کیسے ہوئی تعزیوں کی شروعات؟

جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کی سورہ التوبة میں ارشادفرمایاہے کہ ان عد ة الشھور عند اللہ اثنا عشر شھراً فی کتٰب اللہ یوم خلق السمٰوٰت و الارض منھا اربعة حرم یعنی حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ تعالی نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے، اللہ کے نوشتہ میں بار ہ ہی ہے اور ان میں سے چار حرام ہیں ان بارہ مہینوں کی ترتیب محرم سے شروع ہو تی ہے جبکہ ذی الحجہ پر ختم ہوتی ہے؛یہ چار مہینے محرم، رجب، ذیقعدہ اور ذی الحجہ ہیں۔
کیاہے محرم کی فضیلت ؟
تفسیرخازن کی رو سے عرب دور جاہلیت میں ان چار مہینوں کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور ان میں لڑائی جھگڑے کو حرام سمجھتے تھے اسی لئے ان کا نام حرمت والے مہینے پڑ گیا۔ اسلام نے ان کی حرمت و عزت میں مزید اضافہ کیا۔ان مہینوں میں نیک اعمال اور اللہ تعالی کی اطاعت پر ثواب اور اس کی نافرمانی پر گناہ ،عام دنوں کے مقابلے بڑھ جاتے ہیں۔لہٰذا ان مہینوں کی حرمت توڑنا جائزنہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس مہینہ کو مختلف اسباب کی وجہ سے اہم مقام حاصل ہے۔ اسی سے اسلامی کلینڈر کا آغاز ہوتا ہے ،جو مسلمانوں کی اکثریت کو یاد نہیں رہتا جبکہ 31 دسمبر جس میں ایک دوسرے کونئے سال کی مبارک باد دی جاتی ہے ، آتش بازیاںچھوڑی جاتی ہیں اور ٹھمکے لگائے جاتے ہیں، جو دراصل غیروں کی ایجاد کردہ رسومات ہیں۔دوسری اہمیت اس وجہ سے کہ اسی مہینہ کی دسویں تاریخ کو اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دی تھی اور یہ بھی کہ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی، اسی دن جنت وجود میں آئی، اسی دن سفینہ نوح علیہ السلام جودی پہاڑ پر رکا۔
محرم اور عاشورہ کے روزے کیوں؟
مسلم 3611میںحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ  رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ محرم کے روزے ہیں جو اللہ تعالی کا مہینہ ہے اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ اسی مہینہ میں پیش آیا تو لوگ سمجھتے ہیں کہ اسی کی یاد میں عاشورہ کے دن روزہ رکھا جاتا ہے جب کہ یہ واقعہ16ھ میں پیش آیا تھا اور شریعت کی تکمیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی دور میں ہو چکی تھی۔اس لئے اس روزے کا تعلق حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے نہیں ہے۔مسلم کی روایت 6791میں حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشورہ کے روزہ کی فضیلت کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایاکہ یہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ اس دن اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دی تو اس احسان کے شکرانے کے طور پر روزہ رکھنا مستحب قرار دیا گیا۔مسلم کی حدیث میںیوں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو انہوں نے قومِ یہود کو اس دن روزہ رکھتے ہوئے پایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا تو جواب ملا کہ اس دن موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات ملی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ہم تمہاری نسبت موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اس کا حکم دیا۔ایک اور روایت میںیوں فرمایا کہاگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو اس کیساتھ9محرم کا بھی روزہ رکھوں گا تاکہ یہود کی مخالفت بھی ہو جائے۔اس لئے اب9

«
»

اْداسی(ڈپریشن) سے نجات کے طریقے!

اسلام کی موجودہ تصویر بدلنے کی کوشش میں لگے ہیں اسماعیلی مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے