کل کا واقعہ اور ہمارا فریضہ

  عبداللہ غازی
  (مدیر ماہ نامہ پھول بھٹکل)

کل بھٹکل میونسپل دفتر کے باہر فرقہ پرستوں نے اردو کا نام ہٹانے کے لیے پرزور احتجاج کیا۔بلاشبہ اس احتجاج نے ان سنگینیوں کی طرف دستک دی ہے جو شاید ہم کچھ مدت بعد دیکھ سکتے ہیں اور یہ تمام سنگینیاں ہندوستان بھر سے گزر کر یہاں اپنے قدم جمانے کے لیے بے تاب ہیں۔
بھٹکل میں اردو کا جو ماحول ہے اور اردو کے محافظین جس طرح اپنے محاذ پر جمے ہوئے ہیں اس طرح شاید ہندوستان کے چنیدہ علاقوں میں ہوں گے! بھلا یہ بات اعدائے اردو کو کیوں کر ہضم ہوگی!
اس لیے انھوں نے یہاں سے اپنے کام کا آغاز کیا۔افسوس اس پر ہورہا ہے کہ بھٹکل کے بہت سے لوگ اور بعض  اہم ذمہ داران اس اہم خبر سے ناواقف ہیں۔
اب ملت کے مسائل سے دور اور عیش و آرام کے دل دادہ ان سب بحثوں میں کیوں پڑیں!

آج سے سات سال قبل ہندوستان کے مشہور ناظم مشاعرہ اور شاعر ڈاکٹر ملک زادہ منظور صاحب سے ہماری آخری ملاقات ہوئی تھی،انھوں نے اس ملاقات پر ہمیں یہ بات بہت سے حوالوں سے بتائی تھی کہ :" اردو کو جتنا نقصان اردو والوں سے ہوا ہے اتنا نقصان کسی اور سے نہیں ہوا ہے۔
بات کڑوی ضرور ہے لیکن مبنی برحقیقت ہے۔آج ہم سب نے غیروں سےزیادہ اپنی اردو دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔
بعض سرکاری،تعلیمی اور معاشرتی بلکہ ٹیکنالوجی کے مسائل میں بھی ہم بلاججھک اردو استعمال کرسکتے ہیں لیکن اس وقت ہم اردو کو اس طرح فراموش کرتے ہیں جیسے یہ ہمارے لیے شجر ممنوعہ ہے۔
تنظیم لائبریری میں اردو کی کتابوں کا قیمتی ذخیرہ جو کئی دہائیوں سے ہر خاص و عام کے لیے وقف تھا اب اپنے آباء کی وہ کتابیں غبار کی نذر ہورہی ہیں اور افادہء عام کا وہ سلسلہ کسی موڑ پر رک سا گیا ہے۔
کیا ہی بہتر تھا کہ اس کو قومی کتب خانے کی شکل دی جاتی! جو ہر ایک کی علمی تشنگی کا سبب ہوتا۔ علم و ادب،تہذیب و ثقافت کے اس گہوارے میں کیا کسی قومی کتب خانے کی ضرورت نہیں ہے؟
کاش تنظیم کے سوسالہ اجلاس کے بعد کسی کی بلند نگاہ اسلاف کی اس علمی میراث کی تعمیر وترقی کی طرف بھی ہوتی! 
اسی طرح دوسرے اداروں کے قدیم اردو ذخیرے کی بھی حالت قابل توجہ ہے۔
ایک وقت وہ تھا جب ہندو بیرون کی بھٹکل مسلم جماعتوں کے پروگراموں میں بطور مہمان اردو کے معزز شعراء کو خصوصیت کے ساتھ بلایا جاتا تھا،جس سے ذوق کی تسکین بھی ہوتی تھی اور اردو کا فروغ بھی ہوتا تھا لیکن آج ان کی جگہ ان گویوں نے لی ہے جو صرف اپنی آوازوں اور اداکاریوں کے دم پر لوگوں کو بہلاتے ہیں۔پھر سالما و غانما اپنے علاقوں میں چلے جاتے ہیں۔ان سے نہ ذوق پروان چڑھتا ہے اور نہ ہی اردو کی ترویج ہوتی ہے۔

کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے
ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے

موجودہ صورتحال میں اردو مخالفین کے مقابلے کے لیے ہم سب کو سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے، تحفظ اردو کے مشن کی پھر سے تجدید ہونی چاہیے، یہ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے اور بقول حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ: اس وقت اردو کی خدمت دراصل اسلام کی خدمت ہے" حقیقت بھی یہی ہے کہ عربی اور فارسی کے بعد دین کا جتنا مواد اردو میں محفوظ ہے اتنا مواد کسی اور زبان میں نہیں ہے۔
ان شرپسندوں نے ہمیں اردو کے متعلق بیداری کا سنہرا موقع دیا ہے اس لیے ہمیں اپنی حکمت عملی کو بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

کچھ آسان سے کام ایسے ہیں جن کو ہنگامی صورت میں کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

اپنے گھروں،دکانوں،دفتروں اور اداروں کے باہر جو بورڈ ہیں ان کو دوسری زبانوں کے ساتھ اردو میں بھی لکھیں۔

اپنے گھروں میں اردو کا کوئی اخبار یا رسالہ ضرور جاری کریں۔

اپنے بچوں کو بچپن ہی سے اردو کی تعلیم دینے کا نظم کریں۔بلکہ اس کو عربی کے بعد سب زبانوں پر ترجیح دیں۔

بھٹکل کے قدیم کتب خانوں کی ازسر نو تجدید ہو۔

ملی اداروں میں اردو مضمون کو خصوصی اہمیت دی جائے۔

تجارتی اشتہارات اردو زبان میں بھی ہوں۔

اگر ہم نے اس وقت اردو کے تحفظ کے لیے کوشش نہیں کی تو ہماری بیوقوفیوں اور ناعاقبت اندیشیوں کے افسانے تاریخ کے صفحات میں  جلی حروف میں لکھے جائیں گے (والعیاذ باللہ)

«
»

عید قرباں کے احکام و مسائل پر ایک دلچسپ مکالمہ

رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی برزخی حیات ___

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے