اس کے خلاف ملک بھر میں شدید غصے کی لہر پیدا ہوگئی ہے عبدالعزیز جب حکمرانوں میں اقتدار کا نشہ پیدا ہوجاتا ہے تو عوام کے جذبات اور احساسات کو حکمراں بھول جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اس وقت جس پارٹی کی حکومت ہے اس کا ذہن پہلے ہی سے فرقہ پرستی سے […]
کالے قانون کے حامیوں کی آرزوئیں خاک میں مل جائینگی
اس کے خلاف ملک بھر میں شدید غصے کی لہر پیدا ہوگئی ہے
عبدالعزیز
جب حکمرانوں میں اقتدار کا نشہ پیدا ہوجاتا ہے تو عوام کے جذبات اور احساسات کو حکمراں بھول جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اس وقت جس پارٹی کی حکومت ہے اس کا ذہن پہلے ہی سے فرقہ پرستی سے زہر آلود تھا۔ اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد مزید زہریلا ہوگیا ہے۔ اقتدار کا ایسا نشہ چڑھا کہ اپنی حقیقت کو بھی بھول گئے کہ کل وہ کیا تھے، ان کی حیثیت کیا تھی؟ حقیقت فراموشی سے اور زمینی حقائق کو نظر انداز کرنے سے جو صورت حال ہمارے ملک میں پیدا ہوگئی ہے وہ ناگفتہ بہ ہے۔ بقول مسٹر پی. چدمبرم ملک کی معیشت آئی سی یو(نہایت نگہداشت والی یونٹ) میں ہے۔ پہلے نریندر مودی سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے تھے اور ڈیڑھ دو آدمی سے وہ مشورے کرکے فرمان جاری کرتے تھے لیکن آہستہ آہستہ ان کے سب سے بڑے حاشیہ بردار یا دست راست امیت شاہ بھی ان کے بعد یا ان کے برابر سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے۔ 2019ء کے لوک سبھا الیکشن میں کامیابی کے بعد جو نئی سرکار تشکیل ہوئی تو امیت شاہ کو وزیر داخلہ کی کرسی دے دی گئی۔ بی جے پی کے صدر کی حیثیت سے انھوں نے بی جے پی کو چاہے جیسے بھی ہو اونچائیوں پر پہنچا دیا جس کی وجہ سے بھی ان کا رعب و دبدبہ قائم و دائم تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ بعض لوگوں کے دباؤ یا آر ایس ایس کے دباؤ کی بنا پر نریندر مودی کو انھیں وزیر داخلہ کا عہدہ سونپنا پڑا۔ جب اٹل بہاری واجپئی وزیر اعظم تھے تو اس وقت بھی کم و بیش سنگھ پریوار کے اندر یہی صورت حال تھی۔ ایل کے ایڈوانی کو واجپئی جی کو نائب وزیر اعظم بنانا پڑا تھا۔ حالانکہ وہ پہلے ہی سے وزیر داخلہ کا عہدہ سنبھالے ہوئے تھے۔ یوں تو مودی یا آر ایس ایس کے لیڈروں میں مسلمانوں کے خلاف پہلے سے زہر بھرا ہوا تھا اور مسلمانوں کو ہر طرح سے مغلوب اور محکوم بنانے کی کوشش جاری تھی لیکن امیت شاہ کے وزیر داخلہ بننے کے بعد اس عمل میں تیزی آگئی۔ پہلے کشمیر جو مسلم اکثریت کی ریاست ہے اس کے خصوصی درجے کو ختم کیا گیا اور اس کا دو ٹکڑا کر دیا گیا۔ اس کیلئے امیت شاہ نے کمان سنبھالی تھی اور لوک سبھا کے اندر اور لوک سبھا کے باہر انھوں نے اپنا جوہر دکھایا اور آناً فاناً دفعہ 370 کو ہٹا دیا۔ پورے کشمیر کو قید خانے میں تبدیل کردیا۔ کشمیر کی حالت انتہائی خراب ہوگئی۔ قوم پرست لیڈروں کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ ہزاروں لوگ جیل کی کوٹھری میں بند کر دیا گیا اور پوری ریاست میں 12، 13 لاکھ افواج تعینات کردی گئیں۔ ہر سات آدمی پر ایک فوجی کو نگاہ رکھنے کیلئے مقرر کردیا گیا۔ انٹرنیٹ کی بحالی کیلئے سپریم کورٹ نے ہدایت بھی جاری کردی لیکن حکومت اس پر عمل آوری نہیں کر رہی ہے۔ ’سی اے اے‘ سے فرقہ پرستی کا زہر ملک بھر میں پھیل گیا۔ این آر سی کے خلاف پہلے سے ہی لوگوں کے دل و دماغ میں غصہ بھرا ہوا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لوک سبھا کے اندر اور باہر ایک بار نہیں متعدد بار اس کے نفاذ کا اعلان اور اظہار امیت شاہ کرتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ ہر ایک درانداز کو چن چن کر ملک سے باہر نکالا جائے گا یا حراست کیمپ میں ڈال دیا جائے گا۔ جب کالے قانون کے خلاف مظاہرے اور احتجاج شروع ہوئے تو ملک بھر میں غصے کی لہر پیدا ہوگئی تو وزیر اعظم نریندر مودی کو اندازہ ہوگیا کہ ان کے پیر تلے سے زمین کھسک رہی ہے۔ اس کی وجہ سے دہلی کے رام لیلا میدان میں انھوں نے زور دے کر کہاکہ این آر سی پر کبھی چرچا ہی نہیں ہوا۔ نہ کابینہ میں نہ لوک سبھا میں۔ اتنے بڑے سفید جھوٹ کو آخر لوگ کیسے مان سکتے تھے؟ امیت شاہ نے ہی بیسیوں بار این آر سی کے نفاذ کے سلسلے میں بیانات نہیں دیئے تھے بلکہ صدر جمہوریہ نے بھی اپنے خطبے میں اس کے نفاذ کا ذکر کیا تھا۔ صدر کا خطبہ کابینہ کی طرف سے تیار کیا جاتا ہے۔ کابینہ کی صدارت وزیر اعظم کرتا ہے۔ وزیر اعظم ان سب چیزوں کو پس پشت ڈال کر اس لئے جھوٹ بولنے پر آمادہ ہوئے کہ
لوگوں کو ان حقیقتوں کا پتہ نہیں ہے۔ دوسری بات یہ تھی کہ ان کی زور دار خطابت سے عوام ان کی بات تسلیم کرلیں گے،مگر ایسا ہوا نہیں کیونکہ مظاہرے پر مظاہرے یا احتجاج پر احتجاج وہ بھی ملک بھر میں اور چوبیسوں گھنٹے جب ہورہے ہوں، تقریریں ہورہی ہوں، بیانات دیئے جارہے ہیں، سوشل میڈیا میں بھی باتیں آرہی ہوں، ٹی وی چینلوں پر بھی بحث و مباحثے ہورہے ہوں تو آخر کیسے وزیر اعظم کی بات قابل تسلیم ہو۔ این آرسی اورسی اے اے کے خلاف مظاہرے ہونے کی وجہ سے اعداد و شمار کے جمع کرنے کی کوشش کئی ریاستوں میں ناممکن العمل ہوگیا۔ 2021ء کی مردم شماری کا کام بھی ٹھپ ہوگیا۔ اس کو این پی آر کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔اس طرح کا پرابلم (مسئلہ) کبھی پیدا نہیں ہوا تھا۔ لیکن شہریت کے چلے جانے کے خوف میں ہر شہری چوکنا ہوگیا یہاں تک کہ Surveyors (جائزہ لینے والے) کی بھی کئی جگہ پٹائی ہوگئی۔ سی اے اے اور این آر سی کی طرح مرد شماری بھی تنازعے کا شکار ہوگیا۔ جس کی وجہ سے مردم شماری کا کام رک گیا۔ شہری آسانی سے سروے اور مردم شماری کے فرق کو بھی نہیں سمجھ سکے۔ آندھرا پردیش میں National Sample Survey Organisation (NSSO) کے بارے میں گاؤں کے لوگوں سے جائزہ لینے والے سوالات کر رہے تھے؛ حالانکہ یہ بالکل سماجی ایشو تھا لیکن اسے این آر سی سے جوڑ دیا گیا جس کی وجہ سے لوگوں نے جائزہ لینے والوں کو مار کر گاؤں سے بھگا دیا۔ بنگال میں تعلیم اورروزگار کے معاملے میں NSSO کیلئے اعداد و شمار سرویئر کئی گاؤں میں گئے تھے لیکن سروے کرنے والوں کو سخت پریشانی ہوئی۔ کئی جگہ انھیں بھی زد و کوب کیا گیا جس کی وجہ سے سروے کے کام کو بند کر دینا پڑا۔ آزادی کے بعد پہلی بار اس طرح کی وارداتیں ہوئی ہیں۔ یہ اس طرح کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے۔ جب کہیں NSSO کیلئے سرویئر پولس کی محافظت میں تو لوگ ان کے سوالوں کا جواب ہی نہیں دیتے، جس کی وجہ سے سروے بے معنی ہوکر رہ گیا ہے۔ جو صحیح حکومت ہوتی ہے اور جو قانون کے دائرے میں حکمرانی کرتی ہے وہ ہمیشہ چاہتی ہے کہ عوام کا اس پر اعتماد بحال رہے، لیکن موجودہ حکومت کا عدم اعتماد بڑھتا جارہا ہے۔ مسلم خواتین جو نہایت پرامن طریقے سے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف دھرنا دیئے ہوئی ہیں ان کا نعرہ ہے کہ ’میں ہندستان سے محبت کرتی ہوں، وہ قومی پرچم کو لہراتی ہیں، قومی ترانے گاتی ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ دستور میں جو برابری درجہ دیا ہے وہ اسے ملنا چاہئے۔ عورتوں کے اس جائز عمل کو حکومت کو Response دینا چاہئے اور حکمراں جماعت کو بھی مطمئن کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کے برعکس بی جے پی کے چھوٹے بڑے لیڈران احتجاج کرنے والے یا کرنے والیوں کو دہشت گرد، غدارِ وطن، پاکستان نواز، ٹکڑے ٹکڑے گینگ کے خطابات سے نواز رہے ہیں اور ان پر ملک کو توڑنے کا الزام دے رہے ہیں۔ ایسی چیزیں حکومت اور شہریوں کے درمیان کسی قسم کا اعتماد باقی نہیں رکھتیں۔ اس سے کیا ہورہا ہے کہ انصاف، معیشت اور اعداد و شمار کا نظام بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ NSSO کے سرویئر کافی ہاؤسز یا دکانوں میں بیٹھ کر اعداد و شمار جمع کرنے کی خانہ پری کر رہے ہیں۔ جہاں بھی اگر کسی کو پتہ چل جاتا ہے کہ جائزہ لینے والے بیٹھے ہوئے ہیں تو آس پاس کے لوگ جمع ہوکر چائے یا قہوہ خانہ سے انھیں بھگا دیتے ہیں۔ بہت سی ریاستوں نے جس میں مہاراشٹر، کیرالہ، پنجاب، راجستھان، مدھیہ پردیش، بہار،بنگال، آندھرا پردیش، تلنگانہ، چھتیس گڑھ اور اڑیسہ نے کالے قانون یعنی سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کو لاگو نہ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ بی جے پی نے این پی آر سے ایک سوال کہ باپ کہاں پیدا ہوا؟ کو ختم کردیا ہے اور این آر سی کو نہ لاگو کرنے کا فیصلہ کیا ہے پھر بھی امیت شاہ کے بیانات لوگوں کے کانوں میں گونج رہے ہیں جس کی وجہ سے کالے قانون کے ہر عمل کو یا اس جیسے کسی عمل کو لوگ سبوتاژ کررہے ہیں۔ مغربی بنگال میں بی جے پی کے لیڈر مسلمانوں کو بنگلہ دیشی گھس پیٹھیا (درانداز)کہہ کر ان کے غصے کو بڑھاتے ہیں۔ آسام میں این آر سی کا سلسلہ چھ مہینے تک جاری رہا۔ آسام میں این آر سی لاگو کرنے کی کارروائی کی گئی۔ 3.3 کروڑ لوگوں کی چھان بین ہوئی، جس کیلئے 1600 کروڑ روپئے کا خرچ آیا اور 50 ہزار آفیشیل روز و شب کام کرتے رہے۔19 لاکھ لوگ این آر سی کے نفاذ سے غیر شہری قرار دیئے گئے، جس میں 12 لاکھ ہندوؤں کی تعداد ہے،6 لاکھ مسلمان ہیں اور ایک لاکھ آدی واسی ہیں۔ یہ حقیقت میں غیر قانونی یا غیر شہری نہیں کہے جاسکتے۔ ان کے پاس دکھانے کیلئے دستاویز نہیں ہیں۔ یہ سی اے اے جو لایا گیا اس کے ذریعے یہ پیشکش ہے کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر ہر ایک کو شہری بنا لیا جائے گا خواہ اس کے پاس دستاویز ہو یا نہ ہو۔ صرف مسلمانوں کو حراست کیمپ میں بھیجا جائے گا۔ آسام کے طرز پر اگر پورے ہندستان میں NRC لاگو کیا جاتا ہے تو 66
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں