عبدالحمید نعمانی
ملک کے تعلق سے دو سوال بہت اہم ہیں۔ایک ہم کیسا ہندستان چاہتے ہیں اور اسے کس سمت میں لے جانا چاہیے؟ یہ سوال اس لیے قابل توجہ و بحث ہے کہ ملک کے کچھ عناصر ملک کی رنگارنگی کو ختم کرکے اسے زبردستی اپنے رجحانات وافکار کے مطابق بنانا اور رنگ دینا چاہتے ہیں جب کہ ملک کے جغرافیائی حالات، مختلف قسم کی تہذیب وروایات رائج ہونے کے سبب عملاً ممکن نہیں ہے۔ یہ پہچان ہندستانی ہونے کے حوالے سے ہے۔ کسی ایک کمیونٹی ہندو ہونے کے حوالے سے نہیں جیسا کہ،گرو گولولکر، موہن بھاگوت وغیرہ کا کہنا اور سمجھنا ہے۔
جتنے لوگ ملک کے آئینی طور سے شہری ہیں۔ ان سب کا ہندستا ن ہے۔ چاہے ان کا رہن سہن، طرز حیات، ریتی رواج، مذہب ونظریہ کچھ بھی ہو اور جتنے بھی مختلف ہوں۔ جس طرح ایک ماں کے الگ الگ بیٹے مختلف افکار و خیالات کے ہونے کے باوجود بیٹے ہی ہوتے ہیں اور ماں سے رشتہ قائم رہتاہے اسی طرح ایک ملک کے الگ الگ باشندے مختلف خیالات وروایات کے حامل ہونے کے باوجود برابر کے شہری ہوتے ہیں۔ ان کو اپنی طرح زبردستی اور مختلف ہونے کے سبب وطنی رشتے اور وفاداری پر کسی طرح کا سوال نہیں اٹھایا جاسکتاہے۔
ملک کے آئین نے یہاں کے تمام باشندوں کو اپنے اپنے نظریہ حیات، عقیدہ پر چلنے اور اس کے مطابق عمل کی آزادی دی ہے۔ اگر زبردستی ایک کمیونٹی کی فکر و روایات کا پابند بنانے کی کوشش کی جائے گی تو آزادی کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا۔ ایسا صرف اس لیے ہورہاہے کہ وطن کو نظر انداز کرکے ایک کمیونٹی چاہے وہ اکثریت میں ہی کیوں نہ ہو ،سب کچھ سمجھ لیاجاتاہے۔ یہ ایک عرصۂ دراز سے ایک مخصوص قسم کے راشٹرواد اور ہندو تو کے نام پر کیاجارہاہے۔خاص طور سے جولائی ۲۰۱۴ سے۔ یہ ہندو مسلم کی لڑائی نہیں ہے بلکہ آزادی و رواداری بنام فرقہ پرستی وشدت پسندی کی جنگ ہے۔ اس کا مقابلہ بلاامتیاز فرقہ و مذہب ملک کے تمام باشندوں کو کرنا ہوگا۔ بہ صورت دیگر ملک کا امن و قانون اور اس کے شہریوں کی آزادی خطرے میں پڑجائے گی۔ مذہب و فرقہ کی بنیاد پر جرائم اور مجرموں کے درمیان امتیاز اور بھید بھاؤ بدترین قسم کی ذہنی پستی اور فرقہ پرستی ہے۔یہ اگر عوام کے نمائندوں اور حکومت کے اعلی مناصب پر فائز افراد کی طرف سے ہوتو اس کی قباحت وشدت میں مزید اضافہ ہوجاتاہے۔ ملک میں قانون کی حکمرانی اور ایک نظام عدلیہ ہے۔ اس سے پرے جاکر کوئی بھی اقدام، جس میں جانب داری نظر آتی ہو، آنے والے دنوں کی بھیانک تصویر اور دور رس اثرات ونتائج کی طرف اشارہ کرتاہے۔وکلاء سے ملک کے عوام اپنے لیے قانونی چارہ جوئی اور راحت رسانی کی توقع رکھتے ہیں اور ایسا عموماً ہوتابھی ہے، لیکن فرقہ پرستی کے اثرات کی زد میں وہ بھی نظرآتے ہیں ، ان میں بہت سے باقاعدہ مذہب وفرقہ کے نام پر ایک فریق بن کر سامنے آجاتے ہیں۔ظاہرہے کہ یہ ملک وقوم کے لیے کوئی اچھی علامت نہیں ہے، اسے راشٹرواد کے نام پر جائز قرار نہیں دیاجاسکتا۔
غنڈوں ، مجرموں کو بھی راشٹروادی اور غیر راشٹر وادی میں تقسیم کرکے دیکھنے کا رجحان پروان چڑھ رہاہے۔یہ تعمیر وطن کا راستہ نہیں بلکہ تخریب وطن کا راستہ ہے، جو منزل تک نہیں جاتاہے بلکہ بندگلی کی طرف جاتاہے۔جب تک وطن اور اس میں رہنے والے باشندوں میں ، مذہب اور اس سے منسوب افراد میں فرق نہیں کیاجائے گا ،تب تک ترقی وبہتری کا صحیح آغاز نہیں ہوسکتاہے۔اس پر تمام مذاہب اور نظریات کے حامل ملک کے شہریوں کو سنجیدگی سے غور وفکر کرکے مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔ مسائل کا حل گالی اور گولی اور طاقت کے استعمال سے نہیں بلکہ بات چیت، ایک دوسرے کی آزادی وغیرہ کا لحاظ اور شدت پسندی کو ترک کرکے خوش گوار ماحول بناکر نکالنا ہوگا۔ اس کی زیادہ تر ذمہ داری آبادی کی اکثریت پر عائد ہوتی ہے۔اس کی فرقہ پرستی، قتل و غارت گری، فساد ، فاشزم کی شکل اختیار کرلیتی ہے جب کہ اقلیت کی فرقہ پرستی عموما رد عمل یا عدم تحفط کے احساس کا نتیجہ ہوتی ہے۔ تاہم تھوڑی کمی بیشی کے ساتھ دونوں طرح کی فرقہ پرستی غلط اور مہذب وپرامن سماج کی تشکیل میں رکاوٹ ہیں۔
یہ افسوس ناک اور بدقسمتی کی بات ہے کہ جو انتخابی عمل، جمہوری حکومت کی تشکیل کا راستہ و ذریعہ ہے، اسے فرقہ پرستی کے فروغ اور نفرت پھیلانے کا ذریعہ بنالیاگیاہے۔ انتخابات سے پہلے اور بعد دونوں حالت میں ایسے بہت سے اعمال واقدامات ہوتے ہیں جن سے مختلف فرقوں کے درمیان دوری ونفرت پیداہوتی ہے اور اسے ووٹ بینک مضبوط کرنے کے لیے خفیہ و علانیہ استعمال کیاجاتاہے۔
۲۰۱۹ء میں لوک سبھا کے عام انتخابات ہونے والے ہیں، ان میں کچھ مہینے باقی ہیں، لیکن ابھی سے فرقہ وارانہ خطوط پر غول بندی اور سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں ،خاص طور سے سنگھ کی سرپرستی میں بے جے پی جذباتی موضوعات، مذہبی علامتوں اور فرقہ وارانہ عنوانات کا برابر استعمال کررہی ہے۔ جب کہ نعرہ سب کا ساتھ سب کا وکاس ہے۔ معتبر ذرائع سے برابر اطلاعات مل رہی ہیں کہ بی جے پی ملک کے ان سادھو، سنتوں اور مہنتوں کی خدمت میں حاضری اور پناہ تلاش کررہی ہے جن کی اکثریت فرقہ پرستی سے متاثر ہے ۔ اس کے علاوہ سیاست سے الگ ثقافتی تنظیم ہونے کا دعوی کرنے کے باوجود سنگھ ،بی جے پی کو اپنے حساب سے چلانے اور ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات کے بعد بھی اپنی پسند کی سرکار بنانے اور اسے تاحال باقی رکھنے کے لیے تمام طرح کے جتن کررہاہے۔ اسے یہ کرنا بھی چاہیے کہ موجودہ سرکار میں سنگھ کا ہر طرح وکاس ہواہے۔ اس کی شاکھاؤں میں ۱۳؍فیصد اضافہ ہواہے۔ جب کہ ۲۰۰۴ء میں این ڈی اے کی سرکار گرجانے کے بعد ان میں کمی آگئی تھی۔گزشتہ دنوں ہریانہ کے سورج کند میں ۱۴ سے ۱۸ جون ۲۰۱۴ء تک سنگھ کی جو چار روزہ میٹنگ ہوئی تھی اس میں اقتدار میں واپسی و بحالی کے کئی فارمولے کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں پر غور کیاگیاتھا۔ ایک جمہوری نظام میں ایساکرنے کی سبھی کو آزادی ہے۔ اصل مسئلہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور سیکولر خطوط پر کام کرنے کا ہے۔ سنگھ مثبت خطوط پر کام کرنے کے بجائے زیادہ تر منفی و فرقہ وارانہ خطوط پر کام کرنے پر توجہ دیتاہے۔ گرچہ اس نے مسلم راشٹریہ منچ بناکر کچھ مسلم نام والے افراد کو سنگھ سے جوڑلیاہے، تاہم اس کے کام کے نہج میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے مذہب وفرقہ کے نام پر سماج تقسیم ہوتاہوا نظر آتاہے۔ایسی حالت میں سنگھ کے دعوے کے مطابق بھارت عالمی استاذ اور گرو کیسے بن پائے گا؟ کانگریس نے سنگھ کی فرقہ وارانہ سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پھر سے سیوادل کو زندہ کرنے کی بات کی ہے۔یہ کب تک عملی روپ لے گا کہنا مشکل ہے ۔ سردست سامنے کا سوال تو یہ ملک کو کس سمت میں لے جانا ہے اور ملک کے باشندوں کو کس طرح کا ہندستان چاہیے ؟
(مضمون نگار کی رائے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
17؍جولائی2018(ادارہ فکروخبر)
جواب دیں