کہاں میں اور کہاں کلدیپ نیرؔ

کلدیپ صاحب نے اشاروں کنایوں میں اور ڈھکے چھپے پرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو کے رویّہ کی کسی حد تک حمایت کی ہے۔ انہوں نے انا ہزارے کی بدعنوانی مخالف تحریک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں جے پرکاش نرائن جیسا ظاہر کیا ہے اور اروند کجریوال کو جنتا پارٹی کے پہلے وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی جیسا۔ ہمیں حیرت ہورہی ہے کہ ہمارے آئیڈیل نے یہ کیا کہہ دیا؟ جبکہ کجریوال کو وزیر اعلیٰ بنانے میں انا ہزارے نے ایک لفظ کا بھی تعاون نہیں دیا ہے بلکہ بی جے پی اور کانگریس کے جو مخالف انا ہزارے کے پاس شکایت لے کر گئے کہ اروند آپ کے نام پر ووٹ مانگ رہے ہیں انہیں دھتکار کر نہیں بھگایا بلکہ کسی حد تک کجریوال کو ہی قصوروار ٹھہرایا۔ اور بہت دنوں تک کرن بیدی ان کی بیٹی بنی رہیں اور کجریوال سے انہیں دور کرتی رہیں۔ کجریوال نے صرف اور صرف اپنے بل پر دہلی کو فتح کیا ہے۔ رہے پرشانت اور یوگیندر یہ دونوں صرف اس لئے عاپ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں کہ اسے 90 فیصدی اسمبلی کا حصہ ملا ہے۔ اگر کجریوال وہی 30-25 سیٹوں تک رہ جاتے تو دونوں آج کہہ رہے ہوتے کہ ہم نے تعاون نہیں کیا اس لئے سمٹ کر رہ گئے۔
جنتا پارٹی جے پی نے بنائی تھی ان کی ہی آواز پر کانگریس کی زخم خوردہ ہر پارٹی ان کے ساتھ آگئی بالکل ایسے ہی جیسے کانگریس کو سال دو سال پہلے ناپسند کرنے والی ہر پارٹی سونیا گاندھی کی قیادت میں نریندر مودی کی کسان دشمن پالیسی کی مخالفت کرنے کے لئے صدر محترم کے دربار میں چلی گئی اندرا گاندھی نے جب ایمرجنسی لگائی تو جے پی کی حمایت کرنے والی ہر پارٹی کو دشمن سمجھ کر جیل میں ڈال دیا 19 مہینے کے بعد جب سب باہر آئے تو جنتا پارٹی بنانے پر سب متفق ہوگئے اور جنوبی ہند کو چھوڑکر پورے ملک میں کانگریس کا صفایا ہوگیا۔ لیکن اس انقلاب میں صرف کجریوال کی طرح ایک لیڈر نہیں تھا۔ جے پی کے علاوہ بابو جگ جیون رام، چودھری چرن سنگھ، اٹل بہاری باجپئی، لالو یادو، راج نرائن، نتیش کمار، ہیم وتی نندن بہوگنا، چندرشیکھر، آچاریہ کرپلانی اور نہ جانے کتنے اور کون کون؟ مرار جی ڈیسائی پہلے وزیر اعظم بنے تو اس لئے نہیں کہ جنتا پارٹی میں ان کا کوئی اہم کردار تھا بلکہ اس لئے کہ جے پی اور آچاریہ کرپلانی نے انہیں بنا دیا جس سے کئی اُمیدوار ناراض ہوئے مگر بھوشن اور یادو کی طرح بیان بازی کسی نے نہیں کی۔
انتشار اس وقت ہوا جب راج نرائن نے ڈبل ممبر شپ پر اعتراض کیا۔ انہوں نے کہا کہ کہا یہ گیا تھا کہ جو جنتا پارٹی میں آئے وہ اپنی کشتی جلاکر آئے۔ جن سنگھ کے اٹل اور اڈوانی کا دفتر جھنڈا اور عہدہ وہاں بھی ہے اور وہ جنتا پارٹی میں وزیر بھی ہیں وہ ان میں سے ایک عہدہ چھوڑیں۔ جن سنگھ اس وقت بھی آج ہی کی طرح آر ایس ایس کی گود کا بچہ تھی۔ انہوں نے جنتا پارٹی کو چھوڑ دیا۔ عام آدمی پارٹی میں کئی کیا ایک بھی سیاسی پارٹی نہیں ہے۔ افراد ہیں جن کی وفاداریاں الگ الگ پارٹیوں سے رہی ہوں گی۔
جنتا پارٹی سے رفتہ رفتہ وہ پارٹیاں الگ ہوتی گئیں جو یہ سمجھنے لگی تھیں کہ اگر وہ الگ نہیں ہوئیں تو اپنا وجود کھو بیٹھیں گی اور آج سماجوادی پارٹی، جنتا دل یو، راشٹریہ جنتا دل جیسی پارٹیاں جنتا پارٹی کے ہی انڈے بچے ہیں۔ جن سنگھ جنتا دل میں رہ کر سیکولرازم کا ذائقہ چکھ چکی تھی وہ الگ ہوئی تو اس نے نام بدل کر بھارتیہ جنتا پارٹی رکھ لیا اور جھنڈے میں ایک پتلی سی پٹی ہری لگادی جس کی وجہ سے آج مودی سرکار میں ڈیڑھ وزیر نام کے مسلمان بھی ہیں۔ مسٹر بھوشن بہت کامیاب وکیل ہیں بہت روشن خیال اور قابل قدر ہیں لیکن وہ یا یوگیندر یادو پارٹی نہیں ہیں صرف شامل باجا ہیں جو کسی باجے کے ساتھ بجتے ہیں اگر الگ سے بجایا جائے تو ان کی کوئی آواز نہیں ہے۔ محترم کلدیپ نیر صاحب کو ہم سے زیادہ معلوم ہوگا کہ شرد پوار کو سونیا سے اختلاف تھا تو انہوں نے اپنی پارٹی بنالی۔ ممتا بنرجی ناراض ہوئیں تو انہوں نے اپنی الگ پارٹی بنالی پوار اور ممتا دونوں اپنے اپنے صوبہ میں ایک مقام رکھتے ہیں۔ جنتا پارٹی بکھری تو لالو نے پندرہ برس بہار میں حکومت کی نتیش کمار دس سال سے حکومت کررہے ہیں ملائم سنگھ کی پارٹی چوتھی بار اترپردیش پر حکومت کررہی ہے۔ اگر پرشانت اور یوگیندر عاپ کی اس بلندی کے اتنے ہی حصہ دار ہیں جتنے کجریوال تو انہوں نے پہلے کبھی کوئی پارٹی کیوں نہیں بنالی یا اب کیوں نہیں بنا لیتے؟ پرشانت بھوشن ہوسکتا ہے کسی پارٹی سے وابستہ رہے ہوں ان کے والد ششی بھوشن صاحب اٹل جی کی حکومت میں وزیر قانون تھے اور دو سال پہلے ہم نے انہیں انا ہزارے کے ساتھ دیکھا تھا جب وہ مذاکرات کی ٹیم کا حصہ تھے۔ انا ہزارے نے تحریک کھڑی کی تو کجریوال کے ساتھ پرشانت بھوشن بھی تھے۔ لیکن کجریوال جب آر پار کی لڑائی لڑرہے تھے اس وقت پرشانت پارٹ ٹائم ساتھی تھے ان کا پورا وقت سپریم کورٹ میں گذرتا تھا۔
غالباً کلدیپ صاحب دہلی میں ہی رہتے ہیں وہ ہمارے مقابلہ میں کہیں زیادہ ان دونوں حضرات سے قریب بھی ہیں اور واقف بھی ہوں گے وہ کوئی شاذیہ علمی کی عمر کے نہیں ہیں۔ اگر وہ سیاست کی اتنی ہی اہم ضرورت ہیں تو انہوں نے کجریوال سے پہلے پارٹی کیوں نہیں بنالی؟ کلدیپ صاحب نے لکھا ہے کہ وہ دونوں پارٹی کے بانیوں میں ہیں۔ یہ ان ہی کی بات نہیں ہر پارٹی کا بانی یا خالق تو ایک ہی ہوتا ہے لیکن کاندھا لگانے والے کئی ہوتے ہیں۔ اب اگر ہر کاندھا لگانے والا ہر بات میں بانی کی برابری کرے اور بانی کو اپنے اشاروں اور احکامات پر چلائے تو یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب کوئی دوسری مثال سامنے ہو اور کہا جاسکے کہ جیسے فلاں پارٹی ہے۔ کانگریس کے کئی ٹکڑے ہوگئے جنتا دل کے بھی ٹکڑے ہوگئے اور سب سے پہلے کمیونسٹ پارٹی کے تین ٹکڑے ہوچکے ہیں صرف اسی لئے کہ جس نے کاندھا لگایا ہے وہ برابر کا حصہ دار اور عہدیدار بننا چاہتا ہے۔
اندرا جی سے لے کر سونیا تک کانگریس کو دیکھ لیجئے کہ کوئی ایک حرفِ آخر ہے اٹل جی کے بعد آج مودی صاحب ہیں وہ جب اوپر سے بولتے ہیں تو ہماری یا غریبوں کی سرکار کہتے ہیں اور جب اندر سے بولتے ہیں تو گرجدار آواز میں میری سرکار کہتے ہیں اور اس لئے کہتے ہیں کہ چاہے جھوٹ بول کر، چاہے سنہرے خواب دکھاکر یا فریب دے کر 280 سیٹیں لائے لیکن مودی ہی تو لائے اور یہ اسی طاقت کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے اڈوانی اور جوشی کو یوگیندر اور پرشانت کی طرح وہاں بٹھا دیا جہاں سے وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ مودی تم کیا کررہے ہو؟ میرے آئیڈئیل نیرؔ صاحب دہلی کی فتح صرف اور صرف کجریوال کا کارنامہ ہے اور اس میں تعاون ہزاروں ورکروں کا ہے لیکن نعرہ صرف ایک تھا کجریوال پانچ سال اور یہ نعرہ نہ یادو نے لگایا نہ بھوشن نے بلکہ وہ پارٹی کے ہارنے کے حق میں تھے اور یہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ کجریوال کچھ نیا کرکے دکھائیں گے لیکن شرط یہ ہے ؂ اگر شیطان کے شیروں نے بخشا۔
کلدیپ نیر صاحب کی تحریر پر قلم اُٹھانے کی جرأت صرف اس لئے کی کہ زندگی میں ان کی کوئی تحریر ایسی مجھے یاد نہیں جس میں جانبداری یا انہوں نے ذاتی پسند اور ناپسند کو معیار بنایا ہو۔ جہاں تک ان کی شخصیت کی بات ہے تو میرے لئے فخر کے ان چند لمحات میں سے ایک وہ بھی ہے جب 2012 ء میں رجت شرما کے چینل انڈیا ٹی وی کے 15 اگست کے پروگرام بٹوارہ میں ایک گھنٹہ تک مجھے کلدیپ نیر کے ساتھ گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے دکھایا گیا اس پر نہ جانے کتنے مبارکباد کے پیغام آئے۔ خدا اُن کی عمر دراز کرے۔

«
»

آج کی دنیا کے قارون

آر ایس ایس اور عیسائی دنیا آمنے سامنے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے