ابھی یہ واضح نہیں ہوا کہ ان افراد کی اطلاع انکم ٹیکس اور دیگر محکموں کو دی جائے گی یا نہیں۔ لیکن یہ ایک بہت موثر قدم ہے اس سے نہ صرف کالا دھن بازار میں آئے گا بلکہ نقلی نوٹوں کا چلن بھی رکے گا اور ان کی پہچان بھی آسان ہوجائے گی کیونکہ اب سبھی نوٹوں پر چھپنے کا سال درج ہونا لازمی ہوجائے گا۔ اس سے قبل اندرا گاندھی کے زمانہ میں بھی ایسا ہی سخت قدم اٹھاتے ہوئے ہزار کے نوٹوں کا چلن بند کردیا گیا تھا اس وقت جو لوگ انکم ٹیکس ادا کرکے اپنے نوٹ چلوادیتے تھے وہ تو فائدے میں رہے لیکن جن کے پاس بے انتہا کالادھن تھا وہ اس کی ہمت نہیں کرپائے نتیجتاً کھربوں روپیہ کا انکم ٹیکس وصو ل ہوا اور کالے دھن سے کچھ راحت بھی ملی تھی۔ کیا اب بھی کچھ لوگ اپنی جمع شدہ رقم بینکوں سے تبدیل کرنے کے بجائے ایسے دبائے رکھیں گے اس کا سوال تو آنے والے وقت میں ہی ملے گا لیکن جتنی بھی رقم نکل کر بازار میں آجائے گی ملکی معیشت کو اتنا ہی فائدہ ہوگا۔
کالے دھن کے ساتھ ہی نقلی نوٹ بھی ہندوستانی معیشت کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں یہ دراصل’’معاشی دہشت گردی‘‘ کا حصہ ہے جس کا مقصد ہندوستانی معیشت کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا ہے کچھ لوگو ں کا خیال ہے کہ ہماری معیشت میں کم از کم 15فیصد چلن ان نقلی اور جعلی نوٹوں کا ہوگیا ہے یہ بہت ہی تشویشناک صورت حال ہے رزرو بینک اور حکومت ہند کے اس قدم کا مقصد ان جعلی نوٹوں کو بند کرنا بھی ہے 2005 کے بعد جاری کئے گئے نوٹوں میں کچھ حفاظتی انتظامات ہیں جو نقلی نوٹ بنانے والے ابھی اپنے نوٹوں میں شامل نہیں کرسکے ہیں لیکن بڑی ہوشیاری سے کچھ بے ایمان بینک افسروں کی مدد سے انہیں چلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ روزرو بینک کے اعداد وشمار کے مطابق 31دسمبر 2004تک تقریباً 3لاکھ 46ہزار کروڑ کی کرنسی جاری کی گئی تھی کیا روز بینک اتنی ہی رقم تبدیل کرے گا یا اور کوئی نظام نافذ کرے گی اس کی وضاحت ابھی ہونا باقی ہے۔
روز بینک کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ 31 مارچ 2014 کے بعد وہ 2005 سے قبل جاری کیے جانے والے تمام نوٹ واپس لیگا۔ یکم اپریل 2014 سے لوگوں کو ان نوٹوں کو تبدیل کرنے کے لیے بینک جانا ہوگا۔‘بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2005 سے پہلے جاری کیے جانے والے نوٹوں کی بہ آسانی شناخت کی جا سکتی ہے۔ ان نوٹوں کی پشت پر اشاعت کا سال درج نہیں ہے۔2005 کے بعد جاری کیے جانے والے نوٹوں کے پشت پر درمیان میں نیچے کی پٹی پر اس نوٹ کو جاری کیے جانے کا سال درج ہے۔اس طرح جن نوٹوں پر اشاعت کا سال درج نہیں ہے ان نوٹوں کو بینک کو واپس کرنا ہوگا۔آر بی آئی نے اس ضمن میں لوگوں سے تعاون کرنے کی اپیل کی ہے اور انھیں پریشان نہ ہونے کی تلقین کی ہے۔بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یکم اپریل 2014 کے بعد بھی 2005 سے قبل کے پرانے نوٹ جائز اور چلن میں رہیں گے لیکن انھیں صرف کسی بھی بینک میں تبدیل کیا جا سکے گا۔آر بی آئی نے کہا ’یکم اپریل 2014 سے لوگوں کو انھیں تبدیل کرنے کے لیے بینک جانا ہوگا۔ بینک اگلے حکم تک ان نوٹوں کو تبدیل کرنے کی خدمات مہیا کراتے رہیں گے۔‘
رزرو بینک نے 2005 سے قبل جاری کیے جانے والے بینک نوٹوں کو واپس لینے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتائی ہے لیکن اسے نقد کے طور پر رکھے جانے والی بلیک منی کو سامنے لانے والے قدم کے طور بتایا گیا ہے۔اس کے علاوہ نئے بینک نوٹ میں نقالی اور جعل سازی سے حفاظت کے بہت سے اقدام ہیں۔ اس سے جعلی نوٹوں پر کنٹرول حاصل کیا جا سکے گا۔بھارت میں ابھی 5 ، 10 ، 20 ، 50 ، 100 ، 500 اور 1000 روپے کے بینک نوٹ چلن میں ہیں۔آر بی آئی کے اعداد و شمار کے مطابق 31 مارچ 2013 تک 7،351 کروڑ نوٹ استعمال میں تھے اور ان میں سے 14.6 فیصد 500 روپے کے اور 5.9 فیصد ایک ہزار روپے کے نوٹ تھے۔
کالے دھن کے خلاف سب سے بلند آواز اٹھانے والے اور مودی کے پرستار بابا رام دیو نے حکومت ہند کے اس فیصلہ کا خیرمقدم کیا ہے جس سے حکومت کو ملنے والے سیاسی فائدہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جب کہ بی جے پی حکومت اس داؤ سے پریشان ہے اور مخالفت برائے مخالفت پر آمادہ دکھائی دے رہی ہے یہ بھی ایک پیمانہ ہوسکتا ہے حکومت کے مثبت قدم کو ناپنے کا ۔
جواب دیں