ جیل جائیں گے اور کب کسی کو دودھ کا دھلا ثابت کیا جائیگا؟
آج کے اخباروں میں ونکیا نائیڈو کے جو نیئر شری مختار عباس نقوی نے حزب مخالف سے اپیل کی ہے کہ پارلیمانی سیشن کو سیاست کی نذرنہ کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کانگریس پارلیمنٹ اجلاس کو سیاست کی سولی پر چڑھانے کی کوشش نہ کرے۔ اور ہم ہر مسئلہ پر بحث کرنے کے لئے تیار ہیں۔گاؤں میں کہاوت بہت بولی جاتی ہے کہ ’’سو پ تو سوپ چھلنی بھی بولی جس میں 72چھید‘‘پوری بھاجپا کو ایک یہی نقوی صاحب ملے تھے جو خاصانہ انداز میں ملک کا درد بیان کر رہے ہیں۔ پوری بی جے پی میں کیا کوئی بڑا لیڈر ہے جس نے 2009سے 2014تک پارلیمنٹ میں ننگا ناچ نہ دکھایا ہو؟ بے چارے مختار عباس کس گنتی میں ہیں؟ حکومت بنتے ہی سب سے اونچی آوازیں ایڈوانی جی کو سوشما سوراج کو ، مرلی منوہر جوشی کو ارون جیٹلی کو اور راج نرائن کو یہ خیال نہیں آیا کہ انہوں نے پارلیمنٹ کے پانچ سال میں آدھا کام بھی نہیں کرنے دیا اس کے لئے عوام سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگیں۔ اسلئے کہ ان کی وجہ سے جو ہم عوام کا ہزاروں کروڑ روپیہ برباد ہوا اس کا مجرم کون ہے؟ وہ روپیہ نہ سونیا گاندھی کا تھا نہ من موہن سنگھ کا اور نہ حکومت کے وزیر وں کا اس کا ایک ایک روپیہ غریب عوام کا یعنی سہا را تھا۔
ہم کسی پارٹی کے ممبر یا حمایتی نہیں ہیں۔ ہم نے اس قلم سے اسی مہینہ میں لکھا ہے کہ اٹل جی پنڈت نہرو اور ہر لیڈر سے بڑے جمہوریت نواز تھے۔ اگر ایڈوانی جی اور مودی کوئی قابل تعریف کام کریں گے تو ہم ان کی بھی تعریف اپنا فرض سمجھیں گے۔لیکن ایسی حالت میں کیا تعریف کریں کہ ایک فرضی انکاؤنٹر کی سازش تیار کر کے معصوموں کو اپنی پولیس سے موت کی نیند سلوانے اور جب پکڑا جائے تو ہرجگہ سے ضمانت نا منظور ہونے کے بعد لاکھوں روپئے خرچ کر کے سپریم کورٹ سے ضمانت کرائے اوراسے پارٹی کا صدر بنا دیا جائے۔
گذرتے ہوئے پانچ برسوں میں جو ہمارا روپیہ بی جے پی کے نیتاؤں نے صرف پارلیمنٹ کو لونڈوں کااکھاڑا بنا کر برباد کیا ہے ہم یا تو اس کا ایک ایک پیسہ وصول کریں گے یا اپوزیشن کی اس بات کے لئے حمایت کریں گے کہ مودی کی فوج نے پانچ سال میں آدھا کام بھی نہیں ہونے دیا وہ اب چوتھائی بھی نہ ہونے دیں اور پارلیمنٹ کو سیاست کی سولی پر نہیں گندے اور اندھے کنویں میں گرجانے دیں۔ اور یہ عمل اس وقت تک جاری رکھیں جب تک تمام بڑے لیڈر ہر صوبہ ہر شہر اور ہر گاؤں کے آدمی سے معافی نہ مانگیں اور جب تک تسلیم نہ کر یں کہ انہوں نے پانچ برس عوام سے دشمنی کی ملک سے دشمنی کی اور پارلیمنٹ سے دشمنی کی۔
