کالابازاری، جمع خوری اور ہماری ذمہ داری

اگر کوئی مجھ سے سوال کرے کہ ہندوستانی عوام کے سامنے آج سب سے بڑے چیلنج کیا ہیں؟ تو میرا جواب ہوگا سیاہ دولت میں روز افزوں اضافہ اور دن بدن بڑھتی چور بازاری و منافع خوری جس نے عام انسان بالخصوص غریب اور متوط طبقہ کی زندگی کو دشوار بنادیا ہے اور حال یہ ہے کہ اِن لعنتوں کی وجہ سے نہ صرف امیروغریب کے درمیان فرق بڑھ رہا ہے بلکہ غریب کی قوتِ خرید بھی مسلسل گر رہی ہے۔یہاں تک کہ وہ ضروریاتِ زندگی حاصل کرنے کے قابل بھی نہیں رہے ہیں۔ 
دوسری طرف قومی معیشت، حکومت کے کاروبار اور اُس کی اقتصادی ترقیایت پر بھی اِس کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ ایک حالیہ عالمی رپورٹ کے مطابق بدعنوانی بالخصوص چوربازاری کے نتیجہ میں ہندوستان گذشتہ ایک دہائی میں بلیک منی کی شکل میں تقریباً سوا کھرب ڈالر یعنی ۱۲۳ ارب ڈالر گنوا چکا ہے، امریکی ریسرچ ادارہ گلوبل فائنانشیل اِنیگریٹی (جی ایف آئی) کے مطابق کالے دھن میں اپنی پونجی برباد کرنے میں ہندوستان دنیا کا آٹھواں سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔ حالانکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنی بڑی رقم گنوانے کے باوجود ہندوستان اپنے ایک بڑے ہمسایہ ملک چین سے اِس معاملے میں کافی پیچھے ہے، کیونکہ مذکورہ ملک پونجی گنوانے میں سرِفہرست ہے، وہ پچھلے دس سال میں ۷۶ء۳ لاکھ کروڑ ڈالر کا نقصان کرچکا ہے۔ اس کے بعد میکسیکو ۴۷۶ ارب ڈالر، ملیشیا ۲۸۵ ارب ڈالر، سعودی عرب ۲۰۱ ارب ڈالر، روس ۱۵۲ ارب ڈالر، فلپائن ۱۳۸ ارب ڈالر اور نائیجیریا ۱۲۹ ارب ڈالر گنواکر متاثر ملکوں میں شامل ہیں۔
ہندوستان جنوبی ایشیا کا واحد ملک ہے جس کو پچھلی ایک دہائی میں سوا کھرب ڈالر کا نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ یہ زبردست رقم اگر نجی جیبوں میں نہ جاکر ملک کی معیشت میں حصّہ دار بنتی تو اُس سے تعلیم، صحت اور ڈھانچہ جاتی سہولتوں کو مستحکم کرنے میں یقیناًکافی مدد ملتی، اِسی لئے جی ایف آئی کے ڈائرکٹر ریمنڈ بیکر کو یہ کہنا پڑا کہ گذشتہ کچھ برسوں میں ہندوستان نے تیزی سے ترقی کی ہے لیکن بلیک مارکیٹنگ اور کرپشن سے دولت جمع کرنے اور قوم کے سرمایہ کے باہر چلے جانے سے اُس کو نقصان بھی اُٹھانا پڑا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی یوکے کی تحقیقات و تخمینہ کی روشنی میں فی الوقت ہمارے ملک ہندوستان میں ۳۴۰ ملین افراد غربت وافلاس کی زندگی بسر کررہے ہیں، جن میں زیادہ تر لوگ دیہی علاقوں کے پسماندہ افراد ہیں، رپورٹ کی روشنی میں افغانستان کے بعد ہندوستان دنیا بھر میں غربت کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے۔ جیسے تعلیم، صحت اور ناخواندگی کے گوناگوں مسائل کا سامنا ہے، ایسے ملک میں کالے دھن میں اضافہ اور اُس کا بڑھتا گراف خود بتاتا ہے کہ اہلِ ملک کی حالت کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر بلیک منی مارکٹنگ ، غیرقانونی دولت میں اضافے، بڑے پیمانے پر ٹیکس کی چوری، کالابازاری جسے غریب اور درمیانہ نچلے درجے کے شہری انجام نہیں دیتے بلکہ اِن کاموں میں کھاتے پیتے سفید پوشوں کا حصّہ ہوتا ہے، اُن پر قابو پالیا جائے تو غربت کا گراف آج گرسکتا ہے۔
کالا دھن کمانے، ٹیکس چوری، منافع خوری، چوربازاری کے ساتھ ہی ساتھ جو دیگر طریقے اپنائے جارہے ہیں اُس کے ذریعہ نشہ آور اشیاء کا کاروبار بھی شامل ہے، جرائم پیشہ لوگ دوسرے ملکوں سے کوکین، افیون اور افیون سے بنائی جانے والی اشیاء اسمگل کرکے سیاہ دولت کمارہے ہیں، غیرقانونی شراب کی پیداوار اور اُس کو فراہم کرکے بھی یہی کام کیا جارہا ہے۔ اِسی طرح چوربازاری بھی بلیک منی کمانے کا بڑا ذریعہ ہے جس میں بچولئے بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، آج ملک کے کسان پریشان ہیں، اُنہیں شکایت ہے کہ پیداوار کی واجب قیمت نہیں ملتی، درمیان کا آدمی اُن کا منافع ہڑپ کرلیتا ہے، یہی شکایت دودھ، سبزیاں اور پھل کی پیدوار کرنے والوں کی بھی ہے کہ اُن کے مال کی مناسب قیمت نہیں ملتی جس کے لئے مصنوعات کو محفوظ رکھنے کا طریقہ اپنایا جانا چاہئے تاکہ کولڈ اسٹوریج میں رکھ کر ضرورت پڑجانے پر اُنہیں فروخت کیا جاسکے۔
بلیک مارکٹنگ پر قابو پانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے ۔ جس چیز کی بازار میں قلت ہو اُسے کم سے کم خریدا جائے اور اشیاء کا زیادہ ذخیرہ نہ کیا جائے ۔ خواتین خریداری کے لئے نکلیں تو بازار میں منظم ہوکر جائیں اگر وہ گروپوں کی شکل میں دوکانوں پر پہونچیں گی تو اُن کے استحصال کی گنجائش کم سے کم ہوجائے گی۔
حکومت نے کنزیومرس فورم کے نام پر ہر شہر میں ایسے ادارے قائم کررکھے ہیں جو چوربازاری اور بلیک مارکٹنگ کے خلاف شکایات پر کاروائی کرتے ہیں، عام صارفین اُن کا سہارا لے کر اپنی کافی کچھ شکایات کو دور کرسکتے ہیں۔
آج کنزیومرس فورم اور اُس کی تحریک ملک میں کافی طاقتور ہوچکی ہے اور شکایات پر وہ فوری طور پر ایکشن لیتی ہے۔ بیدار شہریوں کو چاہئے کہ وہ خریداری کرتے وقت دوسرے طریقے اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ دوکانوں اور اسٹوروں میں اشیاء کی فہرستیں دستیاب ہیں یا نہیں ، اگر نہیں ہیں تو اُس کی بھی وہ شکایت کرسکتے ہیں۔ عام طور پر اشیاء کے پیکٹوں پر بھی قیمتیں اور اُس کے استعمال کی مدت لکھی جاتی ہے ، اُس کا بھی صارفین جائزہ لے کر خریداری کرسکتے ہیں۔ 
یاد رکھئے بلیک منی ہو یا بلیک مارکیٹنگ اِس پر قابو پانا صرف سرکار یا انتظامیہ کی ذمہ داری نہیں، اِس میں ہر شہری اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ آج اِس کی بھی ضرورت ہے کہ معاشی اصلاحات کے ساتھ معاشی اخلاقیات بھی نافذ کی جائیں تبھی ہمارا معاشرہ مذکورہ برائیوں سے چھٹکارا پاسکتا ہے۔ (

«
»

کیا حق ہے ہمیں آزادی منانے کا

بیٹی‘ اپنی اور پرائی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے