کہاں رہتے ہیں چاربیویوں والے مسلمان؟

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

آپ کسی ایسے ہندوستانی مسلمان کو جانتے ہیں جس نے ایک وقت میں چار بیویاں کر رکھی ہوں؟میں اپنی زندگی میں کبھی، کسی ایسے مسلمان سے نہیں ملا، اگر آپ جانتے ہوں تو ضرور آگاہ کریں،یقیناًایسا شخص تحقیق کا موضوع ہوگا۔ آج کے دور میں ایک بیوی کو سنبھال پانامسئلہ ہوگیا ہے ،چہ جائیکہ کوئی چار بیویاں رکھے اور کچھ لوگ تو پرائم منسٹر بن کر بھی ایک بیوی کو گھر لانے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ 
’’یہ شہادت گہہ الفت میں قدم ہے رکھنا‘‘
لوگ آسان سمجھتے ہیں، شوہر بننا
جہاں تک دو بیویوں کی بات ہے تو کچھ باہمت لوگ مل جائینگے مگر اس میں ہندویا مسلمان کی قید نہیں ہے۔ فلم اسٹار اوربی جے پی کے سابق ممبرپارلیمنٹ دھرمیندر، دو بیویوں والے ہیں۔ ان کی دوسری بیوی ہمامالنی ہیں جوبی جے پی کی ممبرپارلیمنٹ بھی ہیں۔ اب یہ نہ پوچھئے گا کہ جب ہندو میرج ایکٹ کے تحت دوسری شادی درست نہیں ہوتی ہے تو پھر ہمامالنی، دھرمیندر کی دوسری بیوی کیسے بن گئیں؟ملائم سنگھ یادو بھی دو بیویوں والے رہے مگر ان کی دوسری بیوی تب تک’’ مسز گپتا‘‘کہلاتی رہیں،جب تک کی اکھلیش یادو کی ماں، اس دنیا سے رخصت نہیں ہوگئیں۔اسی طرح ڈی ایم کے لیڈر کرونانیدھی بھی، ایک ساتھ دوبیویاں رکھنے والے رہے ہیں۔ ایسے میں حیرت ہوتی ہے، جب کوئی مسلمانوں پر الزام دھرتا ہے کہ وہ چار بیویاں کرتے ہیں اور چالیس بچے پیدا کرتے ہیں۔بھگواوادیوں کی طرف سے اس قسم کے الزام عام ہیں اور ان کے ذریعے، ملک کی ہندو آبادی کو مسلم آبادی میں اضافے کا خوف بھی دکھایا جاتا ہے۔ملک کا قومی میڈیا بھی ،اس الزام کی تشہیر میں کسی سے پیچھے نہیں ہے اور اب تو یہ معاملہ کورٹ تک بھی پہنچ چکا ہے۔سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کی ایک سے زیادہ شادی پر پابندی عائد کرے نیز’’حلالہ‘‘ پر بھی پابندی لگائے۔ اسی کے ساتھ’’ بھگواچھتر چھایا‘‘پانے والی کچھ’’ مسلم نما‘‘ خواتین نے کورٹ سے شرعی قوانین پر بھی پابندی عائد کرنے کی مانگ کی ہے۔ سپریم کورٹ نے کثرت ازواج اور’’ حلالہ‘‘ پر پابندی لگانے کی درخواست کو نہ صرف سماعت کے لئے قبول کرلیا ہے بلکہ اس پر فیصلے کے لئے ایک بڑی بینچ بھی بنادی ہے اور مرکزی سرکار کو نوٹس جاری کر،اسے اس سلسلے میں اپنی باتیں کورٹ کے سامنے رکھنے کو کہا ہے۔اس سے پہلے ’’تین طلاق‘‘ کے ایشو پر سپریم کورٹ ،فیصلہ سنا چکا ہے اور ایک قانون، پارلیمنٹ میں زیر غور بھی ہے۔ 
معاملہ کیا ہے؟
سپریم کورٹ آف انڈیا میں درخواست گزاروں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ایک سے زائد شادی اور حلالہ کے سبب صنفی مساوات کے قانون اور انصاف کے تقاضوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ ایک سے زائد شادی کا رواج جدید دور کے انسانی حقوق کے خلاف ہے اور مذہب کا لازمی حصہ نہیں ہے۔واضح ہوکہ اس سے پہلے جب تین طلاق کا معاملہ سپریم کورٹ میں چل رہا تھا تو مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے اٹارنی جنرل نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ ’’ حلالہ‘‘ اور ایک سے زائد شادی پر بھی فیصلہ سنایا جائے تو عدالت نے اسے مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ یہ کوئی 20۔20 میچ نہیں کہ ایک اُوَرمیں تین وکٹیں لی جائیں۔بہر حال اب نئے سرے سے کورٹ میں عرضیاں دی گئی ہیں۔ 
درخواستوں میں کیا کہا گیا ہے؟
مذکورہ معاملوں میں ایک عرضی گزار بی جے پی کے نیتا ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے بھی ہیں۔ اشونی کمار نے اپنی عرضداشت میں کہا ہے کہ شریعت ایکٹ 1937 کی دفعہ 2 جو نکاح حلالہ اور کثرت ازواج کو قانونی حیثیت دیتی ہے، اس کو ختم کردینا چاہئے کیونکہ یہ خواتین کے بنیادی حقوق(آرٹیکل 14

«
»

امت مسلمہ کا تحفظحالات حاضرہ کے تناظر میں

ڈیموکریسی بمقابلہ موبوکریسی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے