1947 ء کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب شمالی ہند کی طرف آنے والی ہر ٹرین میں بعض بوگیاں خون سے سرخ ہوکر آرہی تھیں اور یہ ہندوستان کی تاریخ کا پہلا واقعہ کہا جاسکتا ہے کہ جب لکھنؤ جیسے کسی بڑے شہر کے اسٹیشن پر زخمیوں کے لئے یا راستے میں دم توڑ دینے والوں کے لئے جماعت اسلامی جیسی کسی جماعت نے کیمپ لگایا ہو، جس میں ہر سائز کے زنانے مردانے کپڑے اور فوری مرہم پٹی کا سامان اور درجنوں دیندار ورکر ہر گاڑی کو پوری طرح دیکھ کر زخمیوں کو جن کی تعداد نہ جانے کتنی ہوتی تھی ان کی حالت کے مطابق انہیں راحت پہونچاتے تھے۔
جماعت اسلامی کیمپ کے ذمہ داران کو جو اپنے وطن جانا چاہتا تھا مرہم پٹی کراکے، کپڑے تبدیل کراکے، کھانا دودھ اور پھلوں سے پیٹ بھرواکر اسے بس یا ٹرین سے روانہ کردیتے تھے۔ اور جن کی حالت سفر کے قابل نہیں تھی انہیں سحر نرسنگ ہوم میں لے آتے تھے۔ ہوسکتا ہے ڈاکٹر غوث صاحب کے پاس اس زمانہ کا ریکارڈ محفوظ ہو ورنہ انہیں یہ تو یاد ہوگا کہ ان کے نرسنگ ہوم میں کتنے مریضوں کا علاج ہوا جس کا انہوں نے صرف دواؤں کا خرچ لیا اور سب کچھ اپنی طرف سے کیا؟
شرد پوار کی سرپرستی میں چلنے والی مرہٹہ کانگریس حکومت نے اُن ہزاروں مسلمانوں کی موت، زخمیوں اور تباہی کی تحقیقات تو جسٹس کرشنا کے سپرد کردی اور مسلم دشمنی کے جذبہ کی تسکین کے لئے بم دھماکوں کی تحقیقات اس سی بی آئی کے سپرد کردی جس کا پہلے دن سے اب تک کا ریکارڈ یہ ہے کہ وہ حکومت کی نظر دیکھ کر رپورٹ بناتے ہیں کہ حکومت کیا چاہتی ہے؟ اور حکومت جو چاہتی تھی اس کا حاصل یہ نکلا کہ سی بی آئی نے 33 باحیثیت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور معزز مسلمانوں کو ملزم بنایا جن میں ایک میمن خاندان کے چار افراد بھی ہیں۔ ان میں سے سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے مقرر کئے گئے جج نے بھی ’’جو حکم حضور کا؟‘‘ پر عمل کرتے ہوئے بارہ مسلمانوں کو موت کی سزا اور بیس کو عمرقید کا تحفہ دیا۔ بعد میں چھان بین میں کسی کو رہا کیا کسی کی سزا تبدیل کی اور ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ جو آج 52 برس کے ہیں اُن کی پھانسی کی سزا باقی رکھی جو سپریم کورٹ میں بھی باقی رہی، صدر جمہوریہ نے بھی رحم کی اپیل خارج کردی اور جب سپریم کورٹ میں آخری درخواست دی کہ یعقوب میمن 21 برس سے جیل میں ہے اسے ایک بار بھی ضمانت نہیں ملی جو عمر قید کی برابر سزا ہے اس لئے اسے دوہری سزا نہ دی جائے تب بھی سپریم کورٹ کے تینوں معزز ججوں نے اس کی پھانسی برقرار رکھی اور شاید 30 جولائی کو اسے پھانسی دے کر کلیجہ ٹھنڈا کرلیا جائے گا۔ اور کیونکہ حکومت آخری درجہ کی بزدل ہے اس لئے وہ شاید اس کے جسدخاکی کو افضل گرو کی طرح ناگپور جیل میں ہی دفن کردے۔
جب جب بم دھماکوں کی کوئی پیشی ہوتی ہے اس دن ہر ٹی وی چینل پورے دن اس ملک کے منفرد حادثہ پر آٹھ آٹھ آنسو روتا ہے اور کسی بے ایمان، بے غیرت اور بے شرم چینل کو یا کسی ہندو لیڈر کو یہ یاد نہیں آتا کہ بم دھماکوں سے ایک دن پہلے اور اس دن جو ہزاروں مسلمان قتل ہوئے ان کا مقدمہ کہاں چلا؟ اس کے مجرموں میں کتنوں کو پھانسی کتنوں کو عمرقید اور کتنوں کو دس سال کی سزا دی گئی؟ ہر ہندو لیڈر اسے آزاد ہندوستان کا بے مثال حادثہ بتا رہا ہے اور یہ اس حد تک درست ہے کہ کبھی 257 ہندو مسلمانوں کے ہاتھوں آزاد ہندوستان میں کبھی نہیں مرے۔ لیکن اس موقع کے دیکھنے والے جو زخمی لکھنؤ اُترے انہوں نے بتایا کہ اگر بم دھماکے نہ ہوتے تو ممبئی میں مسلمان کسی کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے نہ ملتا۔ اس لئے کہ ہر ہندو پارٹی کا یہ مشترکہ منصوبہ تھا ممبئی کو مسلم مکت بنا دیا جائے۔
