کیسے گزریں گے دن سردی کے موسم میں!

 

تحریر: جاوید اختر بھارتی
 

سردی کا موسم آیا بازاروں میں گرم کپڑوں کی بھرمار مفلر، سوئٹر، کوٹ سے دکانیں سجنے لگیں ایک طرف جہاں بہت سے لوگ گرم کپڑوں کی خریداری میں مصروف نظر آتے ہیں تو دوسری طرف بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو گرم کپڑوں کی خریداری کرنے سے محروم ہے اور اپنی غربت اور بے بسی پر آنسو بہا رہی ہے کورونا جیسی عالمی وبا، لاک ڈاؤن سے بہت زیادہ لوگ ایسے ہیں جو آج بھی فاقہ کشی کا سامنا کررہے ہیں وہ کیسے اپنے آپ کو سردی سے بچائیں گے، اپنے بچوں کیلئے کیسے گرم کپڑے خریدیں کے کیا ان کے بچے سردی میں ٹھٹھر کر اپنی زندگی کا گذارا کریں گے بدلتے موسم نے بہت سارے سوال کھڑے کردیئے ہیں کیونکہ پڑوسی کا خیال، غریبوں کا خیال، کمزوروں کو سہارا، انسانی ہمدردی یہ سب فرمان، خیالات، نظریات اسٹیج سے کتاب تک اور تقریر سے تحریر تک محدود ہوگئے ہیں –
آج نمائش کا وقت ہے جس کے پاس دولت ہے وہ گرمیوں میں ایرکنڈیشن کمروں میں رہتا ہے باہر نکل کر اسکی خوبیوں اور اپنی فراوانیوں کا خوب تذکرہ کرتا ہے، سردیوں میں کمبل، توسک، مہنگے مہنگے داموں کے کپڑوں میں زیب تن ہوکر خوب نمائش کرتا ہے دوسرے لوگ جو ان تمام سہولیات سے محروم ہیں اور ان چیزوں کا انتظام نہیں کرسکتے ان کا ذرہ برابر خیال نہیں رہتا شام ہوتے ہی گرم کپڑوں کی دکانوں پر بھیڑ لگنا شروع ہوجاتی ہے کچھ لوگ خریداری میں مصروف ہوتے ہیں تو کچھ لوگ خریداروں کو دیکھنے میں مصروف رہتے ہیں لیکن جب ایک غریب انسان کسی دوسرے کو اپنے سے بھی زیادہ غربت میں مبتلا دیکھتا ہے تو اسے کچھ تسلی ہوتی ہے کہ اللہ کا شکر ہے کہ ہماری زندگی قدر غنیمت ہے جبکہ ضروری ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کا خیال کریں اللہ نے دولت سے نوازا ہے تو خود بھی کھا ئیں پہنیں اور دوسروں کو بھی کھلائیں پہنائیں یہی انسانیت ہے اور یہی مذہب اسلام کی تعلیم بھی ہے اس سے منہ موڑ نے والا ہرگز مومن نہیں ہوسکتا –

فی الحال سردی کا موسم ہے اور یہ موسم بھی نیکیاں کمانے کا ذریعہ ہے جہاں ہم اپنے لئے اور اپنے بال بچوں کے لیے گرم کپڑوں کی خریداری کریں تو ساتھ ہی ساتھ اپنے پڑوسی، اپنے سماج اور کمزور طبقے و افراد پر ضرور ایک نظر دوڑائیں اور ان کے لئے بھی سردیوں سے بچنے بچانے کا انتظام کریں اس طرح سردیوں کے موسم کو نیکی کا ذریعہ بنائیں جب ہم خود اس طرح کا راستہ اختیار کریں گے تو پھر حکومت و انتظامیہ سے بھی مطالبہ کر سکتے ہیں کہ شہر کے اندر ایسے انتظامات کئے جائیں جس سے مسافروں کو شدید سردی سے بچنے کیلئے آسانی ہو وہ رات کے کسی حصے میں اچانک کوئی پریشانی لاحق ہونے پر بلا جھجھک اپنی رات گذار سکیں یہی وقت کا تقاضا ہے اور یہی وقت کی ضرورت بھی ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ آج ہم جتنا اپنے دکھ سے پریشان نہیں ہیں اس سے کہیں زیادہ دوسروں کے سکھ سے پریشان ہیں بیان کیا جاتا ہے کہ جب روٹی اور بوٹی کا انتظام کرو تو سائز چھوٹی کردو لیکن تعداد بڑھالو، گوشت پکاؤ تو شوربا بڑھالو تاکہ وقت پڑنے پر پڑوسی کے کام آئے مذہب اسلام کی تو تعلیم یہ ہے کہ اگر پڑوس میں بچہ روئے تو دوسرا پڑوسی یہ سوچ کر بیچین ہوجائے کہ کہیں میرا پڑوسی بھوکا تو نہیں ہے کہیں اس کے گھر کے چولہے میں آگ کا جلنا تو بند نہیں ہے کہیں کھانے پینے کے سامان سے محروم تو نہیں ہے اور یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک پڑوسی بھر پیٹ کھاکر سوگیا اور اس کا دوسرا پڑوسی فاقہ کشی کی بنیاد، پر اشیاء خورد نوش سے محرومی کی بنیاد پر رات بھر بھوکا رہ گیا تو وہ بھر پیٹ کھاکر سونے والا پڑوسی مومن نہیں ہوسکتا بھلے ہی اس نے عشاء و فجر کی نماز بھی ادا کی ہو،، پڑوسی کا مقام و مرتبہ اور حق اتنا زیادہ ہے کہ اس میں ذات برادری، مذہب اور مسلک کی شرط بھی شامل نہیں ہے پڑوسی صرف پڑوسی ہے خود اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم جب پڑوسیوں کے حقوق بیان فرماتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو تشویش ہونے لگتی اور خدشہ ہونے لگتا کہ کہیں اللہ کے نبی ہماری جائداد میں پڑوسیوں کو حصہ دار نہ ٹھہرا دیں یہ حقوق ہیں پڑوسیوں کے اور آج کے ماحول میں پڑوسیوں سے نااتفاقی عام ہے، پڑوسیوں کی غربت کا مذاق اڑانا عام ہے کل تک غیر قوموں کے لوگ کہیں سفر کے لئے جاتے تھے تو اپنی لڑکیوں کو پڑوس کے مسلمانوں کے حوالے کرکے جاتے تھے لاکھ اسلام و مسلمان دشمنی کے باوجود بھی انہیں اس بات کا یقین تھا کہ ہمارا پڑوسی مسلمان ہے تو ہم گھر رہیں نہ رہیں لیکن ہمارا گھر محفوظ ہے ہم اپنی بچیوں کو ان کے گھر بطور حفاظت، بطور امانت رکھ کر کہیں جائیں گے تو یہ قوم مسلم خیانت نہیں کرسکتی لیکن آج ماحول اور معاشرے میں برائیاں آسمان چھو رہی ہیں ایک پڑوسی کی بہن دوسرے پڑوسی سے خطرہ محسوس کرتی ہے اور خطرہ ہوبھی رہا ہے اور ایک پڑوسی مالدار ہے دوسرا پڑوسی غریب ہے، کمزور ہے تو مالدار پڑوسی اسے سہارا دینے کے بجائے اسے دباتا ہے غاصبانہ قبضہ تک کر بیٹھتا ہے اور یہی نہیں ہر شعبے