بے شک ان پانچ برسوں کے مجرم مودی صاحب نہیں تھے لیکن وہ سب تھے جن کی حمایت میں مودی صاحب پوری بی جے پی کو کھڑا کئے ہوئے ہیں اور حملوں کا جواب دینے کی ذمہ داری ان کو سونپی ہے جو اپنے او پر ہونے والے حملہ سے بچنے کے لئے صدارت کی کرسی پر بیٹھا دئے گئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا بی جے پی میں صرف ایک اٹل جی تھے جنہیں یہ کہنا پڑا کہ تم نے راج دھرم کا پاس نہیں کیا؟ کیا صرف ایک اٹل جی تھے جنہوں نے کہا کہ میں دنیا کو کیا منہ دکھاؤں گا ؟ شری مودی کو کیا حق ہے اس کرسی پر بیٹھنے کا جب ان میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ سوشما سوراج سے کہہ سکیں کہ آپ نے بھرشٹا چار مملکت بھارت کے نعرہ کو گندہ کر دیا اور میری گردن جھکا دی۔ ان کے اندر جب اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ راجستھان کی رانی سے یہ کہہ سکیں کہ یا حکومت چھوڑو یا پارٹی چھوڑدو اور یہ تو بزدلی اور احساس کمتری کی انتہا ہے کہ اسمرتی ایرانی کی جعلی ڈگری کا ثبوت مل جانے کے باوجود صرف اس لئے انہیں گھر کا راستہ نہیں دکھایا جا سکا کہ وہ اس فرقہ سے تعلق رکھتی ہے جس کے سامنے شری مودی کی گردن جھکتی ہے۔
اس اجلاس میں پھر تحویل آراضی بل آئے گا اور پھر اس پر کروڑوں روپئے بر باد ہو ں گے اور پھر وہ راجیہ سبھا میں گرجائے گا اور مودی صاحب پھر ایوان صدر میں جا کر چوتھا آرڈی نینس پاس کرا لیں گے۔ رہی بات للت مودی کی تو مسز سوشما سوراج کو وزارت کی ذمہ داری سے الگ کرنے کے لئے کیا یہ کم ہے کہ ان کے شوہر نامدار اور ان کی بیٹی للت مودی کو اس کے پاپوں سے بچانے کے داؤں پیچ کی بھر پور اجرت وصول کر رہے ہیں۔ اور للت مودی جس کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ سات سو کروڑ بلیک روپیہ لیکر بھاگا ہے اور اس سٹہ اور جوئے کے پیسوں سے وکیلوں کی ٹیم بنا کر لڑ رہا ہے اس سے انسانی ہمدردی سوشما جی اپنا وزارتی فریضہ ثابت کریں۔
ہم حیران ہیں کہ شیوراج سنگھ چوہان کے پاپو ں کا گھڑا اور 45سے زیادہ گواہوں کی لاشوں کا وزن لیکر مودی صاحب اس پارلیمنٹ میں کیسے داخل ہوں گے جس میں پہلی بار قدم رکھنے سے پہلے اسے انصاف اور قانون کا مندر سمجھ کر اس کی سیڑھی پر ماتھا ٹیکا تھا؟ گزشتہ اجلاس میں صرف ایک تحویل آراضی بل تھا وہ جس کا سامنا کرتے کرتے روئے دے رہے تھے اس لئے کہ 12برس گجرات میں انہوں نے اٹل شاہی نہیں کی مگر شاہی کی تھی۔ جس نے ان کی مخالفت کی اسے گولیوں سے چھلنی کروا دیا اور شریف مسلمانوں کو قاتل بنا کر جیل میں ڈال دیا۔ اب وہ اس پارلیمنٹ میں ہیں جہاں ان سے آدھی عمر اور آدھی آوازمیں بولنے والے راہل جی ہیں انہیں ڈر لگ رہا ہے۔
مودی صاحب کو تو اس کا جواب بھی دینا ہوگا کہ یہ کیسی حکومت ہے کہ ان کے احمد آباد والے بابا آسا رام کے خلاف جو گواہی دیتا ہے وہ قتل کر دیا جاتا ہے اور جو شیوراج سنگھ چوہان کے پاپوں سے واقف ہیں وہ بھی مار دئے جاتے ہیں اور کوئی ایک قاتل اس پولیس کی پکڑ میں نہیں آتا جو درجنوں مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کو دیکھ کر نہیں سونگھ کر مار دیتی تھی کہ وہ مودی کو قتل کرنے آ رہے تھے۔ آخر اب وہ پولیس مودی کے وزیر اعظم بنتے ہی کیسے بانجھ ہو گئی؟ بہر حال ایک طرف 300کی ٹیم ہے دوسری طرف صرف 44کی۔ اور حیرت ہے کہ 300کی ٹیم تھر تھر کانپ رہی ہے اس لئے کہ بھرشٹا چار اور گھٹالے بڑے بڑوں کو بزدل بنا دیتے ہیں۔
جواب دیں