ہم نہ ہندو لیڈروں کو کہتے ہیں نہ ٹی وی کو ہم صرف ہندوستان کی اس عدلیہ کے بارے میں کہتے ہیں جس کی شان میں قصیدے لکھتے لکھتے اور قصیدے پڑھتے پڑھتے مسلمان صحافیوں کے قلم گھس گئے اور مسلم لیڈروں کی زبانیں تھک گئیں کہ وہ جب اُن کے سامنے وہ مسلمان مجرم بناکر پیش کئے جاتے ہیں جن کے متعلق سچ یا جھوٹ یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اتنے ہندوؤں کو مارا ہے تو اس کے سوچنے اور فیصلہ کرنے کا انداز بدل جاتا ہے۔ آج مسلمان کم اور ہندو زیادہ ایسے ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ مرحوم افضل گرو پارلیمنٹ حملہ میں شریک نہیں تھا اور اس کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا اور سب نے یہ کہا کہ اسے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا پورا موقع بھی نہیں دیا گیا اور سب سے بڑی عدالت نے بھی زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں سمجھی اور کانگریسی حکومت نے اسے ایسی بے شرمی کے ساتھ پھانسی دے دی جس پر انصاف کی دنیا تھو تھو کررہی ہے اور اس کے جنازہ کی جیسی بے حرمتی کی ہے اس کی اس سے کم سزا نہیں ہے کہ اس کے ذمہ داروں کی لاشوں کو کتوں کی طرح سڑکوں پر گھسیٹا جائے۔
ہم سزائے موت کے مخالف نہیں ہیں۔ جان کا بدلہ جان ہی ہے۔ لیکن اگر ان پر عدالت آنکھ بند کرکے اعتماد کرے جن کی وفاداریاں صرف حکومت کی ڈگڈگی پر ناچتی ہوں تو وہ عدلیہ نہیں ایجنسی ہے۔ راجیو گاندھی کے قاتلوں کو، سردار بینت سنگھ کے قاتل کو، سریندر کوہلی کو، گجیندر سنگھ کو، ہاتھی دانت اور چندن کی لکڑی کے اسمگلر بادشاہ ویرپن کے ساتھیوں کو، بریگیڈیئر شیام لال کھنہ کو اور دھرم پال کو صرف اس لئے پھانسی نہیں دی گئی کہ وہ بیس برس جیل میں گذار چکے تھے۔ لیکن یعقوب میمن جو 21 برس سے جیل میں ہے اسے اس لئے پھانسی دینا ضروری ہے کہ مسلمان دوبارہ ایسی ہمت نہ کرسکیں۔
سنبھل میں 1978 ء میں فساد ہوگیا تھا اس میں اتفاق سے ہندو زیادہ مار دیئے گئے تھے اس وقت سنا تھا کہ تھانے میں بیٹھ کر ہندو وکیلوں کی مدد اور تھانے کے ذمہ داروں کی مدد سے رپورٹ لکھی گئی تھی۔ جس میں محلہ دیپاسرائے (جو مسلمانوں کا قلعہ ہے) وہاں کے ہر اس خاندان کے لڑکوں کو ملزم بنایا گیا تھا جو ماشاء اللہ بہت خوشحال اور بڑے کاروباری تھے۔ مقصد ملزموں کو سزا دلانا نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کی معاشی حالت کو تباہ کرکے انہیں ہندوؤں کا نوکر بنانا تھا۔ صرف اس الزام میں جس میں ایک فیکٹری میں شاید 14 ہندو مار دیئے گئے تھے 80 لڑکوں کو ملزم بنایا گیا تھا۔
خود ہم دونوں بھائیوں کے خلاف 1968 ء میں 25 مقدمات اس لئے چلائے گئے تھے کہ جب ہر دن کچہری میں گذرے گا تو یہ ندائے ملت میں کچھ لکھ نہ پائیں گے۔ مراد آباد، میرٹھ، فیروز آباد، علی گڑھ، جمشید پور اور بھاگل پور میں فساد الگ رہا اور ملزم بنانے کا کام الگ ہوا۔ سی بی آئی نے ممبئی بم دھماکوں میں جسے بھی پکڑا اس کی کہانی خود بنائی اور حیرت ہے کہ وہی کہانی بعض اخباری خبروں کے مطابق سپریم کورٹ میں بھی دہرائی گئی کہ یعقوب نے پاکستان دوبئی ہانگ کانگ میں کیا کیا کیا؟ میمن برادری مسلمانوں میں سب سے دولتمند برادری ہے اور مسلمان لکشمی کی پوجا نہیں کرتے وہ پوری زکوٰۃ دیتے ہیں جس سے کروڑوں مسلمانوں کی کمرسیدھی ہوتی ہے اور لاکھوں چھوٹے بڑے مدرسے چل رہے ہیں۔ وہ زکوٰۃ ہی نہیں دیتے، صدقات، عطیات اور امداد کے نام پر اربوں روپئے دیتے ہیں اور ہر ہندو حکومت اُن کی کمر توڑ ناچتی ہے۔ ہم اس معاملہ میں گاندھی جی کو الگ نہیں کرسکتے کہ انہوں نے مسلمانوں کو ہندوستان میں روکنے کے لئے برت رکھا وہ بہت دور اندیش تھے وہ بھی یہی سوچتے تھے کہ آزادی کے بعد سونے کی چڑیا کے پر تو ہندو کو مل جائیں گے پھر ان کی دکان کے تالے کھولنے والے، کام کرنے والے راج مستری، مزدور، بڑھئی، لوہار، ڈرائیور، چپراسی اور خدمت گار کہاں ملیں گے؟
ہم آج پوری ذمہ داری سے لکھ رہے ہیں کہ ہر ہندو وہ بڑا ہو یا چھوٹا، برہمن ہو یا دلت یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان اپنے لئے پاکستان نام کا ملک لے چکے۔ اب یہ ہندوؤں کے ملک میں رہ رہے ہیں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ 1945 ء کے الیکشن میں 80 فیصدی مسلمانوں نے اسی نام پر ووٹ دیئے تھے کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ اس لئے نہیں رہ سکتے کہ ہماری اور ان کی یہ چیز الگ ہے۔ اور ہمیں مسلمانوں کے لئے الگ ملک دے دیا جائے۔ یہ مسلم لیگ نے مانگا اور انگریزوں اور ہندوؤں نے دے دیا۔ اس کے بعد ہمارا قانونی حق ختم ہوگیا۔ یہ ہندو حکمراں پارٹی کا احسان ہے کہ اس نے مسلمانوں کو ووٹ کا حق دے دیا۔ اگر اس وقت نہ دیا ہوتا یا اب سبرامنیم سوامی جیسے ذہن کے لوگوں کے مطالبہ پر کہ مسلمانوں سے ووٹ کا حق لے لیا جائے عمل کرلیا جاتا تو شاید چھوٹے سے چھوٹے الزام میں بھی مسلمانوں کو پھانسیاں دے دی جایا کرتیں۔
جج ماتحت عدالت کے ہوں، ہائی کورٹ کے ہوں یا سپریم کورٹ کے وہ اس سماج سے ان کرسیوں تک جاتے ہیں جس سماج کی پولیس یا سی بی آئی مسلمانوں کو ملزم بناکر پیش کرتی ہے۔ وہ بھی اگر ہر ہندو کی طرح سوچ کر فیصلہ کرتے ہیں تو حیرت کی نہیں افسوس کی بات ہے۔ ہم کیسے مان لیں کہ 1993 ء سے اب تک جتنے جج اُن بڑی کرسیوں پر بیٹھے ان میں سے کسی کو کرشنا کمیشن کی رپورٹ کی خبر نہ ہو یا یہ معلوم نہ ہو کہ دو ہزار مسلمانوں کے قتل کے بعد اس لئے کسی نے دھماکے کئے کہ مزید مسلمان قتل نہ ہوں محترم جج صاحبان اس پہلو سے بھی سوچ سکتے تھے کہ جیسے گودھرا کا ردّعمل نریندر مودی کے بقول احمد آباد میں دو ہزار مسلمانوں کو جلاکر مارنا یا بندوق اور تلوار سے مارنا ہوسکتا ہے اسی طرح ممبئی بم دھماکوں کے ذریعہ بھی ہوسکتا ہے۔
یاد نہیں کس سنہ کی بات ہے۔ گجرات ہائی کورٹ کے ایک جج نے مودی سرکار کے اس فیصلہ کی خبر کو جو اخبار میں چھپی تھی پٹیشن قرار دے کر فیصلہ کردیا تھا کہ ماسٹر پلان کو پورا کرنے کی راہ میں جتنی مسجدیں، درگاہیں اور وہ مندر آتے ہوں جو تین سو برس کے اندر بنائے گئے ہوں انہیں سب کو صاف کردیا جائے۔ مودی صاحب جب پھاوڑا لے کر چلے تو ہر مسجد اور ہر درگاہ تین سو برس سے زیادہ پرانی نکلی۔ البتہ مندر بہت بڑی تعداد میں زد میں آرہے تھے۔ کیا اسی طرح سپریم کورٹ کے جج صاحبان جسٹس کرشنا کی موٹی مجلّد رپورٹ کو پٹیشن مان کر اس پر غور نہیں کرسکتے تھے؟ لیکن وہی بات کہ سماج کے اثر سے اور ماں کی گود اور باپ کی سرپرستی میں جس کی بھی پرورش ہوگی وہ سماج، باپ کے خون اور ماں کے دودھ کے اثر سے کیسے مختلف ہوسکتا ہے؟ صرف ایک آواز مشاورت کی آئی ہے کہ انصاف کا قتل ہورہا ہے لیکن مسلمانوں کا کیا کہنا اور کیا نہ کہنا؟
جواب دیں