میں آج کمزوروں کا حق مارا جارہا ہے ان کے ساتھ ناانصافی کی جار ہی ہے یہاں تک کہ جہاں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تعلیم دی جاتی ہے، درس و تدریس کے فرائض انجام دئیے جاتے ہیں وہاں پر بھی کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کا حوالہ دیکر نہ جانے کتنے ایسے اساتذہ و مدرسین کو ایک جھٹکے میں مدارس سے، درسگاہ سے سبکدوش کردیا گیا جو دو ہزار سے پانچ سات ہزار روپے کی تنخواہ میں درس و تدریس کی خدمات کو انجام دے رہے تھے اور اسی پانچ سات ہزار روپے میں اپنا اور اپنے کنبے کی کفالت کررہے تھے اور اسی مقام پر ایسے بھی اساتذہ ہیں جنہیں سرکاری مہر لگی ہوئی ہے جن کی تنخواہیں اسی نوے ہزار روپے تک ہے ان سے نہ کسی کو چندہ مانگنے کی ہمت ہے اور نہ ہی انہیں کچھ کہنے کی ہمت ہے تو یہاں پر بھی حق کمزوروں کا ہی مارا گیا لاپرواہی، بے حسی، بے بسی کا بول بالا ہے کوئی غریب بھوکا مرجائے، سردی سے مرجائے تو کہدیا جاتا ہے کہ نشے کا عادی رہا ہوگا، کوئی پریشان حال ہے تو اس پر کام چوری کا الزام عائد کردیا جاتا ہے، کوئی ہاتھ بھی پھیلاتا ہے تو چار پیسے اس کے ہاتھ میں ایسے رکھا جاتا ہے کہ اس کی خودداری تک چھین لیا جاتا ہے اور کہنے کے لیے بار بار کہا جاتا ہے کہ کسی کی مدد کرو تو ایسے کرو کہ داہنے ہاتھ سے دو تو بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو لیکن بیحیائی اتنی ہے کہ سردی کے موسم میں کسی شخص کو چالیس روپے کا کمبل بھی دیا جاتا ہے تو لینے والے کو مجرم کی طرح بیٹھا کر اس کے سر کے اوپر کمبل پھیلا کر دس دس آدمی دونوں ہاتھوں سے کمبل پکڑ کر فوٹو کھینچاتے ہیں اور اس فوٹو کو سوشل میڈیا سے لیکر اخبار کے صفحات تک خوب تماشہ کیا جاتا ہے یہ کسی کی غربت اور لاچاری کا مذاق نہیں تو اور کیا ہے،، یہی وجہ ہے کہ رات میں کتنے لوگ فٹپاتھ پر اخبار بچھاکر سوجاتے ہیں، اپنے ٹھیلے اور رکشے پر اپنے جسم کے بوسیدہ کپڑوں میں لپٹ کر سوجاتے ہیں لیکن کوئی کچھ دیتا ہے تو وہ لینے سے کتراتے ہیں لیکن ہاں سارے لوگ ایسے نہیں ہیں بلکہ آج بھی ایسے لوگ ہیں جن کے سینے میں انسانیت کا درد ہے انہیں اس بات کا احساس ہے کہ ہم غریبی کا خاتمہ نہیں کرسکتے لیکن خفیہ طریقے سے ان کی امداد کرکے ہم اللہ و رسول کی خوشنودی ضرور حاصل کرسکتے ہیں اور یہی جوش اور جذبہ ہر ایک کے اندر ہونا چاہیے اور بالخصوص مسلمانوں کے اندر سب سے زیادہ ہونا چاہیے اس لیے کہ مذہب اسلام میں زکوٰۃ کا نظام ہے اور زکوٰۃ کے نظام کے باوجود بھی کوئی بھوکا مرے تو واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ زکوٰۃ کے جو اصل مقاصد ہیں، جو فوائد ہیں، جو احکام ہیں اس کے مطابق زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں کی جارہی ہے بلکہ اس کی اہمیت و فضیلت کو ایک مخصوص مقام تک محدود کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس کے اصل حقدار اس مخصوص و عظیم الشان سہولت سے محروم رہ جاتے ہیں

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے