جہاں اس رائفل کو فلسطینیوں نے کثرت سے استعمال کیا تو دوسری جانب القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو بھی اس رائفل کے ہمراہ دیکھے گئے۔دیگر خودکار رائفلوں کے مقابلے میں جہاں اس کو تیار کرنا آسان ہے وہاں میدان جنگ میں اس کو استعمال کرنا اور اس کا دیکھ بھال بھی آسان ہے۔اگرچہ روس میں میخائل کلاشنکوف کو ہیرو مانا جاتا ہے لیکن ان کو اس رائفل سے زیادہ کمائی نہیں ہوئی اور اس بارے میں ایک بار شکایت کرتے ہوئے کلاشنکوف نے کہا تھا کہ اگر وہ رائفل کی بجائے گھاس کاٹنے کی مشین ایجاد کرتے تو وہ زیادہ کمائی کرتے۔
میخائل کلاشنکوف دس نومبرسنہ 1919 میں التائی کے علاقے میں واقع ایک چھوٹے سے گاوں قریا میں کسان کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ اٹھارہ بچوں میں سے ایک تھے جن میں سے صرف چھ بچے ہی بچ پائے۔ان کو سنہ 1938 میں ریڈ آرمی میں شامل کیا گیا۔ وہ اسلحے کے ڈیزائن میں ماہر تھے اور اسی لیے ان کو روسی ٹینک رجمنٹ میں اسلحے میں بہتری کی ڈیوٹی سونپی گئی۔اکتوبر سنہ 1941 میں جس ٹینک کی وہ کمانڈ کر رہے تھے اس پر جرمن گولہ لگا اور وہ زخمی ہوگئے۔
زخمی ہونے کے بعد ہی انہوں نے کلاشنکوف رائفل کے ڈیزائن پر کام شروع کیا۔
جرمنی نے ایک رائفل تیار کی تھی جس میں عام رائفل کی خصوصیات کے ساتھ سب مشین گن کی خصوصیت بھی تھی۔جرمنی کے ساتھ جنگ میں روسی فوج کو اکثر شدید فائرنگ کا سامنا کرنا پڑتا تھا جس کا توڑ ان کے پاس نہیں تھا۔زخمی حالت میں جب وہ ہسپتال میں تھے تو ایک اور فوجی نے ان سے پوچھا کہ کیوں روس کے پاس ایک ایسی بندوق نہیں ہے جو جرمنی کی نئی بندوق کا مقابلہ کر سکے۔
میخائل کلاشنکوف کا کہنا ہے میں نے اس فوجی کے لیے ایک مشین گن تیار کی۔ اس کو ایوٹومٹ کلاشنکوف کا نام دیا گیا جس کا مطلب ہے کلاشنکوف کا خودکار ہتھیار۔شروع میں اس ہتھیار میں کچھ خرابیاں سامنے آئیں لیکن سنہ 1947 میں ایوٹومٹ کلاشنکوف کا ماڈل مکمل کیا اور بہت جلد یہ رائفل اے کے 47 کے نام سے مشہور ہوگئی۔
روسی فوج نے اس رائفل کو سنہ 1949 میں اپنی فوج میں شامل کیا اور سینیئر سارجنٹ میخائل کلاشنکوف کو سٹالن فرسٹ کلاس ایوارڈ سے نوازا۔یہ ایوارڈ ان اعزازت کی لمبی فہرست میں سے ایک ہے جن سے ان کو نوازا گیا۔ دیگر ایوارڈز میں آرڈرز آف لینن ہے جو ان کو تین بار دیا گیا اور ہیرو آف سوشلسٹ لیبر۔سنہ 1987 میں ان کوازوسک نامی شہر کا اعزازی شہری بنایا گیا جہاں سنہ 1949 سے ان کی رہائش تھی اور جہاں انہوں نے کام کیا۔اے کے 47 کی سادگی کے باعث وہ اس رائفل سے کمائی زیادہ نہ کرسکے۔دیگر ممالک میں اسلحے کا کام کرنے والے درجنوں کمپنیوں نے اس کو تیار کرنا شروع کر دیا۔
میخائل کلاشنکوف جب 83 برس کے ہوئے تو ان کو ایک جرمن کمپنی کا تیس فیصد حصہ ملا۔ اس کمپنی کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ مختلف مصنوعات کے لیے ان کا نام استعمال کرسکتی ہے جیسے کہ کلاشنکوف چھتریاں اور پینے کا پانی۔لیکن اے کے 47 رائفل کے باعث ان کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔میخائل کلاشنکوف نے ان کی ایجاد کی ہوئی رائفل سے ہلاک ہونے والے بے شمار لوگوں کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرنے سے ہمیشہ انکار کیا۔
یہ رائفل تیار کرنے کا میرا مقصد تھا میرے وطن کی سرحدوں کی حفاظت۔ یہ میری غلطی نہیں ہے کہ مختلف ممالک میں کلاشنکوف استعمال کی گئی۔ جن ممالک میں اس کو استعمال کیا گیا اس کے لیے ان ممالک کی پالیسیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے نہ کہ اس رائفل کے ڈیزاینر کو۔
جواب دیں