کہیں ہم رمضان میں غریبوں کو بھول نہ جائیں!

از قلم: مولانا محمد رضوان حسامی و کاشفی

محترم قارئین! وبائی مرض کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں لاک ڈاؤن اور سیل ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔
    جسکی وجہ سے انسانی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے، کئی لوگ بھوک اور پیاس کی وجہ سے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، اور کچھ لوگ بھوک اور پیاس کی شدت کو برداشت نہ کرکے خود کشی کر چکے ہیں، اور کئی غیرت مند لوگ ایسے بھی ہیں جو سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور کے سامنے اپنی غربت و مجبوری کو نہیں سنا سکتے جسکی وجہ سے اپنے ہی گھروں میں گھٹ گھٹ کر زندگی گزار رہے ہیں۔سیدھی بات کی رپورٹ کے مطابق بہار کے ایک علاقے میں کھانا وغیرہ نہ ملنے کی وجہ سے وہاں کے بچے مینڈک کھانے پر مجبور ہیں،اور ایک علاقے میں مٹی میں پانی ڈال کر اسے روٹی کی طرح بنا کر پھر اسے دھوپ میں تپا کر مٹی کی روٹیاں کھا رہے ہیں۔جسے دیکھ کر جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کلیجہ منھ کو آنے لگتا ہے اور آنکھوں سے بے ساختہ آنسوؤں کی لڑیاں نکل پڑتی ہیں۔
    ایسے مجبور لوگوں کا کون پرسانِ حال ہے؟انکے سروں پر ہاتھ رکھنے والا کون ہے؟ ایسے بے یار و مددگار لوگوں کا معاون و غمگسار کون ہے؟حالانکہ قرآن و حدیث کے مطالعے سے ہمیں یہ بات ملتی ہے کہ انسان کے اندر اگر انسان کا درد نہ ہو تو وہ انسان انسان نہیں بلکہ حیوان ہے۔دنیا کے کسی کونے میں بھی اگر کوئی تکلیف و پریشانی میں ہو یا بھوک و پیاس کی شدت میں ہو تو اسکی تکلیف ہمارے دل میں محسوس ہونی چاہیے، ہمارا دل بے چین و بے قرار ہو جانا چاہیے۔اور یہ ایمان کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔ اگر خدانخواستہ ہمیں انکی تکلیف کا کوئی احساس ہی نہیں تو سمجھ لو کہ ہم بالکل بے حس ہو گئے ہیں، بالکل پتھر اور بے جان چیز کی طرح ہیں، ان پر قیامت ٹوٹ رہی ہے اور ہم آرام سے بے فکر ہیں، تو یہ ہمارے ایمان کے مردہ ہونے کی علامت ہے۔ہمارے نبی ﷺ نے تو یہاں تک فرمایا ہے: وہ مومن نہیں ہے جو خود تو پیٹ بھرکر سوئے اوراس کا پڑوسی بھوکاہو۔(بیہقی،طبرانی)۔اسی لیے خواجہ میر درد نے بھی کہا تھا…
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں 
    کچھ اللہ کے بندے تو تعاون کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ اسکا بہترین بدلہ انہیں عطاء فرمائے.لیکن حقیقی مجبور لوگوں تک انکی بھی رسائی نہیں ہوپا رہی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حقیقی مجبوروں، مسکینوں، ضعیفوں، یتیموں،بیواؤں اور مظلوموں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر انکی مدد کرکے انکی دعائیں لی جائیں۔اور جو بندہ بھی یہ ساری کوششیں کرے گا اللہ تعالیٰ اسکا دونوں جہاں (دنیا و آخرت) میں ضرور بھلا کریں گے۔ایک طویل حدیث میں اللہ کے نبی ﷺ نے قسم کھا کر فرمایا: بیشک صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا۔(الحدیث)
    حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا:ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے،نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے،اور نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے،جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت کو پوری فر ماتا ہے،اور جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی کوئی دنیاوی مشکل حل کرتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکلات میں سے کوئی مشکل حل فر مائے گا۔اور جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیوب کو چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب کو چھپائے گا۔
(بخاری،کتاب المظالم،حدیث:231)
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اے ابن آدم خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا۔(بخاری و مسلم)
اور اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: جو شخص اپنے بھائی کی حاجت میں کوشش کرے تو یہ اسکے لیے دس سال کے اعتکاف سے بھی افضل ہے۔(المعجم الأوسط)
اور اسی طرح عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما-سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”رحم کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو، تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا“۔(ابوداؤد،ترمذی و احمد)
جو لوگ معاشرے سے غربت وافلاس اور ضرورت واحتیاج دور کرنے کے لئے اپنا مال ودولت خرچ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے خرچ کو اپنے ذمے قرض حسنہ قرار دیتے ہیں۔ ساتھ ہی اس بات کی بھی ضمانت دیتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں خرچ کئے گئے مال کو کئی گنا بڑھاکردیاجائے گا-(البقرہ:245) دوسروں کی مدد کرنا ان کی ضروریات کو پورا کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت پسندیدہ عمل ہے
اور ماشائاللہ اب تو رمضان کا مبارک مہینہ چل رہا ہے جس میں ہر چیز کا اجر و ثواب بڑھ جاتا ہے، جس میں نفل کا ثواب فرض کے برابر کردیا جاتا ہے، جس میں ہر وقت اللہ کی رحمت برستی رہتی ہے اور ہر ہمیشہ دل سے نکلنے والی دعائیں قبول ہوتی رہتی ہیں، تو اس مبارک مہینے میں خوب صدقہ و خیرات اور زکوٰۃ وغیرہ کے ذریعے غرباء کا تعاون کر کے بے حساب نیکیوں سے اپنے دامن کو بھر لیا جائے۔تاکہ کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے دربار عالی میں کچھ تو کھڑے ہونے کے قابل ہو جائیں اور اگر اللہ تعالیٰ پوچھے کہ میں بھوکا تھا پیاسا تھا تم نے کیا کیا؟ تو ہم یہ ٹوٹے پھوٹے اعمال اللہ کے سامنے پیش کر سکیں۔اور اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اپنی رضا و خوشنودی عطاء فرمادے۔
میں دعاء گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم تمام کو مذکورہ چیزوں پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین ثم آمین

 

«
»

مسلم بھائیوں سے ایک دردمندانہ اپیل

لاک ڈاؤن میں نمازِ تراویح کیسے پڑھیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے