قارئین اس اسکیم کے بارے میں سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ یہ زندگی بیمہ (لائف انشورنس ) نہیں حادثاتی موت کا بیمہ ،Accidental Death Insuranceہے ۔بیمہ کے خواہش مند شخص کی عمر 18سے کم اور 70سال سے زائد نہ ہونی چاہیے اس کا اپنا بینک اکاونٹ ہوجس میں اس کا آدھار کارڈ نمبر بھی لازماً درج ہو ۔ سالانہ پریمیم کی رقم 12روپئے اس کے اکاونٹ سے براہ راست نکالی جائے گی ۔اس سُرکشا بیمے کا رینیول Renewalہر سال 30مئی سے قبل کروانا لازمی ہوگا ورنہ بیمہ مئی کی آخری تاریخ کو ختم ہو جائے گا اور اس سے پہلے کی جمع کی ہوئی رقم بہ حق سرکار ضبط ہو جائے گی ۔ یہ محض ایک حادثاتی موت بیمہ ہے جس کے لیے سرکاری طور پر
Term Insurance Accident Coverکی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ۔جس میں بیمے کی مجموعی رقم دو لاکھ روپئے تک ہی محدود ہے ۔ مطلب یہ کہ اگر کسی کے ایک سے زیادہ بینکوں میں اکاونٹ ہوں اور وہ یہ چاہے کہ ہر بینک کے ہر اکاونٹ سے ہر سال بارہ بارہ روپئے کا پریمیم کٹواتا رہے تو بھی ،اُسے حادثے کی صورت میں دو لاکھ کی رقم کا صرف ایک ہی بیمہ ملے گا ! اور باقی بینک اکاونٹوں میں جمع رقم ضایع ہو جائے گی ۔ اور جمع کی گئی زائد رقم واپس بھی نہیں ملے گی ۔ ناواقفیت کے سبب یہ غلطی کئی لوگوں نے کر رکھی ہے ۔ اور یہ دو لاکھ روپئے کا کلیم بھی 70 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے کسی حادثے میں ہونے والی موت ہی پر لاگو ہوگا ۔قدرتی موت ہونے پر ،خواہ 70 سال سے پہلے ہو یا بعد میں ،آپکی جمع کی ہوئی پوری رقم ڈوب جائے گی اور آپ کو کچھ بھی نہیں ملے گا ۔ اور کوئی حادثہ تو ہوا لیکن جان بچ گئی اور آپکے دونوں ہاتھ ،دونوں پاوں اور دونوں آنکھیں سلامت رہیں تو بھی دو لاکھ روپئے بہ حقِ سرکار ہضم ! یعنی بیمے کے دولاکھ روپوں کے لیے ان اعضا کی وقتی محرومی نہیں ،دائمی محرومی لازمی ہے !البتہ حادثے میں ایک آنکھ ہمیشہ کے لیے بے کار ہو جائے یا ایک ہاتھ یا ایک پاوں کٹوانا پڑے تو صرف ایک لاکھ روپئے ہی ملیں گے اور بس ۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ جن کو حادثہ پیش نہیں آئے گا ،یا جن کی موت بیمے کی مدت کے دوران نہیں ہوگی (یعنی جو ستر سال زندہ رہیں گے اُنہیں کچھ نہیں ملے گا اور انکی جمع کردہ پریمیم کی مکمل رقم سرکار کی ہو جائے گی ! اسی طرح جو لوگ اپنے بیمے کو ہر سال رینیو RENEWکرانا بھول جائیں گے یا جن کے وارث صحیح وقت پر صحیح طریقے سے کلیم کا فارم بینک میں جمع نہیں کرا سکیں گے اُنہیں کچھ نہیں ملے گا ۔ اور پریمیم کی بے حساب رقم سرکار کے خزانے میں جمع ہو جائے گی ۔ تو میرے بھولے بھالے دیش واسیو! نہ سب بیمہ کرانے والوں کو حادثہ پیش آنے والا ہے ،نہ سب کے سب 70 سال سے پہلے مرنے والے ہیں ،مطلب سمجھ گئے نہ آپ ؟ جن کو بھی دو لاکھ روپئے بیمے کے ملیں گے وہ رقم بیمہ لینے والوں کی جیب ہی سے آئے گی سرکار کسی کو پھوٹی کوڑی بھی اپنی جیب سے ادا کرنے نہیں جا رہی ہے !
مودی سرکار نے سرکاری بینکوں کے علاوہ ،نجی بینکوں اور نجی بیمہ کمپنیوں کو بھی یہ بے وقوف بنانے والی اسکیم چلانے کی اجازت دے رکھی ہے ۔ یہ در اصل کارپوریٹ اداروں (یعنی ملک کے تمام اڈانیوں اور امبانیوں ) اور نجی اداروں کو ہینگ اور پھٹکری کے بغیر ہی فیض پہنچانے اور منافع کا چوکھا رنگ چڑھوانے کا ایک طریقہ ہے ۔ گاوں دیہات اور چھوٹے قصبوں میں رہنے والا ملک کا بہت بڑا طبقہ کسان ،مزدور ، بے پڑھے لکھے یا کم تعلیم یافتہ عوام اور اُن بھولے بھالے بیچاروں پر منحصر ہے جنہوں نے کالے دھن کے 15 لاکھ روپئے حاصل کرنے کے لیے ابھی ابھی نئے بینک کھاتے کھلوائے ہیں ۔وہ سارے کے سارے لوگ ہر سال مئی کے مہینے میں اپنا بیمہ رینیو Renew کروا پائیں گے یا نہیں یہ بذات خود ایک بڑا سوال ہے اور اس کا جواب اتنا اظہر من ا لشمس ہے کہ اسی فائدہ اُٹھانے کے لیے مودی سرکار نے عوام کو اس جال میں پھانسا ہے ! جن کا بیمہ ختم ہو جائے گا اُن کی رقم ظاہر ہے کہ بینکوں اور بیمہ کمپنیوں ہی کے پاس رہے گی ! با لکل اسی طرح جیسے بینکوں میں نامعلوم افراد کے UNCLAIMED کھاتوں میں کروڑوں اربوں روپئے پڑے ہوئے ہیں ۔حکومت چاہے تو اس بے حساب رقم سے عوامی فلاح و بہبود کے سیکڑوں کام کر سکتی ہے لیکن ایسا نہ ابھی تک ہوا ہے نہ مستقبل میں کسی سرکار کا ایسا کوئی منصوبہ ہے ۔ عوام بد حالی کے شکار ہیں ،امیر اور زیادہ امیر ہوتے چلے جا رہے ہیں ،ملک میں ارب پتیوں کی تعداد ہر سال کُکُر مُتوں کی طرح بڑھ رہی ہے اور کسان دس دس بیس بیس ہزار روپئے کے معمولی معمولی قرضوں کے لیے خود کشی کر رہے ہیں اور حکومت کے وزیر ان کا مذاق اُڑا رہے ہیں ۔ ،ایسے میں ڈَر اِس کا ہے کہ 12 روپئے کا حادثہ (ایکسیڈنٹ ) بیمہ نکلوانے کے بعد حالات کی سختیوں سے تنگ آکر کوئی مجبور انسان بیمے کی رقم حاصل کرنے کی لالچ میں اپنے جسمانی اعضا نہ کٹوادے ! اور معاوضے کی خاطر کہیں اپنے ہی اپنوں کی زندگی کے گاہک نہ بن بیٹھیں ! ملوں کارخانوں اور فیکٹریوں میں مزدوروں کو پیش آنے والے حادثوں کی سچائی جاننے کے لیے حکومت کی جانب سے جو کوشش ہوتی ہے اس پر خود بدعنوانیو ں کے سیکڑوں سوالیہ نشان لگے ہوئے ہیں ۔ Accident Claim یا معاوضے Compensationکی لالچ میں جو فریب آئے دن ہوتے رہتے ہیں اُن سے کون واقف نہیں ۔
اب آپ ہی بتائیے کہ پردھان منتری کے اس قول میں کتنا دم ہے کہ ۔ہم نے 12 روپئے میں کفن نہیں انشورنس دیا ہے ۔۔؟
کوئی قاری چاہے تو جناب رشید افروز سے موبائل نمبر 09925603678یا ای میل [email protected]پر رابطہ کر کے اس غیر معمولی پوسٹ مارٹم کی داد دے سکتا ہے ۔ ہم نے تو صرف اس لیے اسے اخبار کے قارئین کی نذر کر دیا ہے کہ پچھلے ڈھائی ماہ کے دوران اس موضوع پر یہ پہلی تحریر ہے جو ہماری نظر سے گزری ہے ! (یو این این)
جواب دیں